اہم متفرق نکات

June 25, 2021

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا اورقومی انٹیلی جنس رابطہ کمیٹی کے اہم اورخصوصی اجلاس کی صدارت کی۔ خطے کی تیزی سے بدلتی صورتحال کے تناظر میں یہ نہایت اہم اجلاس تھا جس میں وزیراعظم کو تمام تر صورتحال اور مضمرات سے آگاہ کیا گیا۔ افغانستان میں حالات بڑی سرعت کے ساتھ خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ طالبان کی روز بروز بڑھتی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے بعض دیگر افغان قوتیں بھی اچانک یا غیر متوقع طور پر متحرک ہو گئی ہیں جن میں شمالی اتحاد کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ افغانستان میں طالبان مخالف قوتوں میں رشید دوستم اور احمد شاہ مسعود دھڑے نمایاں ہیں جن کو بعض دیگرممالک کی حمایت حاصل ہے لیکن ان ممالک میں شامل بھارت وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت ایک طرف شمالی اتحاد کے مضبوط دھڑوں کی حمایت کر رہا ہے تو دوسری طرف طالبان کے ساتھ بھی مسلسل رابطوں کے ذریعے ان کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرانےکی کوشش کر رہا ہے۔ طالبان کی طرف سے ابھی تک کسی واضح اور ٹھوس ردعمل کی اطلاع نہیں ہے۔ شمالی اتحاد نے مسلح ہو کر طالبان کے خلاف کارروائیاں جلد شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ ایسا نظر آ رہا ہے کہ امریکی انخلاکے فوری بعد افغانستان میں خوفناک خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جس کے اثرات سے پاکستان بھی متاثر ہوگا۔ اس لئے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے خصوصی اجلاس کی بڑی اہمیت ہے۔ اس نازک صورتحال میں حکومت کو چاہئے کہ اپوزیشن کے ساتھ تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشاورت کرے اور حکومت اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے سربراہان اور عمائدین کو نہ صرف آنے والے حالات اور خدشات سے آگاہ کرے بلکہ اس سلسلےمیں ہونے والے فیصلوں اور اقدامات پر بھی اعتماد میں لے۔ اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اور خدشات کو سمجھے اور آنے والے ممکنہ خطرات سے ملک کو بچانے کیلئے حکومت اور دفاعی ریاستی اداروں کے ساتھ یک زبان ہو کر اپنے حصے کی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔ کیونکہ سیاست سے کہیں بڑھ کرملکی تحفظ اور وقار اہم ہے۔

وزیر دفاع پرویز خٹک، جو کہ ایک سنجیدہ اور زیرک سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں بعض ایسی عجیب باتیں کیں جن کی ان جیسے معقول سیاست دان سے ہر گز توقع نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ کے پی میں غربت اور بیروزگاری کا مکمل خاتمہ کیا گیا۔ انہوں نے چیلنج بھی کیا کہ کوئی وہاں ایک غریب ڈھونڈ کر دکھائے۔ کوئی تو کے پی میں ایک بیروزگار لاکر دکھائے۔ کوئی تو کے پی میں ایک مزدور لاکر دکھائے۔ کوئی تو پورے صوبہ میں ایک کچا گھر دکھائے۔ انہوں نےسرعام یہ بھی کہا کہ صوبہ کے پی میں ہر شخص کے پاس پیسہ، گاڑی اور موٹر سائیکل ہے۔ ان کے بقول پورے ملک میں کے پی ایسا واحد صوبہ ہے جہاں مہنگائی کا نام و نشان نہیں ہے۔ محترم وزیر دفاع کے خطاب کو سن کر امریکی، برطانوی اور یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے شاید تیاری شروع کردی ہو کہ وہ جلد از جلد پاکستان پہنچ جائیں اور کے پی میں مستقل رہائش اختیار کرلیں۔ جس طرح ’’برونائی‘‘ کے آزاد ہونے کی اطلاع پر پاکستانیوں اور بھارتی باشندوں نے وہاں پہنچنے کے لئے ہلہ بول دیا تھا لیکن ناکام واپس آنا پڑا۔ اس وقت پورا پاکستان مہنگائی اور بیروزگاری کی لپیٹ میں ہے۔ جہاں وزیراعظم عمران خان کو ناقابل کنٹرول مہنگائی کی وجہ سے راتوں کو نیند نہیں آتی وہاں مذکورہ وفاقی وزیر کے بقول صوبہ کے پی میں راجہ رسالو کی حکومت کی طرح ہر شے ٹکہ سیر ہے۔ پتہ نہیں وزیر دفاع نے جن کا اپنا تعلق کے پی سے ہے اور وہ صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کی شدید خواہش کے باوجود ان کو بوجوہ ’’وزیر دفاع‘‘ کی وزارت پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔ وہ اپنے آبائی علاقے میں گزشتہ ضمنی الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کو شکست سے نہ بچا سکے۔ پھر معلوم نہیں کہ انہوں نے کس ترنگ میں کے پی کا یہ ناقابلِ یقین نقشہ قومی اسمبلی اجلاس میں پیش کیا ہے۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اس طرح کے تصوراتی کے پی کی تمنا ئے لاحاصل کا اظہار کیا ہو۔ لیکن ’’خصوصی وجوہات‘‘ کی وجہ سے اس تمنا کو ’’شد‘‘ سمجھ بیٹھے ہوں۔

وزیراعظم عمران خان نے ریپ اور فحاشی کے تعلق کو جس انداز میں بیان کیا۔ مخالفین نے اس کو ایک اور رنگ میں پھیلانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ وزیراعظم صاحب کے ساتھ بعض اوقات دو مسئلے درپیش ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو کہنا چاہتے ہیں، اپنی منشاکے مطابق اُس کا اظہار مناسب پیرائے میں نہیں کر پاتے۔ دوسرا مسئلہ جس کا اکثر ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے یہ کہ ان کے ترجمان اور ساتھی بھی وزیراعظم کے مدعا کی وضاحت دلائل کے بجائے نہایت بھونڈے انداز میں کر نے لگتے ہیں۔ ان کے خیال میں وزیراعظم کو خوش کرنے کایہ بہترین موقع اور بہترین طریقہ ہوتا ہے۔ اس لئے بے مقصد اور طویل گفتگو سے مقصد تو کیا حاصل ہونا ہوتا ہے ، نتائج ہی الٹ برآمد ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو شاید یہ بتانا تھا کہ اسلام نے خواتین کے لئے باپردہ رہنے پر اس لئے زور دیا ہے کہ بے پردگی سے فحاشی اور فحاشی سے زنا جیسےعظیم گناہ کے ارتکاب کے دروازے کھلنےکاخدشہ ہو سکتا ہے۔ اسلام میں مردوں کو بھی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وزیراعظم کے اس بیان میں غلط کیا ہے؟