جنوب مشرقی ایشیا سے مغربی ایشیا تک

July 25, 2021

قومیں کبھی جیت کر ہار جاتی ہیں اور کبھی ہار کر بھی جیت جاتی ہیں، اِسی لیے قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں بے حد دِل چسپ ہیں اور سبق آموز بھی۔یہ کہنا بڑی حد تک درست ہوگا کہ تیز رفتار ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ، وہیں اس نے جنگ کا طریقۂ کار بھی بدل ڈالا۔جدید اصولوں نے جنگ کے قواعد و ضوابط یک سر تبدیل کردئیے ہیں، وگرنہ جنیوا کنونشن کو کون تسلیم کرتا؟ گویا رات، دن میں اور دن، رات میں بدل گئے، لیکن اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جن پیمانوں پر قوموں کی فتح اور شکست کے معیار مقرّر کیے گئے ہیں، وہ بھی بدل گئے ۔

قوموں کی جیت ہمیشہ سے اُن کی خوش حالی اور امن سے وابستہ رہی ہے اور ہار اُن کے بکھر جانے سے ۔ کوئی لاکھ اعداد وشمار پیش کرتا رہے کہ فلاں قوم کو فلاں وجہ سے برتری حاصل ہوئی، لیکن جب بات حالات و واقعات کی بنیاد پر ہوتی ہے، تو پھر واحد پیمانہ یہی ہوتا ہے کہ جیت یا ہار کے عوام پر کیا اثرات مرتّب ہوئے؟ صدیوں سے یہی کہانیاں چلی آ رہی ہیں اور گزشتہ صدی سے لے کر حالیہ برسوں میں ہونے والی جنگوں کی بھی یہی کہانی ہے۔ہم نے یہ تمہید اِس لیے باندھی کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر اسی فتح و شکست کے مرحلے سے دوچار ہے۔کہیں جشن ہے اور کوئی کفِ افسوسں مَل رہا ہے، لیکن اصل جیت تو وہ ہوگی، جب اس مُلک کے عوام خوش حالی پائیں گے۔

گزشتہ صدی میں ویت نام کی جنگِ آزادی ایک مثالی جدوجہد تھی۔ آج کی نسل کو تو شاید یہ بھی پتا نہ ہو کہ ویت نام کہاں واقع ہے اور اس پر پچاس، ساٹھ سال پہلے کیا گزری تھی؟ ویت نام کا تذکرہ اِس لیے بھی ضروری ہے کہ خطّے کی موجودہ صُورتِ حال سمجھنے میں آسانی ہو اور شاید فیصلہ سازوں کو بھی اندازہ ہوسکے کہ قومی پالیسیز ایک دن یا ایک سال کے لیے نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے بنائی جاتی ہیں کہ آج کے فیصلوں کے اثرات اکثر دس، پندرہ برس بعد ہی سامنے آتے ہیں۔جو ممالک ہر وقت عوامی جذبات اُبھارنے میں مصروف رہتے ہیں، اُنہیں کچھ ہاتھ نہیں آتا، بلکہ بسا اوقات وہ ایسے فیصلے بھی کر جاتے ہیں، جنہیں آنے والی نسلیں اپنانے تک کو تیار نہیں ہوتیں۔

ویت نام، جنوب مشرقی ایشیا کے آخری کونے پر واقع ایک چھوٹا سا مُلک ہے،جس کی آبادی تقریباً دس کروڑ ہے اور اس کا دنیا کے 16 ویں سب سے زیادہ آبادی والے مُلک میں شمار ہوتا ہے۔یہ ایک طرف چین، لاؤس اور کمبوڈیا کا پڑوسی ہے، تو دوسری طرف اس کی سرحدیں تھائی لینڈ،ملائیشیا، انڈونیشا، فلپائن اور جنوبی چینی سمندر سے ملتی ہیں۔ ہوچی منہ سٹی، جسے پہلے سائیگون کہا جاتا تھا، اس کا دارالحکومت ہے۔اس کے 52 صوبے ہیں۔یہ جنگلات سے گِھرا مُلک ہے، اِسی لیے یہاں سے متعلق فلمز میں گھنے جنگلات نظر آتے ہیں۔اِس قدرتی وسیلے نے جدوجہدِ آزادی میں مرکزی کردار ادا کیا۔

انیس ویں صدی میں، جو نو آبادیاتی دَور کے عروج کا زمانہ تھا، فرانس نے ویت نام کو اپنی کالونی بنا لیا۔ تاہم، اس نے 1945ء میں فرانس سے آزادی حاصل کر لی، لیکن اِس دَوران یہ دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا، ایک شمالی ویت نام اور دوسرا جنوبی ویت نام۔شمالی حصّہ کمیونسٹ مُلک تھا، جسے سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی، جب کہ جنوبی ویت نام میں امریکا آگیا۔یوں دونوں سپر پاورز ایک دوسرے کے مدّ ِ مقابل ہوگئیں اور ویت نام کے دونوں دھڑوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔

تفصیلات میں جائے بغیر بتا دیں کہ 1975 ء میں امریکا کو وہاں سے پسپا ہونا پڑا اور پورے ویت نام پر شمالی ویت نام کا تسلّط قائم ہوگیا،یوں دونوں حصّے ایک مُلک میں بدل گئے۔ یاد رہے، یہ وہی زمانہ ہے، جب سوویت یونین نے افغانستان میں دخل اندازی کی اور کچھ عرصے بعد وہاں پہلی افغان وار شروع ہوئی، جس میں امریکا، پاکستان، مغربی دنیا اور عرب ممالک بھی شامل ہوگئے۔اس جنگ کو’’ جہادِ افغانستان‘‘ کا نام دیا گیا۔

قصّہ مختصر، سوویت یونین کو بھی افغانستان سے ایسے ہی لَوٹنا پڑا، جیسے اب امریکا جا رہا ہے، البتہ فرق یہ ہے کہ سوویت یونین اِس انخلا کے چند برسوں بعد ہی تحلیل ہوکر کئی ممالک میں تقسیم ہوگئی۔سوویت یونین کے جانے کے بعد افغان مجاہدین آپس ہی میں ایک دوسرے سے الجھ پڑے، جس کے نتیجے میں تاریخ کی بدترین خانہ جنگی نے جنم لیا۔اس جنگ میں لاکھوں شہری ہلاک و زخمی ہوئے اور کابل کھنڈر بن گیا۔اس خانہ جنگی کے پاکستان پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتّب ہوئے اور وہ آج تک اس کے معاشی اور سماجی نتائج بھگت رہا ہے۔

اب ذرا ویت نامیوں کو دیکھتے ہیں کہ اُنہوں نے جنگِ آزادی جیتنے کے بعد کیا کیا؟یہ بات واضح رہے کہ اس جنگ کے دَوران خود امریکیوں اور مغربی ممالک کے عوام نے ویت نام چھوڑنے کے لیے زبردست تحریک چلائی تھی۔کوئی امریکی وہاں جنگ لڑنے کے لیے جانے پر تیار نہیں تھا۔اُن دنوں محمّد علی باکسر کا واقعہ مشہور ہوا کہ اُنہوں نے جیل کاٹ لی، لیکن جنگ لڑنے ویت نام نہیں گئے۔

آئن اسٹائن سے لے کر برٹرینڈ رسل تک جیسے دانش وَر امریکا کے خلاف آواز اُٹھاتے رہے اور اُنھوں نے اس جنگ کے خلاف رائے عامّہ ہم وار کی۔ایک زمانے میں امریکا میں ویت نام جنگ کے خلاف بولنا غدّاری تھی اور پھر وہ وقت بھی آیا، جب جنگ کے مخالفین قوم کے اصل ہیرو اور خیر خواہ تسلیم کیے گئے۔ویت نام نے1976 ء میں امریکا سے آزادی حاصل کی اور وہاں کی قیادت نے فوری اصلاحات کر کے صرف دس سال میں مُلک کو دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل بنا دیا۔

مسلّح جنگ ختم ہو چُکی تھی، لیکن وہاں کے حکم رانوں اور سیاست دانوں کو علم تھا کہ اصل جنگ تو معاشی میدان میں ہوگی کہ کیسے اپنے دس کروڑ عوام کو خطّے اور دنیا میں باعزّت مقام دلوایا جائے۔ویت نام کی سرپرست، سوویت یونین بکھر چُکی تھی، لہٰذا وہاں کے حکم رانوں نے امریکا سے مفاہمت کی پالیسی اختیار کی اور اس کے نتیجے میں وہاں سے ٹیکنالوجی، تعلیم و تربیت، امداد غرض سب کچھ ہی حاصل کیا۔اس کے ساتھ جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا، سنگاپور اور تائیوان سے بھی ترقّی کا ہر وہ ہنر سیکھا، جو اس کے عوام کے لیے ضروری تھا۔

بیسویں صدی کی شروعات تھیں، جب جنوب مشرقی ایشیا میں ہر طرف معاشی ترقّی کا شور برپا تھا۔جاپان اور چین ابھرے، تو تائیوان، تھائی لینڈ، سنگاپور، ملائیشیا، انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور ویت نام بھی اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ معاشی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ اُنہوں نے اقتصادی ترقّی کے لیے چین کی پالیسی اپنائی کہ کوئی دوست، دشمن نہیں، جہاں سے فائدہ ملتا ہو، اُٹھایا جائے۔ کل کا ویت نام جنگ کا میدان تھا، آج وہ اقتصادی میدان میں تبدیل ہوچُکا ہے۔ اسی لیے وہ اِس وقت دنیا کی اُبھرتی معیشتوں اور تیز ترین ترقّی کرنے والی اقتصادی قوّتوں میں شامل ہے۔ اُس کی خارجہ پالیسی کے ستون خود مختاری، خود انحصاری، تعاون اور امن ہیں۔

اِسی لیے گزشتہ 47 سال میں وہ اپنے یا دنیا کے کسی تنازعے کا حصّہ نہیں بنا۔اس نے گزشتہ سال امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان امن بات چیت کی میزبانی کی تھی۔ وہ اب امریکا کا قریبی حلیف شمار کیا جاتا ہے اور دوسری طرف، چین سے بھی اس کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ویت نام نے اپنی نصف آبادی کو غربت سے نکال کر خوش حالی کی راہ پر گام زَن کردیا ہے۔اس کی ترقّی کی شرح انڈو چائنا کے علاقے میں تیز ترین ہے، جو عالمی بینک کے مطابق 6.6 ہے۔اس کی برآمدات50 بلین ڈالرز سالانہ سے بھی زیادہ ہیں اور مالیاتی اداروں کی پیش گوئی ہے کہ آئندہ سالوں میں وہ20 طاقت ور ترین معیشتوں میں شامل ہو جائے گا۔

اِس وقت بھی وہ اپنے علاقے کی ٹاپ ریٹیڈ اقتصادی قوّت ہے۔ویت نام کے چاول کی برآمدات دنیا میں سب سے زیادہ ہے، لیکن اس نے اردگرد کے ممالک کی ٹیکنالوجی سے بھی براہِ راست استفادہ کیا ہے۔ امریکی امداد حاصل کی اور الیکٹرانک مارکیٹ میں بھی بہت تیز رفتار ترقّی کی ہے۔ وہ اپنے علاقے میں جنوبی کوریا اور سنگاپور کے قریب پہنچ رہا ہے۔ امریکا اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جس سے اس کا جمع شدہ برآمدی منافع 56 بلین ڈالرز ہوچُکا ہے۔کل ویت نام کی جدوجہدِ آزادی کا شہرہ تھا، آج اس کی اقتصادی فتوحات دنیا کی زبان پر ہیں۔آخر وہ کیا چیز ہے، جو کسی قوم میں یہ شعور پیدا کرتی ہے کہ اُس کا وقت کے لحاظ سے کیا کردار ہونا چاہیے؟

کیا اُسے ہر وقت یہی رونا روتے رہنا چاہیے کہ’’ ہمیں اچھے لیڈر نہیں ملے، اِس لیے ہم ترقّی نہیں کرسکے‘‘ یا یہ کہ وہ ہر وقت اُن ممالک کی مثال دیتے رہیں کہ فلاں مُلک نے ہماری ترقّی کو اپنا کر مقام حاصل کر لیا، لیکن ہم وہیں، بلکہ اس سے بھی نیچے آگئے۔گزشتہ دنوں ہمارے خطّے کی معیشتوں کا موازنہ کیا گیا، تو یہ بات سامنے آئی کہ بنگلا دیش کی، جو پچاس سال قبل ہمارا حصّہ تھا، ترقّی کی رفتار آٹھ اشاریہ سے بھی بڑھ چُکی ہے۔ اُس کی برآمدات پچاس بلین ڈالرز سے زیادہ ہیں اور وہ ہیں بھی اُن اشیاء میں ،جن میں کسی دَور میں ہم آگے تھے، یعنی ٹیکسٹائل اور چاول۔

امریکا ویت نام سے جانے پر مجبور ہوا اور آج وہ مُلک ترقّی کے عروج پر ہے، لیکن افغانستان میں ایک مرتبہ پھر تباہی اور جنگ وجدل کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس خانہ جنگی کے پاکستان پر بھی انتہائی خطرناک اثرات مرتّب ہوںگے۔جاپان، جس نے ایٹم بم کی تباہ کاری برداشت کی، ایک نو آبادیاتی مُلک تھا، آج اقتصادی ترقّی کی ٹیکسٹ بُک کہلاتا ہے۔مغربی ایشیا کو’’ لینڈ آف اپر چونیٹی‘‘ کہا گیا، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟نہیں، ایسا نہیں ہے۔

مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا میں سوائے چین کے،کوئی بھی مُلک اُس رفتار سے ترقّی نہیں کر رہا، جس طرح جنوب مشرقی ایشیا میں ترقّی ہو رہی ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ چین اور روس کے علاوہ یہاں تقریباً تمام مُمالک مسلمان ہیں۔کسی کو آزاد ہوئے ستّر سال اور کسی کو تیس سال ہوچُکے، لیکن وہاں تعمیر وترقّی کے کوئی اثرات نظر نہیں آتے۔ اب افغانستان سے امریکا جارہا ہے، جس پر بہت سے افراد جشن بھی منا رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ یہ جشن کس بات کا ہے؟ کیا افغان عوام کو وہ سب کچھ ملنے جارہا ہے، جس سے وہ ایک ترقّی یافتہ قوم بن سکیں گے یا ایک مرتبہ پھر جنگ اور لاشیں ان کا نصیب ہوں گی؟

ایران جیسا دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا مُلک، جس تنزّلی کا شکار ہے، اس کا حال کوئی وہاں کے عوام ہی سے پوچھ لے۔وسط ایشیائی ریاستوں کے پاس قدرتی گیس اور تیل کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔افغانستان میں تعلیم ہے نہ ترقّی اور نہ ہی وہاں کوئی اس پر پریشان ہے اور اپنے مُلک کے حالات سے تو ہم خود واقف ہیں۔کسی سے پوچھنے کی کیا ضرورت۔ چین جیسے عظیم ہم سائے کے باوجود، جو ایک اقتصادی دیو بن کر علاقے پر تو چھا ہی گیا، اب مغربی طاقتوں کو بھی معاشی میدان میں چیلنج کر رہا ہے، ہم کچھ حاصل نہیں کر پائے۔ صرف یہی کہتے رہتے ہیں کہ’’ ہمیں چین کی ترقّی کے مطالعے کی ضرورت ہے۔‘‘ساٹھ سال کی دوستی کے باوجود اگر اب بھی مطالعہ نہیں کیا، تو پھر کب کیا جائے گا۔

خطّے کے ممالک کے لیے یہ اہم سوال ہے کہ چین اِس علاقے کے لیے اکنامک ڈرائیور کیوں نہ بن سکا؟ اور امریکا کی جدید ٹیکنالوجی سے کوئی فائدہ کیوں نہ اُٹھایا جاسکا؟ ویت نام سے بڑی اور خون ریز جدوجہد تو کسی نے بھی نہیں کی، لیکن اُنہوں نے کیسے پَلٹا کھایا اور ترقّی کی راہ پر گام زن ہیں، ہمارے خطّے کو اس کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس، ہم تو گلے شکووں اور رونے دھونے ہی میں مصروف رہتے اور اس پر یہ غلط فہمی بھی کہ’’ ہم جیسا کوئی نہیں۔ ساری دنیا ہماری دشمن ہے، وہی ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتی۔‘‘