گراؤ نہیں، بناؤ

July 14, 2021

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

تصاویر: اسرائیل انصاری

کچی آبادیوں کو عمودی عمارتوں میں تبدیل کردیا جائے اگر کوئی کچی آبادی چار ایکڑ پر ہے تو ان کے رہائشیوں کو ایک ایکڑ پر آباد کیاجاسکتا ہے اس طرح وہ جدید بستی کی شکل اختیار کرلے گی اور انہیں تمام سہولتیں بھی میسر ہوں گی،حکومت سندھ انفرااسٹرکچر کے شعبے میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت بہت اچھا کام کررہی ہے،رہائش کے شعبے میں بھی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے کم لاگت کے رہائشی منصوبے تیار کیے جائیں حکومت کا کام صرف مفت زمین مہیا کرنا ہو بقیہ سارا کام آباد کا ہوگا، امید ہے سپریم کورٹ کوئی انسانی المیہ پیدا نہیں ہونے دی گی

زبیر طفیل

کچی آبادیوں میں ورٹیکل شکل میں بلند عمارتیں بنا کر انہیں تمام سہولتوں کے ساتھ شان دار بستیوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ،یہ سیلف فنانس منصوبہ ہوگا ،غیرقانونی تعمیرات پر سپریم کورٹ کے فیصلوں کی ہم قدر کرتے ہیں،لیکن یہ اقدامات صرف غیرقانونی تعمیرات کے خلاف ہی ہونے چاہیئں۔ بدقسمتی سے کراچی میں قانونی تعمیرات کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے، جو لیزگھر ہیں انہیں توڑنا مناسب نہیں ،رہائش فراہم کرنا حکومتوں کا کام ہے آئین اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کہ آپ ہزاروں لوگوں کو بے گھر کرنا شروع کردیں

محسن شیخانی

سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات ہورہی ہیں،اس میں غلط فہمیوں نے بھی جنم لیا ہے،اگر متاثرین ، بلڈرز یا متعلقہ لوگوں کو باقاعدہ سنا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں کسی قسم کی بے قاعدگی نہیںہوئی ہے،ہم بحثیت آباد یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیمالیشن کوئی حل نہیں ہے،بلڈرز اور الاٹیز کی طرف سے بھی نظر ثانی کی درخواست فائل کردی ہے،یہ بھی درخواست کی ہے کہ سپریم کورٹ کا لارجر بنچ بنایا جائے ، جس میں تمام پارٹیوں کا موقف لیا جائے،سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے 18این او سیز لی جاتی ہیں پھر جا کر پراجیکٹ کو منظوری ملتی ہے

فیاض الیاس

بلدیہ عظمیٰ کراچی، سندھ حکومت اور وفاقی حکومت ان تین حکومتوں کے متعلقہ ادارے تجاوزات کے خلاف کارروائی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ کسی بھی حکومتی ادارے نے کبھی بھی کسی بھی سطح پر مقامی کمیونٹی سے کسی بھی طرح کے سروے یا حکومت کا کیا منصوبہ ہے کے متعلق کبھی بھی مقامی کمیونٹی ،سول سوسائٹی کو اعتماد میں نہیں لیا،متاثرین کا سروے مقامی مکینوں کے تعاون سے مکمل شفاف ہونا چاہیے۔ گجر نالا ، اورنگی نالا اور منظورکالونی نالا کے متاثرین کو بھی لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کی طرح پلاٹ کے ساتھ تعمیر کے لیے ایک مناسب رقم بطور معاوضہ دی جائے

زاہد فاروق

کراچی میں ان دنوں تعمیراتی مشینیں بہت متحرک ہیں لیکن ان سے آبادیاں بنانے کی بجائے گھروں کے ڈھانے کا کام لیا جارہا ہے، کراچی میں گزشتہ برس کی ریکارڈ بارشوں کے بعد نالوں کی صفائی کے لئے ان کے اطراف قائم بستیوں کو زمیں بوس کیا جارہا ہے، ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اچانک غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بھی نوٹس لیا ہے، ان کی خواہش ہے کہ پچاس برس قبل کا کراچی بحال ہو جائے، ایسے میں سب گرا دو کی گونج میں تعمیراتی شعبہ مایوسی اور خوف کا شکار دکھائی دیتا ہے۔

کراچی میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات سے انکار ممکن نہیں جس نے شہر کو برباد کر دیا ہے لیکن اچانک بنا کسی منصوبہ بندی کے مکانات گرائے جانے سے سنگین مسائل کے ساتھ انسانی المیہ بھی جنم لے رہا ہے، اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اس عمل پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، کراچی میں سپریم کورٹ کے حکم پر تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن کی صورت حال کیا ہے۔

دادا بھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن میں ’’کراچی میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات … حل کیا ہے؟‘‘ کے موضوع پر منعقدہ جنگ فور م کا ایک منظراور مہمانوں کا ایڈیٹر جنگ فورم محمد اکرم خان کے ساتھ گروپ فوٹو

اس کے مثبت یا منفی کیا نتائج برآمد ہو رہے ہیں، متاثرین کا موقف کیا ہے بلڈرز کی تجاویز کیا ہیں، حکومتوں کا کردار کیا ہے، کیا ہونا چاہیے؟ تعمیراتی قوانین کی خلاف ورزیاں کیوں ہوتی ہیں ان کا سدِباب کیسے ممکن ہے؟ یہ سب جاننے کے لئے کراچی میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات… حل کیا ہے؟ کے موضوع پر دادا بھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن میں جنگ فورم منعقد کیا گیا، فورم میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زبیر طفیل، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز پاکستان کے سرپرست اور سابق چیئرمین محسن شیخانی، آباد کے چیئرمین فیاض الیاس اور اربن ریسورس سینٹر کے جوائنٹ ڈائریکٹر زاہد فاروق نے اظہارِ خیال کیا، فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

جنگ:ہم آپ سے تازہ ترین صورتحال معلوم کرلیتے ہیں کہ آپ کی ابھی سپریم کورٹ میں کیا پوزیشن ہے۔ کیا موقف ہے۔اور اگلی کارروائی میں کیا کریں گے۔دونوں کے متعلق بتائیں کہ پوری مجموعی صورتحال تجاوزات پر اور نسلہ ٹاور سے متعلق بھی۔

فیاض الیاس
چیئرمین، ایسوسی ایشن آف
بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد)

فیاض الیاس صاحب،سپریم کورٹ کا جو حکم ہے کہ کراچی میں جو غیر قانونی تعمیرات ہورہی ہیں،اس میں غلط فہمیوں نے بھی جنم لیا ہے ۔کہ کراچی میں جو قانوی تعمیرات ہورہی ہیں اس میں غیر قانونی راستے اختیار کیے گئے ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ درست نہیںہے ۔اگر متاثرین ، بلڈرز یا متعلقہ لوگوں کو باقاعدہ سنا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں کسی قسم کی بے قاعدگی نہیں ہوئی ہے۔ میرے خیال میںسپریم کورٹ کا تاثر واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔جس بنیاد پر انہوں نے نسلا ٹاورکا حکم جاری کیا۔ زمین سندھی مسلم کوآپریٹیو ہاوسنگ سوسائٹی کی ملکیت تھی جسے1950 میں بورڈ آف ریونیو اور کے ایم سی کی طرف سوسائٹی کو دی گئی ۔جو تقریبا63 ایکڑ تھی۔ پھر اس کے ساتھ شاہراہ فیصل جو اس وقت ملیر روڈ کہلاتا تھا۔

اس پر اس کی الائنمنٹ تھی 280فٹ۔1954 میں جب زمین کی الائمنٹکی توسوسائٹی کےممبران کو مزیداضافی زمین الاٹ کردی۔ہمارا یہ کہنا ہے کہ سوسائٹی نے اپنےکسی قانون یا اختیارکے تحت الاٹ کی ہوگی ۔ ہمارے بلڈر نے اگر 2005 میں زمین لی جومطلوبہ ضابطے اور قانون کے تحت ہی حاصل کی ہوگی ۔وہ چھٹے خریدار تھے۔اس کے بعد ضابطے کی کارروائی کی گئی اس کی فیسیں ادا کی گئیں، بورڈ آف ریونیو، ماسٹر پلان سے پھر سوسائٹی سے منطوری لی گئی ۔اس کے بعد یہ پراجیکٹ منظور ہوتا ہے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول سے تمام این اوسیز آپ لیتے ہیں۔پھر ایک بلڈنگ بننے میں سال چھ مہینے نہیں لگتے ہیں ۔ساڑھے تین سال چار سال درکار ہوتا ہے جس میں بلڈنگ تیار ہوتی ہے۔پھر اس کے بعد اس قسم کے آرڈر آتے ہیں کہ تمام ضابطے کی کارروائی کے بعد اس ڈیمالیش کردو۔تو ہم بحثیت آباد یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیمالیشن کوئی حل نہیں ہے۔ یا تو جس مرحلے کو غیر قانونی قرار دیا جارہے اسے موقع پر روک دیا جاتایہ مسئلہ سامنے آتا اور ساری چیزیں اس وقت ہی رک جاتی۔اور آج اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

جنگ ۔آپ نے کہا آپ کو ٹھیک طرح سے سنا نہیں گیا اس کی وضاحت کریں گے۔

فیاض الیاس، ہم جب عدالت جاتے ہیں تو عدالت کا رویہ بہت سخت محسوس ہوتا ہے،خاص طور پر کراچی کے حوالے سے۔ ہماری کونسل کو بھی وہاں مناسب نہیں سنا جاتا۔ جیسا کہ یہ جو حقائق ہم بتارہے ہیں کہ سوسائٹی کس طرح حاصل کی ۔وہ اس کو سننے کو تیار نہیں۔

جنگ،وہاں نسلا ٹاورکا وکیل تو ہوگا، کیا اس نے یہ سارے حقائق بیان نہیں کیے۔

فیاض الیاس ۔نسلا ٹاور کا بھی وکیل تھا ،وہاں کے مکینوں کا بھی وکیل تھا۔اس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر سوسائٹی یہ زمین نہیں دے سکتی۔ تو سوسائٹی نے اپروول کے نقشے کیسے پاس کیے ، اسے کیوں نہیں بلا کر پوچھا جاتا۔سوسائٹی مین پارٹی ہے ۔زمین کی ملکیت سوسائٹی کے پاس ہے انہیں بلائیں ان سے پوچھیں کے قانون کے برخلاف آپ کے رکن نے 1954 میں یہ زمین کیسے دی۔اور اس کے بعد 77 مربع گز کس قانون کے تحت دی ۔

جنگ ، فیصلہ تو اگیا ہے کیا کریں گے کیا اپیل میںجائیں گے۔

فیاض الیاس، جی ہاںہمارے بلڈرز ی طرف سے اور جو وہاں کے الاٹیز ہیںان کی طرف سے بھی نظر ثانی کی درخواست فائل کردی ہے۔وہ درخواست ابھی ایڈمٹ ہونی ہے۔ہم نے اس میں یہ بھی درخواست کی ہے کہ سپریم کورٹ کا لارجر بنچ بنایا جائے ، جس میں تمام پارٹیوں کا موقف لیا جائے۔

جنگ ،میرا خیال ہے وہ سمجھ رہے ہیں اس معاملے میں قانون اور اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا ہے، ان کے ذہن میںہے یہ قانونی عمل نہیں تھا ۔اس کے پیچھے کوئی بھی کہانی ہو کے بی سی اے کی ہو یا سوسائٹی کی ہو یا کسی اور ادارے کی دباو ہو یا کرپشن ہو جو مجھے نظر آرہا ہے سپریم کورٹ کا یہ مائنڈ سیٹ ہے۔

فیاض الیاس، دیکھیں میں نے پہلے کہا کہ انہیں غلط تاثر دور کرنے کی ضرورت ہے۔کوئی بھی ایک اجازت چاہے وہ گھر کی ہو یا بلڈنگ کی بغیرقانون اور ضابطے کے خلاف نہیں ہے،

جنگ ،آپ یہ کہہ رہے کہ آپ کے کاغذات مکمل ہیں۔

فیاض الیاس ،جی ہاں،سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے 18این او سیز لی جاتی ہیں کے بعد جا کر پراجیکٹ کو منظوری ملتی ہے ۔اس سے پہلےویریفیکیشن کا عمل ہے جس میں کے ڈی اے، ماسٹر پلان ، ڈی سی آفس ، ،بورڈ آف ریونیو تمام لوگوں سےٹائٹل کی آنر شپ کی ویریفیکشن کی جاتی ہے ان کے اپروول کے بعد ہی بلڈنگ کی تعمیر کا کام شروع کیا جاتا ہے۔

جنگ: نالوں پر تجاوزات ختم کرنے کی صورت حال کیا ہے اور متاثرین کی آباد کاری کے لیے کیا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے؟

گجر نالا، اورنگی نالے کے ملحق آبادیوں کے مکین اپنی رہائشی حق کے حوالے سے کافی پریشان تھے۔ 2020 کی مون سون کی بارشوں میں سیلابی صورت حال شہر میں پیدا ہوئی اور اس کی وجہ سے عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیاکہ گجر نالا ، اورنگی نالا ، منظور کالونی سمیت شہر کے ان تمام مقامات پر سے بارش کے پانی کی نکاسی کو ممکن بنایا جائے۔ شہر میں جو نالے ہیں وہاں صفائی کی جائے۔گجر نالا، اورنگی نالا، منظور کالونی نالا ان سمیت دیگر برساتی نالوں کی صفائی سالوں سے یا تو ہوئی نہیں تھی یا اگر ہوئی بھی تھی تو وہ صرف دکھاوا تھا۔

ان نالوں کی صفائی کے حوالے سے کوئی بھی ادارہ باقاعدہ ذمہ دار نہیں تھا۔ کبھی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کبھی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سے کام اضافی ذمہ داری کے طور پر کروایا گیا ۔اب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ان نالوں کی صفائی کی ذمہ داری سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں لی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ان مقامات پر صفائی کے احکامات اس لئے جاری کئےتھے کہ شہر میں دوبارہ گزشتہ سال والی صورت حال پیدا نہ ہو۔ عدالت عظمیٰ کو احکامات کا جواز بنا کر گجر نالا،اورنگی نالا کے دونوں اطراف سے باقاعدہ روڈ بنانے کے لیے کم آمدنی والے طبقے کے6500سے زائد مکانات مسمار کرنے کی کارروائی کی جا رہی ہے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی، سندھ حکومت اور وفاقی حکومت ان تین حکومتوں کے متعلقہ ادارے اس کاروائی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ کسی بھی حکومتی ادارے نے کبھی بھی کسی بھی سطح پر مقامی کمیونٹی سے کسی بھی طرح کے سروے یا حکومت کا کیا منصوبہ ہے کبھی بھی مقامی کمیونٹی ،سول سوسائٹی کو اعتماد میں نہیں لیا ۔ حکومتی اداروں نے اپنے گھر کو بچانے کے لئے احتجاج کرنے والے مقامی باشندوں خواتین اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا لاٹھیاں برسائی تھانوں میں بند کیا۔ صوبائی حکومت متاثرین کے سروے کے لیے مقامی کمیونٹی کو کسی بھی طرح اعتماد میں نہیں لیا۔این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے ذریعے سروے کروایا گیا۔

سروے لیے ڈرون کا استعمال ہوا ہے۔ ڈرون سروے میںمتاثرین کو یہ شکایت تھی اور بعد میں اس کو شکایات کو تسلیم بھی کیا گیاکہ متاثرین کی ایک بطور متاثرہ وہ آئی ڈی حاصل نہیں کر سکے۔ متاثرین کو یہ شکایت رہی کہ مختلف حکومتی اداروں نے مختلف اوقات میں مختلف رنگ کے نشانات لگائے ۔حکومتی امداد کے حوالے سے بھی متاثرین کی یہ شکایت عام ہیں کہ چھ ماہ کے کرائے کے نام پر پندرہ ہزار روپے ماہانہ 9000 روپے کے حکومتی امداد ابھی تک سب متاثرین کو نہیں ملی۔ کسی کا شناختی کارڈ نہیں ہے کسی کا بینک اکاؤنٹ نہیں ہے اور کوئی خاندان سروے میں شمار ہونے سے رہ گیا۔

اب حکومت سندھ نے متاثرین اور سول سوسائٹی کی ایک طویل جدوجہد کے بعد6500ہزار متاثرین اورنگی اور گجر نالا کے لیے 80 ایکڑ پلاٹ کی فراہمی کا پلان کر کے کم آمدنی والے متاثرین کی اشک سوئی کا انتظام کیا۔ لیکن اس عمل کو جوڑ دیا گیا کہ جب سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن سے صوبائی حکومت کو معاوضہ ملے گا تو اس رقم سے متاثرین کے لیے سہولیات کی فراہمی ہوگی۔

جنگ: متاثرین کو متبادل رہائش کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پیش رفت کیا ہے؟

زاہد فاروق: ہمارا مطالبہ ہے کہ متاثرین کا سروے مقامی مکینوں کے تعاون سے مکمل شفاف ہو۔ گجر نالا ، اورنگی نالا اور منظورکالونی نالا کے متاثرین کو بھی لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کی طرح پلاٹ کے ساتھ ساتھ پلاٹ پر تعمیر کے لیے ایک مناسب رقم بطور معاوضہ دی جائے ۔یہ پہلی بار نہیں اس سے پہلے خاصہ ہل کٹی پہاری اور کورنگی اور شاہ فیصل کالونی کو ملانے والے فلائی اوور کی تعمیر کے وقت متاثرین کو پلاٹ/ معاوضہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق دیا گیا۔متاثرہ مکان کے اندر اگر دو یا تین جتنی بھی فیملی رہتی ہیں ان کو الگ الگ معاوضہ دیا جائے ۔یہ لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو دیا جا چکا ہے۔ لیز پلاٹ کے مکینوں کو معاوضہ کی تعمیرات کی بنیاد پر دیا جائے۔

زاہد فاروق
جوائنٹ ڈائریکٹر،اربن ریسورس
سینٹر ،کراچی

متاثرین کے لیے اسی ایکڑ زمین درکار ہوگی یہ زمین شہر کے قریب فراہم کی جائے تاکہ کم آمدنی والے طبقے کی سماجی معاشی مسائل کم سے کم پیدا ہو متاثرین کو خدشہ ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل نہ ہوسکے گا۔اس سے پہلے یہی معزز عدالت سرکلر ریلوے کے 1100 متاثرہ خاندانوں کے لئے 9 مئی 2020 کو حکم جاری کر چکی ہے متاثرین کو تمام سہولیات کے ساتھ ایک سال کے اندر اندر آباد کیا جائے ۔

ابھی تک یہ متاثرہ خاندان اسی مقام پر بغیرکسی حکومتی ادار ے کی امداد اور بحالی کے اپنے گھروں کے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ ملیر میں بحریہ ٹاؤن کے متاثرین بھی احتجاج کر رہے ہیں ۔متاثرین کی بحالی کے لیے جو بھی کمیٹی بنے اس حکومتی اداروےکے علاوہ متاثرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو شامل کیا جائے۔ متاثرین کو انسان سمجھاجائےاور بطور انسان شہری جو حقوق اسکو دستور پاکستان اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق رہائشی حقوق حاصل ہیں ان کا حصول یقینی بنایا جائے۔

جنگ: کم لاگت کی رہائش آبادیوں اور کچی آبادیوں کو بہتر بنانے کی بات ہوئی۔ ماضی میں جیکب لائن پراجیکٹ تیار کیا گیا، جس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔تجاوزات اور کچی آبادیوں کے خاتمے کےلیے موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اس حوالےسے نجی شعبے کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟ یہ بھی بتایے کہ غیرقانونی تعمیرات کے حوالے سے حالیہ صورت حال پر آپ کا کیا موقف ہے؟

محسن شیخانی: دنیا بھر میں کچی آبادیوں کو معیاری اور بہتر بنانے کےلیے منصوبے تیار کیے گئےاور انہیں ایک قابل رہائش بستیوں میں تبدیل کیا گیا پاکستان میں بھی ہم نے تجاویز دی ہیں کہ کچی آبادیوں میں ورٹیکل شکل میں بلند عمارتیں بنا کر انہیں تمام سہولتوں کے ساتھ شان دار بستیوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جس میں انشورنس ،یوٹیلٹی،تعلیم ،صحت،کھیل کے میدان،عبادت گاہیں بازار اور پارکس سب شامل ہوں گے۔

محسن شیخانی
سرپرست، ایسوسی ایشن آف
بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد)

یہ سیلف فنانس منصوبہ ہوگا اس منصوبے کی رقم بقیہ زمینوں کو مارکیٹ پرائس پر فروخت کرکے حاصل کی جائے گی۔اس منصوبے پر سندھ میں بورڈ بھی تشکیل دیا گیا تھا جس میں وزیراعلیٰ ،چیف سیکریٹری اور کور کمانڈر شامل ہیں لیکن آج تک اس بورڈ کی میٹنگ ہی نہیں ہوسکی یوں محسوس ہوتا ہے کہ اچھی رہائش حکومتوں کی ترجیحات میں ہی نہیں ہیں۔جب تک آدمی ڈوب نہ جائے یا مرنے کےلیے سڑک پر نہ آجائے ہماری آنکھ نہیں کھلتی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت اوپن بڈ پر یہ منصوبے مکمل کیے جاسکتے ہیں۔

غیرقانونی تعمیرات پر سپریم کورٹ کے فیصلوں کی ہم قدر کرتے ہیں پورے شہر کو بہتر کرنےکےلیے سخت اقدامات کی بھی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ اقدامات صرف غیرقانونی تعمیرات کے خلاف ہی ہونے چاہییے۔ بدقسمتی سے کراچی میں قانونی تعمیرات کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے۔ نعمت اللہ خان کی پٹیشن میں تمام کاغذات اور ثبوت موجود ہیں جو لیزگھر ہیں انہیں توڑنا مناسب نہیں ہزاروں لوگوں کو اچانک جبری برطرف کرنا ازخود غیرقانونی غیرآئینی عمل ہے رہائش فراہم کرنا حکومتوں کا کام ہے آئین اس کی اجازت نہیں کہ کہ آپ ہزاروں لوگوں کو بے گھر کرنا شروع کردیں ایک دن میں لوگوں کو گھر سے بے گھر کرکے انہیں سڑک پر کھڑا کردینا ان کی چھت ،تعلیم، روزگار،صحت برباد کردینا مناسب عمل نہیں یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔چیف جسٹس نے اس کو نہیں پوچھا جس نے یہ بگاڑ کیا۔

وہ بگاڑ کرتا رہے اور آپ لوگوں کو بے گھر کرتے رہیں یہ درست عمل نہیں ایکشن اس وقت ہونا چاہیے ۔جب کاغذی کارروائی ہورہی ہوتی ہے یا تعمیرات شروع ہوتی ہیں۔ تعمیرات بھی کوئی ایک دن کا عمل نہیں کئ برس لگتے ہیں۔جس کے پاس بھی حکومت کی لیز موجود ہے خواہ وہ نالے پر کیوں نہ ہوں وہ غیر قانونی کیسے ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے پر بڑا سخت ایکشن لیا لیکن نتیجہ کیا ہوا پیپری اور کینٹ کے درمیان چلنے والی پرانی ٹرین کو ہی سرکلر ٹرین کہہ کر چلا دیا گیا۔سپریم کورٹ اچھا کرنے آئی ہے تو اچھا نظر بھی آنا چاہیےلیکن کچھ اچھا نہیں ہورہا ۔ہم اس شہر کے اسٹیک ہولڈر ہیں ہم اس کی بربادی نہیں چاہیں گے جب نظام کی تباہی ہوگی اس کو تسلیم نہیں کریں گے تو ہرطرف خرابی سامنے آئے گی۔

جنگ: کراچی شہر کسی ماسٹر پلان کے بغیر پھیل رہا ہےاگر کوئی ماسٹر پلان نہیں ہوگا تو مسائل تو جنم لیں گے۔

محسن شیخانی:درست بات ہےایک اہم بات اور ہے مردم شماری اس کمرے میں دس لوگ ہیں اور کھانا پانچ آدمی کو آئے تو مسائل تو پیدا ہوں گے۔اب بھی وقت ہے کراچی کی درست آبادی کے مطابق سہولیات پر کام کیا جائے ایک لائن ڈرا کرلی جائے اور جس کا جو کام ہے وہ اپنا کام کرے میرا کام کنسٹرکشن کرنا تو مجھے کنسٹرکشن ہی کرنی چاہیے۔

جنگ:آپ کا تعلق کراچی سے ہی ہے فیڈریشن کے صدر رہ چکے ہیں بڑے بزنس مین ہیں آپ کو بھی شہر کا درد ہونا چاہیے نصف شہر جو کچی آبادیوں پر مشتمل ہے یہ صورت حال کیسے بہتر ہوگی حکومتی حلقوں میں آپ کا گزر ہےآپ انہیں کیا بہتر مشورہ دے سکتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر کیا کرسکتے ہیں۔

زبیرطفیل:محسن شیخانی تعمیراتی شعبے کے ماہر ہیں انہوں نے اچھی تجویز دی ہے کہ کچی آبادیوں کو عمودی عمارتوں میں تبدیل کردیا جائےاگر کوئی کچی آبادی چار ایکڑ پر ہے تو ان کے رہائشیوں کو ایک ایکڑ پر آباد کیاجاسکتا ہے اس طرح وہ جدید بستی کی شکل اختیار کرلے گی اور انہیں تمام سہولتیں بھی میسر ہوں گی۔ بقیہ ایک ایکڑکو کمرشل بنیادوں پر فروخت کرکے سرمایہ حاصل کیا جائے اور دو ایکڑ پر بنیادی سہولتیں مہیا کی جائیں اس طرح ایک کچی آبادی ایک چھوٹے شہر کو روپ دھار لے گی۔

زبیر طفیل
سابق صدر، فیڈریشن آف پاکستان
چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری

کراچی کے رہائش کے مسائل کو آباد سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا وہ تمام نظام کو بھی سمجھتے ہیں شہر کے تعمیرو ترقی کےلیے آباد کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا جائے حکومت سندھ انفرااسٹرکچر کے شعبے میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت بہت اچھا کام کررہی ہےجس سے ورلڈ بینک نے بھی تسلیم کیا ہےرہائش کے شعبے میں بھی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے کم لاگت کے رہائشی منصوبے تیار کیے جائیں حکومت کا کام صرف مفت زمین مہیا کرنا ہو بقیہ سارا کام آباد کا ہوگا اس طرح نہایت ہی کم نرخوں پر شہریوں کو مکانات بنا کر دیئے جاسکتے ہیں۔ان دنوں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے جس میں بدقسمتی سے نسلا ٹاور شامل کرلیا گیا ہے جیسا کہ ابھی بتایا گیا کہ وہ غیر قانونی نہیں ہے اس کی تعمیرتمام قانونی ضابطوں کے بعد عمل میں آئی ہے۔

نسلا ٹاور کے الاٹیوں رہائشیوں کا کیا قصور ہے ا نہوں نے جملہ تمام سرکاری قانونی معلومات کے بعد اپنی جمع پونجی سے اسے خریدا ہے ان کا کیا قصور ہے جو آج مایوسی میں سڑک پر بیٹھے انصاف کے منتظر ہیں ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی ہیں ۔وہ خوف اور مایوسی کا شکار ہیں کہ ان کا اور ان کے بچوں کا کیا ہوگا ۔سپریم کورٹ کو ہمدردی سے اس کیس کو دیکھنا چاہییے۔ آپ یہ نہیں کرسکتے کسی کے بنے ہوئے گھر کو جسے اس نے قانونی تقاضوں کے مطابق حاصل کیا ہے اسے بیک جنبش قلم توڑ دیں۔آبا دنظر ثانی د اپیل میںجارہی ہے جس میں لارجر بینچ تشکیل کا کہا گیا ہے ۔امید ہے سپریم کورٹ کوئی انسانی المیہ پیدا نہیں ہونے دی گی۔

ماضی میں اگر کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو اس کا ازالہ یا دور کرنے کا طریقہ کار بھی موجود ہے۔ جرمانے کے ساتھ ریگولرائز کرنا کا قانونی پہلو موجود ہے اس کی مثالیں بھی موجود ہیں بڑے رہائشی منصوبے اور بڑے گھر ریگولرائز کیے گئے۔اور اگر حکونالامت کو زمین حاصل کرنے کےلئے مکانات توڑنا لازمی ہو تو گرانے سے قبل متاثرین کو پہلا متبادل رہائش کا بندوبست کیا جائے۔ پھر یہ انتہائی اقدام اٹھایا جائے۔ حکومت خود تعمیراتی شعبے کو مدر انڈسٹری قرار دیتی ہے اس انڈسٹری کے ساتھ ساٹھ سٹر انڈسٹریز منسلک ہیں اگر یہ شعبہ ترقی کرتا ہے تو دیگر شعبوں میں بھی ترقی ہوتی ہے۔حکومت کم شرح سود پر رہائش کےلیے قرضے بھی فراہم کررہی ہے متاثرین کویہ سہولت بھی فراہم کی جاسکتی ہے ۔

اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو پابند بھی کیا ہے کہ ایک مخصوص رقم رہائشی قرضوںکی مد میں جاری کرے۔حکومت سندھ ،آباد اور بینک کے ساتھ بیٹھے اور کم لاگت کی رہائشی منصوبوں کو تیار کرے۔ نظام کو اب سے درست کیا جائے یہ تہیہ کرلیں کہ اب کوئی غلطی نہیںہوگی اور ماضی کی غلطیوں کو ہمدردانہ طریقے سے درست کرلیا جائےچیف جسٹس سے میری اپیل کہ اس تمام معاملے کو انسانی پہلو کو مدنظر رکھے ہمدردانہ طریقے سے دیکھے ۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے گھر کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔

جنگ:قبضے کے پلاٹ پر غیرقانونی تعمیرات تو ہوئی ہیں کیا آباد کے اراکین بھی اس میں ملوث ہوتے ہیں۔

فیاض الیاس:آباد کی رکنیت بڑی تحقیق کے بعد دی جاتی ہیں پھر ان کی نگرانی بھی ہوتی ہے غیرقانونی تعمیرات کا بھی نوٹس لیا جاتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے۔رکن ذمہ دار نہ ہو تو متعلقہ محکموں کی توجہ دلائی جاتی ہے ،آج کراچی کا کوئی ماسٹر پلان نہیں،آبادی کا پھیلاوکو دیکھتے ہوئے نئے ماسٹر پلان کی ضرورت ہے۔منی کراچی کا منصوبہ بنایا جائے جہاں ہرطبقے کےلیے انفرااسٹرکچر اور روزگار کے ذرائع موجود ہوں۔سندھ حکومت کی سرکاری رہائشی منصوبے موجود ہیں لیکن ابھی وہاں بنیادی سہولیات فراہم نہیںکی گئیں۔

ان منصوبوں کو قابل رہائش بنایا جائے۔آباد اس حوالے سے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت کام کرنے کو تیا ر ہے مثلا ایم ڈی اے ،تیسر ٹاون ،ہاکس بے،شاہ لطیف ٹاون وغیرہ ان سب کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔شہری کسی بھی منصوبے کی قانونی حیثیت کو معلوم کرنے کےلیے آباد کی ویب سائیٹ سے رجوع کرسکتے ہیں ۔ میں ایک بار پھر کہوں گا کہ سپریم کورٹ تمام پارٹیوں کو بلائے اور سنے ۔اور جیسے بنی گالا اور بحریہ ٹاون کی غیرقانونی تعمیرات کو ریگولرائز کیا جس طرح حالیہ دنوں میں پنجاب اور خیبرپختون خوا کی ہزاروں اسکیموں کو ریگولرائز کیا گیا۔ کراچی اور اس کے شہریوں کےلیے بھی وہ ہی یکساں رویہ اختیار کیا جائے۔

محسن شیخانی:تعمیراتی شعبوں میں تمام معاملات کوڈیجیٹلائز کیا جائے جس کے لیے ماہرین بیرون ملک سے بلائے جائیں یہاں کی نوکر شاہی پر یہ کام نہ چھوڑا جائے۔اپنےلینڈ ریکارڈ کو درست کریں اپروول اتھارٹی میں اصلاحات لائی جائیں، کراچی کا ہر نظام تباہ ہے خواہ وہ پانی کا ہو ،بجلی کا ہو،گیس کا ہو،سیوریج کا ہو۔تیس سال سے کوئی نئی ہاوسنگ اسکیم نہیں آئی۔صنعتی علاقہ تیار نہیں کیاگیا ۔کھیل کے میدان نہیں بنے ،صحت میں کام نہیں ہوا۔تیس سال بعد یہ سارے کام ٹھیک کرنے بیٹھیں گے تو ایسے تو معاملات ٹھیک ہونے کے بجائے خراب ہوں گے،ہرشعبے ہر ادارے میں اصلاحات لائی جائیں ۔پھرانہیں اس شعبے کے ماہرین کے حوالے کی جائے۔

زندگی کے ہرشعبے میں شفافیت لائی جائے ۔خواہ وہ عدلیہ،ٹیکس،حکومتیں اداروں کے معاملات ہوں۔اصلاحات کےلیے غیر ملکی فرموں کو لایا جائے وہ یہ منصوبے بناکر دیں۔آج صورت حال یہ ہے کہ قانونی طور پر تیار رہائشی منصوبوں پر خریدار نہیں آرہے نئے منصوبوں پر سرمایہ کاری پر کوئی تیار نہیں۔اوورسیز سرمایہ کاری بھی رک گئی ہے لوگوں کا اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ایک دفعہ پراجیکٹ اپروول ہوجائے تو اس کے بعد کسی بھی ادارے کو سامنے نہیں آنا چاہیے۔جس میں چاہے نیب ہو ایف آئی اے یا کوئی اور۔اگر آپ بزنس کمیونٹی کو اچھا ماحول نہیں دیں گے تو وہ کام کیسے کرے گا اور اگر یہ ماحول رہا تو ہم بھی کام نہیںکرسکیں گے۔

زبیرطفیل:کاروباری برادری کو پریشان کرنے کےلیے پہلے سے کئی ادارے موجود تھے اس میں ایک نئے ادارے نیب کا اضافہ ہوگیا ہے

یہ نئی مصیبت ہے جس کا سامنا ہم کررہے ہیں ملک ،حکومت اور عوام کو اس ادارے سے نفع کم ہوا نقصان زیادہ ،سرمایہ کاروں کا اعتماد بری طرح مجروح ہوچکا ہے۔اکثر لوگ کاروبارکےلیے ملک سے باہر کا سوچ رہے ہیں۔متعلقہ اتھارٹی کی اپروول بعد کسی پراجیکٹ کو چیلنج نہیںہونا چاہیے۔یا تو آپ یہ کردیں یہ اپروول ایس بی سی اے نہیں نیب دے گی ۔لیکن پھر اس کی اپروول کو ماناجائے اور تنگ نہ کیا۔

ماضی میں حکومتی سرپرستی میں لانڈھی کورنگی جیسی شان دار اسکیمیں آباد کی جاچکی ہے ایسے منصوبے اب کیوںنہیں ہوسکتے۔عدلیہ کسی فیصلے سے پہلے تمام حقائق کا مطالعہ کرلے انسانی پہلو بھی دیکھ لے اور اسے لارجر بینچ میں دیکھا جائے۔زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کو آسانیاں فراہم کی جائیں۔

سیما لیاقت(سماجی کارکن):کراچی میں بے دخلی کے عمل میںکہیںتیزی آئی ہے ۔کبھی کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ ،کبھی مین لائن ون تو کبھی نالا صفائی مہم کے نام پر ان مجبور لوگوںکو مستقل دربدر کیا جارہا ہے ۔آپ شہر کی خوبصورتی کو بلندوبالا عمارات میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن شاید یہ بھول گئے ہیںکہ ترقی ناپنے کا معیار انسانوںکی حالت پر ہے۔پچھلے 30 سالوںمیںحکومت ایسی کوئی بھی ہائوسنگ اسکیم متعارف نہیںکرواسکی ہے جو کم آمدنی والوں کے حق میںہو۔آپ انہیںرہنے کے لیے گھر نہیںدیں گے لیکن اسے تو اپنے خاندان سمیت کہیںبیٹھنا ہے ۔

یہ بات واضح ہوچلی ہے کہ حکومت کی پالیسی اور منصوبے غریب دشمن کے طور سامنے آتے ہیں۔کراچی سرکلر ریلوے کے نام پر 122oخاندانوںکے بے گھر کیا جاچکا ہے حالانکہ سپریم کورٹ نے صاف لفظوں میںحکم دیا تھا کہ ایک سال کے اندر انہیںڈیسنٹ وے میں متبادل رہائش دی جائے ۔ 2020میں ہونے والی بارشوں کے نتیجہ میں حکومت نے نالوں کو چوڑا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے نتیجہ میں 15 ہزار خاندانوں کے بے گھر ہونے کااندیشہ تھا لیکن اس اندیشے سے نظریں چراتے ہوئے بے دخلی کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور اب تک 7ہزار خاندانوںکو ان ترقیاتی منصوبوںکے نام پر بے دخل کیا جاچکا ہے لیکن ان کی متبادل رہائش یا معاوضہ کو یقینی نہیںبنایا جارہا۔

نالا صفائی کی زد میں جو مکان آرہے ہیںانہیںایک شناخت دی جاتی ہے جس کا مطلب ان کے لییے متبادل ہوتا ہے لیکن ان آبادیوںسے مشینری گزارنے کے لیے بھی تو مکان توڑے جاتے ہیں۔وہ بے چارے تو کہیںشمار بھی نہیںہوتے ۔بس ان کے مکان پر تیر کا نشان لگادیتے ہیںجس پر متبادل کا سوال ہی نہیںبنتا۔ انہی اندیشوں کے نتیجہ میں اقوام متحدہ نے حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جبری بے دخلی کے سلسلہ کو (کم از کم)عارضی طور پر ہی ملتوی کردیں اور ان کرائے داروں کو بھی امداد فراہم کی جائے جو کرایہ ادا نہ کرنے کے سبب بے گھر ہوجائیں۔لیکن ایساکچھ بھی نہ ہوا۔ اسے یکسر نظر انداز کرتے ہوئےاس کے دوسرے ہی دن یعنی 25 جون کو سوات چارباغ کالونی کے 150 گھر صفحہ ہستی سے مٹادیئے جاتے ہیں۔

اگر حکومت نے کچھ چیزوں کو سنجیدگی سے نہیں دیکھا تو تباہی در تباہی ہوگی۔ شہر کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کتنے کے بعد ان ملبوںکے نیچے سے تعفن ہی نکلے گا۔ ہمارے معاشرہ کی صورت کچھ اور ہی ہوگی ۔لہٰذا امیروں اور غریبوںکے لیے یکساںقانون بنائے جائیں۔بلندوبالا عمارات کو تحفظ دے رہے ہیں تو ان غریبوں کے گھروںکو بھی امان دی جائے ۔ انہیں متبادل گھر کے لیے یقینی معاوضہ دیا جائے ۔اورمعاوضہ اتنا مناسب ہوکہ باآسانی بسر ہو۔