تلخ حقیقت کی کھڑکی

June 23, 2021

سندس

اماں کہتی تھیں عشق ہو جائے تو ہو جائے مگر وہ عاشق اگر زندگی کا ساتھی بن جائے تو اسے عاشق نہیں خاوند ہی سمجھنا، کیوں کہ خاوند کبھی بھی عاشق نہیں بن سکتا۔ مرد جب کاغذ کے ٹکڑے پر انگوٹھا دھرتا ہے تو عورت کی قسمت میں سیاہی بھر جاتی ہے اور وہ سیاہی عشق کے رنگ کو کھا جاتی ہے، مگر وہ کہاں مانتی تھی۔ سجیلی لڑکی عشق کے گہنے پہنے توقعات کی سیج سجا کر بیٹھ گئی۔

اب عاشق ہر توقع کا پھول نوچ نوچ کر پھینکتا رہتا ہے ۔اور وہ اسے حیرت سے تکتی رہتی ہے۔بھلا کوئی بتائے بڑے بوڑھوں کی باتیں کب غلط ثابت ہوئی ہیں۔تصورات کی نیلی ٹھندی میٹھی گھاس پہ سونے والی لڑکی بوکھلا جاتی ہے۔تلخ حقیقت کی کھڑکی وہ بڑے زور دار جھٹکے سے کھولتا ہے تو وقت کی تیز دھوپ کی ظالم کرنیں اس کا وجود جھلسانے لگتی ہیں۔وہ جسے غم گسار سمجھتی تھی وہ اس کے غم کی کہانیوں سے اکتا چکا ہے۔وہ خاوند ہے عاشق تھوڑی ہے۔سونی کلائیوں میں گلاب بھرنے کے لیے اسے عاشق ہونا ہوگا،مگر اس کی انا اس بات کی اجازت کہاں دیتی ہے۔

وہ رو رہی ہے بند کمرے سے سسکیاں ابھرتی ہیں،مگر انہیں سننے والا کوئی نہیں۔اس کی خاطر چولہے کے سامنے گھلتی ہوئی سجیلی جانتی بھی ہے وہ دفتر میں ہزاروں فائلوں تلے دبا ہوا ہے مصروف ہے اس کےلیے محبت سے بنایا گیا ہر کھانا بے ذائقہ ہے۔ گھر کے آنگن کی کیاریوں میں پانی دیتی اس کے بارے میں سوچتی ہےاور چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔وقت دوڑ رہا ہے وہ جوان ہے، مگر اس کی روح بوڑھی ہورہی ہے۔

اس نےاس کے نمبر پر طویل میسج ٹائپ کرنا چھوڑ دیے ہیں ۔اس کے دل نے اسے چھوٹی چھوٹی فرمائش کرنے کے لیے مجبور کرنا چھوڑ دیا۔اب اس کی آنکھوں نے دروازے سے آتے ہوئے اسے دیکھتے یہ تمنا کرنا چھوڑ دی ہے کہ اس کے ہاتھوں میں سرخ پھول ہوں گے ۔یا کوئی گلابی شیٹ میں لپٹا لاکٹ ،کوئی اخبار میں قید کچی چوڑیاں یا محبت بھری ایک نظر۔

اس کے ہاتھوں سے آفس کا بیگ تھامتے اس کے دل میں خیال اٹھنا ختم ہوگیا ہے کہ وہ اسے کلائی سے پکڑ کر روک لے گا ۔وہ چائے بناتے ہوئے یہ نہیں سوچتی کہ وہ اسے اچانک آکر بانہوں میں بھر لے گا ۔اس نے اپنے وجود کے ہونے کا احساس دلانے کے لیے روٹھنا چھوڑ دیا،کیوں کہ وہ جانتی ہے اس کابھوکا رہنا کسی کی بھوک کم نہیں کر پائے گا ۔اس کے آنچل سے گزرتی مہکتی ہوا نے اسے متاثر کرنا چھوڑ دیا ہے۔

اب دو لوگوں کے بیچ کاغذ کے ٹکڑے کی دیوار ہے ،جو کبھی گر نہیں پائے گی۔اس کی آنکھوں اس کی باتوں پر نظمیں لکھے جانے کی آس ختم ہوگئی ہے۔ وہ بھی مشین بن چکی ہر کام وقت پر کرنے والی جذبات سے خالی کھوکھلی مشین۔ وہ بھری جوانی میں بوڑھی ہوگئی ہے، کیوں کہ وہ ایک خاوند سے بیاہی گئی تھی، عاشق سے نہیں اور یہ بات اسے بہت دیر سے معلوم ہوئی ۔