کابل ایئرپورٹ

June 23, 2021

ستمبر میں امریکی فوجی انخلا کے فوراً بعد کیا افغان حکومت کابل کو اور خاص کر وہاں کے ہوائی اڈے کو کسی بھی امکانی حملے سے بچانے کی پوزیشن میں ہے؟ افغانستان میں فوج کشی میں امریکہ کے حلیف اور نیٹو ممالک اس بارے میں ابھی تک کوئی بھی حتمی پیش گوئی کرنے سے احتراز کررہے ہیں مگر عام تاثر یہی ہے کہ مستقبل کے حالات کافی مخدوش ہوں گے۔ اگرچہ فوری طور پر طالبان کی جانب سے کسی فیصلہ کن معرکے کا امکان نظر نہیں آتا مگر حال ہی میں امریکہ کے ایک بڑے اتحادی آسٹریلیا نے افغانستان میں نہ صرف اپنا سفارتخانہ بند کرنے کا اعلان کردیا بلکہ یہ بھی واضح کردیا کہ یہ فیصلہ بدلتی ہوئی سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر کیا جارہا ہے۔ آثار و قرائن سے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں اب مغربی طاقتیں افغانستان کو بچانے کی بجائے کابل ایئرپورٹ کو محفوظ بنانے کی فکر میں ہیں کیونکہ جب تک ایئرپورٹ کی سیکورٹی کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا جاتا فوجی انخلاکے بعد ان ممالک کی جانب سے آسٹریلیائی طرز کے مکمل سفارتی انخلا کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس وقت ایئرپورٹ کا انتظام ترک افواج کے ہاتھوں میں ہے جو افغان اسپیشل فورسز کے ساتھ مل کر وہاں کی سیکورٹی کے معاملات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جن مغربی ممالک نے افغان سیکورٹی فورسز کی تشکیل کی اور انہیں ٹریننگ اور وسائل دیئے وہی اب اپنے سفارتی عملے کی حفاظت کیلئے ان افواج کی صلاحیتوں سے انکاری ہیں۔ مگر دوسری طرف وہ افغان حکومت کے ساتھ تعاون کا وعدہ کرکے یہ خواہش بھی کرتے نظر آرہے ہیں کہ ان کے زیر سایہ پنپنے والا نظام چلتا رہے۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب مغربی طرز کے علامتی انتخابات کے ذریعے کابل میں ایک نئی وسیع البنیاد حکومت قائم کی گئی تو اسے دنیا کی طاقتور ترین اقوام کی حمایت اور پشتیبانی حاصل تھی۔ اس نئے 'جمہوری تجربے، بے پناہ فوجی آپریشنوں اور ترقی کے نام پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کےباوجود افغانستان کے حالات اسی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں وہ آج سے بیس برس قبل تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جہاد اور پھر خانہ جنگی کے نام پر تباہیاں ہوئیں جبکہ گزشتہ دو دہائیوں کے عرصے میں جمہوریت کے نام پر مزید لاکھوں افغانی قتل و غارت گری کا نشانہ بن گئے اور اب پھر سے عام افغانوں پر سنگین خانہ جنگی اور غارت گری کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ بیس سالہ قبضے کے دوران امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دو ہزار بلین ڈالر کی خطیر رقم پھونک دی جس سے ایک نئے اور مضبوط افغانستان کی تعمیر مقصود تھی جو اپنے بل بوتے پر نہ صرف کھڑا رہ سکے بلکہ مختلف فوجی خطرات بشمول طالبان کی واپسی کو روک سکے۔ اسی مقصد کیلئے اڑھائی لاکھ نفوس پر مشتمل ایک جدید افغان فوج تشکیل دی گئی تھی۔ مگر حالات اس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں کہ مغربی حکومتیں خود افغان فوج پر کسی بھی قسم کا بھروسہ کرنے سے کترا رہی ہیں۔

امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے میں تین ماہ سے کم عرصہ رہ گیا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ ملک سے تمام افواج کی واپسی ہوگی ۔ اس اعلان کے بعد نیٹو اتحاد میں شامل دیگر ممالک بھی اپنی افواج کو ڈیڈ لائن سے پہلے جلد از جلد نکالنے میں مصروف عمل ہیں ۔ دوسری جانب طالبان انتہائی سرعت کیساتھ کابل حکومت کی افواج کے خلاف مسلسل کامیابیاں حاصل کررہے ہیں۔ گزشتہ آٹھ ہفتوں کے دوران طالبان نے لگ بھگ ساٹھ اضلاع پر قبضہ کرلیا اور وہ کئی شہروں کے مضافات تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت کیلئے یہ امر انتہائی تشویشناک ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والی ان لڑائیوں کے دوران سرکاری افواج نے زیادہ مواقع پر لڑنے کی بجائے ہتھیار ڈال دیے۔ طالبان کی طرف سے جاری کردہ کئی ویڈیوز سے بھی بظاہر یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ افغان فوجی لڑنے کیلئے تیار نہیں یہاںتک کہ کئی جگہوں پر وہ طالبان سے کرائے کی مد میں پیسے لیکر واپس اپنے آبائی گھروں کو لوٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں مستقبل قریب میں افغانستان میں مغربی ممالک کی سفارتی موجودگی اور بین الاقوامی این جی اوز اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کی فعالیت کابل ہوائی اڈے کی خاطر خواہ سیکورٹی پر منحصر ہے۔ ترکی نے نہ صرف اس کی ہامی بھرلی ہے بلکہ صدر ایردوان نے ساتھی نیٹو ممالک پریہ واضح کردیا ہے کہ ترکی کی مدد کے بغیر یہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی انخلا کے بعد ترکی افغانستان میں اپنا موجودہ رول نہ صرف مستحکم کرنا بلکہ اس کو واضح طور پربڑھانا بھی چاہتا ہے۔ اگرچہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت اس کے حق میں ہے مگر اپنے نئے کردار کی تکمیل کیلئے ترکی کو امریکہ اور طالبان دونوں کی اشیرباد کی بھی ضرورت ہے۔