کیا نواز شریف اور مریم کی خاموشی کسی مصلحت کا نتیجہ ہے؟

July 01, 2021

گزشتہ ہفتہ سیاسی سرگرمیوں سے بھرپور رہا۔ پنجاب حکومت بجٹ منظور کرا کر سرخرو ہوئی۔ دعوے اور سرگوشیاں دم توڑ گئے۔ حکومت کے اعتماد میں پی ڈی ایم کے کمزور ہونے کے بعد بے حد اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ اس حد تک ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں بھی ابھی سے کامیابی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ خیر اس کے بارے میں تو کہا جا سکتا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر انتشار نے حکومت کو حوصلہ دیا۔ جہانگیر ترین گروپ کو قابو کر کے حکومت نے خطرے کو ٹال دیا۔

حکومت کے اندر سے جو گروپ سر اٹھا رہے تھے وہ اپنی سرگرمیاں معطل کر کے اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ جب سے وزیر خزانہ شوکت ترین نے معاشی اور اقتصادی ترقی کے استحکام کا نعرہ لگایا اور شرح ترقی منفی کے بجائے 4فیصد تک بتائی، صورتحال میں تبدیلی دیکھنے کو آئی۔

حکومتی حلقے اور خاص طور پر حکومتی ترجمان جن کی تعداد درجنوں ہے، میں ایک توانائی اور ہمت کی نئی لہر دوڑ گئی تاہم دیکھنا یہ ہے کہ جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ بجٹ کا عرصہ گزر جانے کے بعد کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ عام خیال ہے کہ جہانگیر ترین کو ریلیف مل گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی ہے اب جب تک ترین گروپ کو کہیں سے اشارہ یا توانائی نہیں ملے گی، وہ خاموش ہی رہے گا۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے باہر آنے سے نواز شریف بیانیے میں ٹھہرائو آیا ہے۔

نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی کسی مصلحت کا نتیجہ ہوسکتی ہے؟ شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کو وہ جانچنا پرکھنا چاہتے ہیں کیونکہ نواز شریف بیانیے والے سمجھتے ہیں کہ وہ انتظار کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم کے بیانیے سے لاتعلقی نے سیاسی حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ معاملہ پھر وہیں آ گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی کس کو آشیر باد حاصل ہوتی ہے، کون اسٹیبلشمنٹ کی قربت حاصل کرتا ہے۔

کہا جا رہا ہے یا کم از کم پیپلز پارٹی تاثر دے رہی ہے کہ ان کے طاقتور حلقوں سے معاملات درست جا رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کے باوجود وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے انہیں تو پیشی پر پیشی کا مرحلہ درپیش ہے۔ چاروں طرف سے گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف بیانیے والے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہیں کہ مفاہمتی بیانیے کا حاصل حصول اگر مصائب اور پریشانیاں ہی ہیں تو کیوں نہ نواز شریف بیانیے کی طرف یکسوئی سے کام کیا جائے جب اس بیانیے کا زور ہوتا ہے تو عوام مسلم لیگ (ن) کی طرف راغب ہوتے ہیں۔

طاقتور حلقے بھی مرعوب اور کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اب تو ہماری طرف کوئی توجہ بھی نہیں ہے۔ آصف زرداری نے لاہور میں ایک ہفتے کے قریب وقت گزارا تاہم وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کر سکے نہ پنجاب کی سیاست میں کوئی ہلچل نظر آئی، کچھ ارکان اس ’’خدشے یا خوف‘‘ سے ان سے ملاقات کے لئے ضرور آئے کہ کہیں پیپلز پارٹی کو آئندہ کے لئے طاقتور حلقوں کی طرف سے کوئی اشارہ تو نہیں ہو گیا ہے؟ چوہدری پرویز الٰہی کی ملاقات البتہ کچھ غیرمتوقع اور قدرے ہلچل والی تھی تاہم بعد میں چوہدری پرویز الٰہی نے یہ کہہ کر غبارے سے ہوا نکال دی کہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے اجازت لے کر یہ ملاقات کی تھی۔

چوہدری برادران جس سیاسی قدوقامت کے ہیں اجازت کا لفظ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ شاید اس میں بھی کوئی سیاسی رمز ہو۔ شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کا امتحان نزدیک ہے۔ آزاد کشمیر میں ان کے ارکان ٹوٹنے شروع ہو گئے ہیں۔ کون ان کی وفاداریاں تبدیل کرا رہا ہے یہ شہباز شریف کو بخوبی علم ہو گا۔ گلگت بلتستان کے انتخابات کا حال تو سب کو معلوم ہے۔ پت جھڑ کی طرح ان کے ارکان نے وفاداریاں تبدیل کی تھیں یا کرائی گئی تھیں۔ اب اگر آزاد کشمیر میں بھی وہی سب کچھ ہوا تو نواز شریف بیانیے کو تقویت ملے گی اور وہ بیانیہ بلکہ تحریک ابھر کر سامنے آ جائے گی۔ نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو کہہ سکیں گے کہ مفاہمت بلکہ مقصد طاقت اور جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ بیان بھی سیاسی اسرار و رموز سے پردہ اٹھا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت سے زرداری اور شریف خاندان کو ہٹانا ہو گا اس سے بہت سے حلقوں کے عزائم اور ارادے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ کسی کو سیاسی منظر سے ہٹانے کا فیصلہ بھی کوئی ادارہ یا تحریک انصاف کی قیادت کرے گی۔ کس پارٹی کا کون سربراہ ہو گا، کس کو سربراہ ہونا چاہئے یعنی کون سا لیڈر یا رہنما کس جماعت کے لئے مفید اور کارآمد ہے یہ فیصلہ مخالف جماعت کرے گی۔ حکومت معاشی و اقتصادی حالات میں بہتری کے تو بہت سے دعوے کر رہی ہے مگر مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔

جیتے جی غریب مر گیا ہے، آگے اور مہنگائی آنے والی ہے۔ دس فیصد تنخواہوں میں اضافہ تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب بجلی، تیل اور گھی مہنگا ہونے کی خبریں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اپوزیشن کو متحرک کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ پھر ایسا ہونے سے معاشی ترقی اور استحکام کے دعویٰ کی ذرا برابر کوئی اہمیت اور حیثیت نہ ہو گی۔ پھر یہ بھی نہیں کہا جا سکے گا کہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی۔ مطلب یہ ہے کہ مہنگائی سے بے روزگاری، بدامنی، لاقانونیت اور اضطراب پریشانی و مصائب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے اثرات ارکان اسمبلی تک جاتے ہیں ان کو اپنے حلقہ انتخاب کی فکر لگ جاتی ہے۔

حکومتی ارکان کی بے چینی اضطراب ان میں گروپ بندی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ ایسا پہلے بھی تحریک انصاف میں گروپوں کے متحرک ہونے سے ہوا ہے آئندہ بھی ہو سکتا ہے۔ آخرکار ارکان نے منتخب تو عوام کے ووٹوں سے ہی ہونا ہے۔ الیکٹرونک ووٹنگ آخر کتنا سہارا دے گی۔ شہباز شریف کا یہ بھی امتحان ہے کہ وہ الیکٹرونک ووٹنگ کے معاملہ کو کس طرح نمٹاتے اور حل کرتے ہیں۔ یہ ایک خوفناک ’’ٹول‘‘ ہے جس کو کسی طرح بھی 58ٹی بی کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔