’’تضاد‘‘ باپ کی دل سے نکلی دعائیں بیٹے کی زبانی لچھے دار باتیں

June 23, 2021

دفتر جانے کے لیے مین روڈ پر آنے کے لیےمجھے دوسڑکیں کراس کرنی پڑتی ہیں ۔آخری والی گلی کےبائیں جانب ایک بڑا خوبصورت سا گھر ہے،جس کےباہر ایک قریب المرگ شخص چارپائی پر کبھی لیٹا تو کبھی بیٹھا ہوتا، نہ کسی سےبات کرتا ہےنہ چلتا پھرتاہے،بس چارپائی ‏پر بیٹھا،کھانستا رہتا ہے ،یہ اس گھر کا چوکیدار ہے کیا، اسے دیکھ کر میں عموماً سوچتالیکن میںجب بھی اسےدیکھتا مجھےحیرت ہوتی کہ اگر اِس گھر میں کوئی چور ڈاکو آگیاتو کیا یہ چوکیدار انہیں روک پائےگا؟

ایک شام میں نےگاڑی آخری گلی میں موڑی تو ‏چوکیدار کھانستا ہوا نظر آیایہ میری روز کی روٹین ہےچوکیدار کی چارپائی کےبعد مین روڈ شروع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا میں نےمین روڈ پرگاڑی چڑھائی اور آئینےمیں اپناجائزہ لیا۔پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیوکے بعد میری منزل آگئی۔ میں شہر کے ایک بڑےاور متوسط علاقے میں معروف موٹیویشنل ا سپیکر کا خطاب ‏سننے آیا تھا۔ احباب بہت اصرار کر کے مجھےیہاں لائے تھے۔

سچی بات ہےکہ خود میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی یہ لیکچر سنوں۔ تھوڑی ہی دیر میں موٹیویشنل اسپیکرصاحب بلیک کلر کی ایک چمکتی ہوئی گاڑی میں تشریف لائے۔اس گاڑی کےپچھلے بمپر پر الگ سےایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر’’MS ‘‘لکھا ہوا تھا۔شائد یہ موٹیویشنل اسپیکرکا مخفف تھا۔بہر حال انہوں نے اپنے جوشیلے خطاب سےحاضرین پر ایک سحر طاری کر دیا۔

اپنے خطاب میں انہوں نےکہا کہ ہم لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں اس قدر مگن ہوگئےہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم اپنےسامنےچلتے پھرتےلوگوں کو کس قدر نظر اندازکر رہے ہیں اگرسکون اور خوشی چاہیےتو ہمیں چھوٹی چھوٹی غلطیوں ‏کو بھلانا ہوگا۔ سب کو معاف کرناہوگا۔’’ان کی بات سن کر پورےہال میں خاموشی چھا گئی۔چند سیکنڈ بعد انہوں نے حاضرین سے پوچھا’’کیا آپ لوگوں میں سےکوئی ایساہے،جس نےکبھی اپنے باپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘

ہال میںکچھ دیر سکوت رہا۔پھر انہوں نےمدھم لہجے میںکہا’’آج گھر جائیں اور جن کےباپ زندہ ہیں انہیں گلےسے ‏لگائیں، پیار کریں اور اگر اُن سے کوئی شکوہ شکایت ہےتو اسے بھلا دیں‘‘۔پروگرام کے اختتام سے پہلے ہی مجھے ایک ضروری میٹنگ کی کال آگئی اٹھنا پڑگیا۔ میٹنگ دو گھنٹےجاری رہی اور اس دوران کھانا بھی نہیں کھایا جاسکا واپسی پر شدید بھوک لگی تھی ۔لہٰذا ایک جگہ رک کر کھانا کھایا بھوک کی وجہ سےکچھ زیادہ ہی ‏آرڈر دے دیا تھا،اسی لیے کا فی سارا کھانا بچ گیا تھا ۔میں نےوہ سارا پیک کروایا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوگیا آخری گلی میں مڑتےہی چوکیدار پھر میری نظروں کے سامنے تھا۔ میرے ذہن میں اچانک یہ الفاظ گونجنےلگے،’’کیا کوئی ایساہے،جس نے کبھی اپنےباپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘خیال آیا کہ ‏یہ چوکیدار بھی تو کسی کا باپ ہوگا۔

پتا نہیں اس کو کبھی اپنے بیٹےکی جپھی نصیب ہوئی یا نہیں؟ میں نےکسی خیال کےتحت گاڑی چوکیدارکےپاس روکی۔پیک کروائے گئے کھانےکا شاپر اٹھاکر اس کے پاس آگیا۔سلام دعا کےبعد میں نےشاپر اس کی طرف بڑھاتے ہوئےنہایت احترام سےکہا یہ بالکل تازہ کھاناہے ‘آپ ‏کھا لیجئے۔اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی اُبھری اور پھر اس نےانتہائی تیزی سےشاپر جھپٹ لیا۔اس کاانداز بتا رہا تھا کہ شدید بھوک لگی ہے، پھر اس کے بعد میرا معمول بن گیا۔میں کبھی کبھار بچا کھچا،کھانا، برگر یا شوارما وغیرہ چوکیدار کے لیے لےجاتا،چوں کہ اسےبولنے میں دقت ہوتی تھی، لہٰذا ‏ہماری اکثر دعا سلام اشاروں کنایوں میں ہوجاتی۔

ایک دن میں نےدیکھا کہ وہ کوئی کتاب غور سے پڑھ رہا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ اسےکتاب پڑھنےکا شوق ہے۔ میں نےگاڑی روکی‘ سلام لیا اور قریب جاکرکتاب دیکھی تو ہوش اڑ گئے۔ وہ دیوان غالب پڑھ ‏رہا تھا۔ یہ میرے لئے شدید حیرت کی بات تھی، البتہ یہ نہیں پتا تھا کہ کیا وہ واقعی کتاب پڑھ رہا تھا یا کسی کی کتاب اس کے ہاتھ میں تھی۔ میں نےتجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اشاروں سےپوچھا یہ کتاب یہاں کیسےآئی؟

اُس نےمریل سی آواز میں ٹوٹے پھوٹےجملوں میں بتایا یہ کتاب اُسے ‏بہت پسندہے۔اور وہ جتنی بار پڑھتاہے اتنی بار نیا لطف ملتاہے ۔میرےہاتھ پاؤ ں پھول گئے۔غالب کو پڑھنے سمجھنےوالا یہ چوکیدار میری نظروں میں مزید معتبر ہوگیا۔ میں نےپوچھا کہ کیا آپ تعلیم یافتہ ہیں؟ جواب اثبات میں آیا۔ میری حیرت دوچند ہوگئی۔اس نے بتایا کہ وہ ایم اے پاس ہے اور ریٹائرڈ ‏پروفیسر ہے۔ یہ بہت الجھادینےوالی بات تھی کہ آخر ایک پروفیسر کےساتھ ایسا کیا ہوا کہ اسےاس عمر میں چوکیدار ی کرنا پڑرہی ہے۔اس راز سےبھی اس نےخود ہی پردہ اٹھا دیا۔ایسی حقیقت بیان کی کہ کچھ دیر کے لیےمجھےاپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ یہ بزرگ جسےمیں چوکیدار سمجھتا رہا، اس گھر ‏کا مالک تھا۔

اس کےتین بیٹےتھے۔ تینوں شادی شدہ تھے ۔ بیوی فوت ہوگئی یہ بوڑھا ہوگیا۔ کھانسی اور بیماری کی وجہ سےبچوں کو تشویش ہوئی کہ کہیں باپ کی بیماری ہمارے بچوں کو نہ لگ جائے، لہٰذا سب گھر والوں کے باہم مشورے سےطے پایا کہ’’ابا جی‘‘ کی چارپائی گھر سے باہر لگوا دی ‏جائے، تاکہ وہ آرام سکون رہ سکیں۔

یوں اب گھر والےبھی چین کی نیند سوتےتھے اور ابا جی کو بھی اپنے بیٹوں اور اولاد کی جلی کٹی باتیں نہیں سننا پڑتی تھیں۔بابا آہستہ آہستہ بتا رہے تھے کہ میں اپنی اولاد سےبالکل بھی ناراض نہیں ،کیوں کہ سکون اور خوشی کے لیے ‏ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھلانا ہوتا ہے۔ سب کو معاف کرنا ہوتا ہے۔یہ سن کر میں چونک اٹھا ۔ انہوں نےبتایا کہ ماشاءاللہ میرے تینوں بیٹے بزنس مین ہیں اور بہت اچھا کماتے ہیں۔ تینوں کےپاس ‏گاڑیاں ہیں۔ میں نےاس روز بہانے بہانے سے انہیں بہت کریدا کہ شائد ان کےدل میں اپنے بیٹوں کے لیےکوئی تھوڑی سی بھی نفرت ہو لیکن وہ ہر حال میں اولاد سےراضی نظرآئے۔ میں ان کے گھر کے قریب سےگذرا تو ٹھٹھک کر رک گیا۔

ان کی چارپائی کےپاس ایک گاڑی کھڑی تھی۔میں نےتھوڑا آگےجاکر اپنی ‏گاڑی روکی اور پروفیسر صاحب کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وہ فخر سے کہنےلگے کہ یہ گاڑی میرے بیٹے کی ہے ۔ گفتگو کے دوران ہی ان کا بیٹا گیٹ سے باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔ پروفیسر صاحب نے بیٹے کی جاتی ‏ہوئی گاڑی کی طرف دیکھا اور بے اختیار ہاتھ اٹھا کر بولے’’خیرنال جا تے خیر نال آ‘‘۔ میں نے چونک کر گردن موڑی۔گاڑی کافی آگے جاچکی تھی لیکن اس کے پچھلے بمپر پر ’MS‘ کے الفاظ صاف نظر آرہے تھے۔۔۔!! (منقول)