وفاقی حکومت کی امتیازی پالیسی، سندھ میں سی این جی سیکٹر میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری متاثر

July 11, 2021

رانی پور (نامہ نگار) وفاقی حکومت کی امتیازی پالیسی کی وجہ سے سندھ میں سی این جی سیکٹر میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری سخت متاثر ہونے لگی۔ سندھ میں مقامی پیداوار سی این جی بیرونی پیداوار ایل این جی کی صورت میں ڈالر کی قیمت میں مہنگی فراہم کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے سندھ میں گیس اسٹیشنوں پر کام کرنے والے تقریباً 16000 ملازم اور سی این جی سیکٹر کے کاروبار سے وابستہ 42 لاکھ افراد بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک میں گیس کی مجموعی پیداوار کا 72 فی صد پیداوار دینے والے صوبے سندھ کو اپنی مقامی پیداوار کمپریس نیچرل گیس سی این جی بیرون پیداوار لیکوئڈ نیچرل گیس ایل این جی بتا کر فراہم کی جا رہی ہے۔ سندھ کی مقامی پیداوار سی این جی انٹرنیشنل کرنسی کی قیمت ڈالر میں ایل این جی بتا کر فراہم کی جا رہی ہے ۔سندھ میں 12.64 ڈالر فی MMBTU (میٹرک ملین برٹش تھرمل یونٹ) فراہم کی جا رہی ہے، جو مقامی کرنسی میں 1959 روپے فی MMBTU بنتا ہے جبکہ صوبہ سرحد کے پی کے کو 1350 روپے میں فی MMBTU سی این جی فراہم کی جا رہی ہے ۔ایل این جی پر 5فی صد سیلز ٹیکس تھا جو 12فی صدسے بڑھا کر 17 فی صد کیا گیا ہے ۔سندھ میں کاروباری اصولوں کےبر خلاف پہلے اطلاع دئیے بغیر ہر ماہ ناجائز بڑھائی گئی قیمت پر بل جاری کئے جاتے ہیں، جس سے سی این جی اسٹیشنوں کو ہر ماہ کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے ۔بغیر اطلاع کے بڑھائے ہوئے نرخ مندرجہ ذیل ہیں جنوری 2021 میں 1312 ڈالر فی MMBTU تھا اپریل 2021 میں 1456 ڈالر فی MMBTU مئی 2021 میں 1533 ڈالر فی MMBTU ماہ جون 2021 میں 1576 ڈالر فی MMBTU قیمت بغیر اطلاع کے بل جاری کر کے وصول کئے گئے ۔