رازق کی کال

July 25, 2021

توقیر عائشہ، کراچی

’’اُف …آج پھر کتنی تیز بارش ہو رہی ہے، خبروں میں بتا رہے تھے کہ بہت سی گاڑیاں ،خاص طور پر موٹر سائیکلیں پانی میں پھنسی ہیں، میری بات مانو اور اس وقت مت جاؤ۔‘‘ ’’ارے آپی!! مَیں کیسے رُک سکتا ہوں بھلا؟ اس موسم میں تو لوگ فوڈ آئٹمز زیادہ آرڈر کرتے ہیں۔ آپ کے کہنے سے گھر بیٹھ گیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔‘‘عمر نے بہن کو سمجھاتے ہوئے کہا۔’’مگر میرے بھائی ! یاد نہیں پندرہ دن پہلے جب بارش ہوئی تھی تو تم رات بھر گھر ہی نہیں آسکے تھے۔ وہ تو شُکر ہے کہ اس وقت تمہیں بھلے لوگ مل گئے تھے اور تم محفوظ رہے، مگر ہر مرتبہ قسمت مہربان نہیں ہوتی۔

آج بھی اگر تم پھنس گئے تو…؟؟‘‘ ’’تو کچھ نہیں…میری پیاری آپی! پریشان مت ہوں، ویسے ریسٹورنٹ والوں نے سارے ڈیلیوری بوائز کو اتنا زبردست واٹر پروف ڈیلیوری باکس اور رین کوٹ دیا ہے اور مَیں نے اپنی بائیک کی مرمّت بھی تو کروائی ہے، اب یہ پانی میں بند نہیں ہوگی اور آپ کی دعاؤں سے مجھے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ ‘‘ ’’پھر بھی مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔

کتنی تیز بارش ہورہی ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ ابھی یہ برسات تھمنے کا کوئی امکان ہے۔‘‘ ’’مینیجر، عبد الرّزاق صاحب بہت اچھے آدمی ہیں۔ برسات میں کام کرنے اور فوڈ ڈیلیوری کے زیادہ پیسے دیتے ہیں۔‘‘ عمر نے بہن کو تسلّی دیتے ہوئے کہا۔’’اچھا یہ لو، پانی کی بوتل بھی رکھ لو، کہیں کیچڑ میں پھنس جاؤ تو صاف پانی سے پاؤں دھو لینا۔ اللہ !کیسی مشکل نوکری ہے میرے بھائی کی، میرے مالک! میرے بھائی کو اپنی حفاظت میں رکھنا۔‘‘

’’ عمر نے شائستہ کو’’ فی امان اللہ ‘‘کہا اور برستی بارش میں ریسٹورنٹ کی طرف چل نکلا۔ دو دِنوں سے یہ ہی ہو رہا تھا، بارہ بجے تک آسمان صاف رہتا، پھر گھٹا چھا جاتی اور تیز بارش کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتااور اس دوران عمر اور اس جیسے دیگر ڈیلیوری بوائز خوش خوراک اور بے فکرے شہریوں کو ان کی دہلیز پر فوڈ آئٹمز پہنچا پہنچا کر تھک چُکے تھے، یہاں تک کہ جمعہ آگیا۔ عمر نے پہلے ہی سوچا ہوا تھا کہ جمعے کولمبی تان کر سوئے گا کہ ریسٹورنٹ چار بجے کےبعد ہی کُھلتا تھا۔

ملازمت پر جانے کے لیے روزانہ 9 بجے اُٹھنے والا عمر جمعے کو12 بجے اُٹھا۔ ناشتا کرتے کرتے ہی اذانیں شروع ہو گئی تھیں، ساتھ ہی آسمان پر پھر سے گھٹا چھانے لگی۔ ’’لگتا ہے آج بھی بادل جھوم کے برسیں گے۔‘‘ بھائی کو ناشتا دیتی شائستہ نے کہا ۔تھوڑی ہی دیر میں مینہ برسنے لگااور عُمر ناشتا کرکے دوبارہ بستر پر ڈھیر ہو گیا۔’’آج جمعہ ہے۔ نماز کے لیے نہیں جاؤ گے؟‘‘ شائستہ نے چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل سے اُٹھاتے ہوئے کہا۔’’وہ…وہ آپی… اتنی بارش میں کیسے جاؤں؟‘‘ عمر نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا۔ ’’کیا مطلب کیسے جاؤں؟ بائیک پر چلے جاؤ۔‘‘

’’ بھیگ تو پھر بھی جاؤں گا…‘‘ ’’تو رین کوٹ پہن کر چلےجاؤ۔تم ہی نے تو بتایا تھا کہ تمہارے ریسٹورنٹ والوں نے دیا ہے‘‘ ’’آپی کیچڑ سے پائنچے خراب ہو جائیں گے۔‘‘ ’’تو پانی کی بوتل لے کر چلےجاؤ، مسجد میں داخل ہونے سے پہلے پاؤں دھو لینا۔‘‘’’اوہو آپی! اچھا دیکھتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے بےزاری سے شائستہ کو دیکھا اور موبائل اُٹھا لیا، ایک دو کالز کیں اور میسیجز کرتے کرتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی اور پھر وہ چار بجے کے بعد ہی اُٹھا۔’’اوہو! سوا چار ہورہے ہیں۔‘‘ ہڑبڑاتے ہوئے اس نے موبائل اُٹھایا اور بستر سے اُٹھنے لگا۔’’عبد الرّزا ق صاحب کی کال تو نہیں آئی تھی؟‘‘

’’عبد الرزاق کی تو نہیں ،رازق کی کال ضرورآئی تھی۔‘‘ شائستہ نے جواب دیا’’کون رازق؟‘‘ اس نے سوچتے ہوئےکال ہِسٹری چیک کی۔ ’’رازق کی کال تمہارے موبائل پر نہیں، مسجد کے مینار سے آئی تھی، جو تم نے مِس کردی…‘‘ عمر نے چونک کر شائستہ کی طرف دیکھا اور پھر شرمندگی سے نظریں جُھکا لیں۔ واقعی، عبدالرّزاق کی تو ایک کال پر وہ آندھی طوفان میں بھی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور جو دونوں جہانوں کا مالک ، کُل کائنات کا رازق ہے، اُس کی کال کتنی آسانی سے مِس کرکے، لمبی تان کے سوتا رہا۔ بہن کے ایک جملے نے اُسے شرم سے پانی کر دیا تھا۔ تب ہی تو وہ تیزی سے بستر سے اُٹھا اور وضو کے لیے غسل خانے کا رُخ کیا۔