حضرت اُمِ حرام بنتِ ملحان رضی اللہ عنہا (قسط نمبر 25)

July 25, 2021

قبرص میں صحابیہؓ کا مزار

بحیرہ ٔروم میں یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور افریقا کے سنگم پر، تُرکی سے صرف 30کلو میٹر کی دُوری پر’’قبرص‘‘ نامی نہایت خُوب صُورت جزیرہ ہے۔ یہ قدیم جزیرہ آج کل دو حصّوں میں تقسیم ہے۔ ایک یونانی قبرص اور دوسرا تُرک قبرص۔ شمالی علاقہ تُرک قبرص کہلاتا ہے، جہاں تُرکوں کی حکومت ہے۔ لارناکا(Larnaca) قبرص کا تیسرا بڑا شہر، تجارتی بندر گاہ اور سّیاحتی مقام ہے۔قبرص کا سب سے بڑا ایئر پورٹ بھی یہیں ہے۔ یہاں نمکین پانی کی ایک جھیل ہے، جس کے کنارے ایک خُوب صُورت مسجد اور ایک جلیل القدر صحابیہؓ کا مزار ہے، جو یہاں’’ شہیدۃ البحر‘‘ یعنی’’ سمندری شہیدہ‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔

قبرص میں کئی لاکھ تُرک مسلمان آباد ہیں، جن کا عقیدہ ہے کہ مسجد الحرام، مسجدِ نبویؐ اور مسجدِ اقصیٰ کے بعد یہ چوتھی مقدّس ترین مسجد ہے۔ یہاں کے لوگ’’ شہیدۃ البحر‘‘ کے مزار کی بے حد تعظیم کرتے ہیں، اُن کے وسیلے سے بارش سمیت اپنی تمام حاجات کے لیے دُعائیں مانگتے ہیں۔ جب تُرک بحریہ کے جہاز یہاں سے گزرتے ہیں، تو احتراماً اپنے بادبان آدھی بلندی پر کر دیتے ہیں اور توپوں کی سلامی دیتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ اِس طرح وہ آئندہ سفر میں بحری خطرات سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس مسجد اور مزار کی خُوب صُورتی اور نظم و ضبط دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ غیر مسلم شہری بھی ان مقامات کا احترام کرتے ہیں۔

سلسلۂ نسب

’’شہیدۃ البحر‘‘ کے لقب سے یاد کی جانے والی ان برگزیدہ صحابیہؓ کی کنیت ’’اُمّ ِ حرام‘‘ ہے۔ اصل نام پر اختلاف ہے، بعض نے’’ الرميصاء‘‘ یا ’’الغميصاء‘‘ بھی لکھا ہے۔ والدین کا تعلق مدینہ منوّرہ کے قبیلے، خزرج کے خاندان بنو نجار سے تھا۔ رسول اللہ ؐ کے دادا، جناب عبدالمطلب کی والدہ، سلمہ بنتِ عمرہ کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا، چناں چہ، بنو نجار کے لوگ، نبی کریمﷺ سے جذباتی لگاؤ رکھتے تھے۔ حضرت اُمّ ِ حرامؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ حضرت اُمّ ِ حرامؓ بنت ملحان بن خالد بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار (طبقات ابنِ سعد، 470/8)۔ والدہ کا نام، ملیکہ تھا، جو مالک بن عدی بن زید بن منات بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار کی بیٹی تھیں۔ حضرت اُمّ ِ حرامؓ ، حضرت اُمّ ِ سلیمؓ کی حقیقی بہن تھیں، یوں وہ حضرت انسؓ کی خالہ ہوئیں۔حضرت اُمّ ِ سلیمؓ اور حضرت اُمّ ِ حرامؓ ، حضورﷺ کے دادا، جناب عبدالمطلب کی والدہ کی پوتی تھیں۔ اس طرح یہ رسول اللہﷺ کی خالہ ہوئیں۔

نکاح

حضرت اُمّ ِ حرامؓ کا پہلا نکاح، حضرت عمروؓ بن قیس بن زید بن سواد بن مالک بن غنم بن مالک بن نجار سے ہوا، جن سے دو صاحب زادے، حضرت قیسؓ اور حضرت عبداللہؓ ہوئے۔ شوہر، حضرت عمروؓ اور صاحب زادے، حضرت قیسؓ نے غزوۂ بدر میں اپنی بہادری اور شجاعت کے خُوب جوہر دِکھائے۔ غزوۂ اُحد میں بھی اِس خاندان نے بھرپور طریقے سے حصّہ لیا اور دونوں باپ بیٹا دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرگئے۔ کچھ عرصہ کے بعد اُن کا ایک اور نام وَر صحابی، حضرت عبادہؓ بن صامت سے نکاح ہوا، جن سے ایک صاحب زادے، حضرت محمّدؓ پیدا ہوئے۔

بھائی کی شہادت

شوہر اور بیٹے کی شہادت کے ایک سال بعد4 ہجری میں بیئر معونہ کے اندوہ ناک سانحے میں 70صحابہ کرامؓ شہید ہوئے، جن میں حضرت اُمّ ِ حرامؓ کے حقیقی بھائی، حضرت حرامؓ بن ملحان بھی شامل تھے۔ ایک ہی سال میں تین جوان شہادتوں کا غم ناقابلِ برداشت تھا، چناں چہ آنحضرتﷺ اپنی خالہ کی دِل جُوئی کے لیے اُن کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔

جہاد البحر کی بشارت

حضرت اُمّ ِ حرامؓ کا قیام وادیٔ قباء میں تھا۔ حضورﷺ کی اس گھرانے سے بہت انسیت تھی۔ آپؐ جب بھی مسجدِ قباء تشریف لاتے، تو قیام حضرت اُمّ ِ حرامؓ ہی کے گھر فرماتے۔ وہیں کھانے سے فارغ ہو کر قیلولہ بھی کرتے۔ خالہ بھی آپﷺ کے آرام کا خیال رکھتیں اور دِل و جان سے خدمت میں مصروف رہتیں۔ حجۃ الوداع کے بعد ایک دن آپؐ اُن کے گھر تشریف لائے۔ کھانا تناول فرمانے کے بعد آرام فرمایا، کچھ دیر بعد مُسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، تو حضرت اُمّ ِ حرامؓ نے پوچھا’’ یارسول اللہﷺ! آپؐ کیوں تبّسم فرما رہے ہیں؟‘‘ارشاد فرمایا’’ میری اُمّت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) سبز سمندر پر سوار ہو رہے ہیں۔ اُن کی مثال(دنیا اور آخرت میں) تخت پر بیٹھے بادشاہوں کی سی ہے۔‘‘

اِس پر اُنھوں عرض کیا،’’ اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے لیے دُعا فرمادیجیے کہ اللہ مجھے بھی اُن میں شامل کر دے۔‘‘ آپؐ نے دُعا فرمائی کہ اے اللہ! اِنہیں بھی اُن لوگوں میں شامل کردے۔ آپﷺ دوبارہ آرام فرما ہوگئے اور کچھ دیر بعد پہلے کی طرح مُسکراتے ہوئے اُٹھے۔ حضرت اُمّ ِ حرامؓ نے اِس مرتبہ بھی وہی سوال کیا، تو آپﷺ نے پہلے والی بات دُہرائی۔ اِس پر اُنھوں نے اپنی شرکت کے لیے دُعا کی درخواست کی، تو آپﷺ نے فرمایا’’ اُمّ ِ حرامؓ! تم سب سے پہلے لشکر میں شامل ہوگی(جو بحری راستے پر جہاد کرے گا) اور یہ کہ بعد والوں میں تمہاری شرکت نہیں ہے۔صحیح بخاری کی ایک اور حدیث میں حضرت عمیرؓ بن اسود غنی فرماتے ہیں کہ’’ مَیں حضرت عبادہؓ بن صامت کی خدمت میں حاضر ہوا، آپؓ کا قیام ساحلِ حمص پر اپنے ہی ایک مکان میں تھا۔

اُن کے ساتھ اُن کی اہلیہ، حضرت اُمّ ِ حرامؓ بھی تھیں۔ ہم سے اُمّ ِ حرامؓ نے بیان کیا کہ’’ مَیں نے نبی کریمﷺ سے سُنا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ’’ میری اُمّت کا پہلا لشکر جو دریائی سفر کرکے جہاد کے لیے جائے گا، اُس نے(اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت) واجب کرلی۔ مَیں نے کہا تھا’’ یارسول اللہﷺ! کیا مَیں بھی اُن کے ساتھ ہوں گی؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ہاں، تم بھی اُن کے ساتھ ہوگی۔‘‘پھر نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ میری اُمّت کا پہلا لشکر جو قیصر(رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ) پر چڑھائی کرے گا، اُن کی مغفرت ہوگی۔‘‘ مَیں نے کہا’’ مَیں بھی اُن کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہﷺ؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا کہ’’ نہیں۔‘‘( صحیح بخاری حدیث نمبر2924۔باب ماقیل فی قتال الروم) ۔

قیصر وکسریٰ کا زوال

اسلام کے ابتدائی دنوں میں قیصر وکسریٰ کی بادشاہتوں کے جاہ وجلال اور تکبّر و رعونت کے پرچم دنیا کے ایک بڑے حصّے پر لہرا رہے تھے۔ رسول اللہﷺ کو مدینے پر حملے کی تواتر کے ساتھ اطلاعات مل رہی تھیں۔ آپﷺ نے حضرت حارث بن عمیرؓ کو اپنا قاصد بناکر حاکمِ بصریٰ کی جانب روانہ کیا، لیکن راستے میں قیصرِ روم کے گورنر، شرجیل نے اُنہیں شہید کردیا۔ آنحضرتﷺ کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔

آپﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کی امارت میں تین ہزار صحابہؓ کا لشکر روانہ کیا، لیکن قیصرِ روم، ہرقل کی ٹڈی دَل فوج کے مقابلے میں کام یابی نہ ملی۔ غزوۂ تبوک میں آپﷺ خود تشریف لے گئے، لیکن قیصرِ روم مقابلے پر نہ آیا۔ رومن ایمپائر کی متواتر شرانگیزیوں کی بنا پر11ہجری میں آپﷺ نے حضرت اُسامہ بن زیدؓ کی امارت میں ایک بڑا لشکر رومیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، لیکن آنحضرتﷺ کی رحلت کی اطلاع پاکر وہ واپس آگیا۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ بنتے ہی جیشِ اُسامہؓ کو روانہ کیا، جو کام یاب وکام ران لَوٹا۔ خلافتِ فاروقیؓ میں قیصر و کسریٰ کی طاقت وَرترین حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔

کسریٰ کی حکومت تو صفحۂ ہستی سے مِٹ گئی، البتہ قیصرِ روم دمشق، شام، حمص اور مِصر وغیرہ سے دست بردار ہوکر قسطنطنیہ تک محدود ہوگیا۔ خلافتِ فاروقیؓ کے آخری دَور میں قیصرِ روم نے قبرص کو اپنا بحری مرکز اور جنگی سامان کا صدر مقام بنا رکھا تھا۔حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت فاروقِ اعظمؓ سے جزیرہ قبرص پر بحری حملے کی اجازت چاہی، لیکن اُنھیں بحری حملے کی اجازت دینے میں تامّل تھا۔

قبرص کے ساحل پر

یکم محرم24ہجری کو حضرت سیّدنا عُمرؓ کی شہادت کے بعد سیّدنا عثمان غنیؓ خلیفہ منتخب ہوئے، تو آپؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کو شام کے تمام اضلاع کا مستقل حاکم مقرّر فرما دیا اور اُن کی درخواست پر قبرص پر بحری حملے کی مشروط اجازت دے دی۔حضرت امیر معاویہؓ نے قبرص پر حملہ کرنے کے لیے جو لشکر تیار کیا، اُس میں حضرت ابو ذر غفّاریؓ،حضرت ابوالدرداؓ، حضرت شداد بن اوسؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ اور اُن کی اہلیہ، حضرت اُمّ ِ حرامؓ بھی شامل تھے۔

ساحلِ شام سے کشتیوں پر مشتمل یہ بحری لشکر روانہ ہوا اور قبرص کے ساحل پر جا اُترا۔ حضرت اُمّ ِ حرامؓ کشتی سے ساحل پر اُتریں اور گھوڑے پر سوار ہونا چاہا، تو وہ بدک کر بھاگا، جس سے وہ زمین پر گر پڑیں اور انتقال کرگئیں۔یوں آنحضرتﷺ کی اُن کے بارے میں پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ قیصرِ روم قبرص میں مقابلے کی تاب نہ لاسکا، وہ قسطنطنیہ فرار ہوا اور وہاں فوت ہوگیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اُسے قبرص ہی میں قتل کردیا گیا تھا۔ (تاریخِ اسلام، اکبر شاہ نجیب آبادی409/1)۔

قبرص کی فتح

مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہؓ نے ایک زبردست جنگی بیڑہ تیار کیا،تو حضرت اُمّ ِ حرامؓ نے بھی جہاد پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اُن کے شوہر نے سمجھایا کہ بحری جنگ میں بہت زیادہ مشکلات اُٹھانی پڑتی ہیں، لیکن اُن کا کہنا تھا کہ ’’حضورﷺ نے مجھے اس پہلے بحری جہاد میں شرکت کی بشارت فرمائی تھی اور اسی شوق میں تو مَیں تمہارے ساتھ مدینے سے شام آئی ہوں۔‘‘

چناں چہ اُنہیں بھی بحری جہاد میں شامل کرلیا گیا۔ 28ہجری کے شروع میں مسلمانوں نے جزیرہ قبرص پر ایک بھرپور حملہ کیا۔قیصرِ روم، قسطنطین مجاہدین کے اس طوفانی حملے کا مقابلہ نہ کرسکا۔ یوں پورے جزیرے پر اسلامی پرچم لہرانے لگا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اُمّ ِ حرامؓ نے بنتِ قرظ، حضرت معاویہؓ کی بیوی کے ساتھ دریا کا سفر کیا۔ پھر جب واپس ہوئیں اور اپنی سواری پر چڑھیں ،تواُس سے گر گئیں اور(اسی میں) اُن کی وفات ہوگئی۔(صحیح بخاری، احادیث2878,2877)

حاصلِ مطالعہ

انتہائی کٹھن حالات میں اور وسائل نہ ہونے کے باوجود صحابیاتؓ نے جنگ سے لے کر زمانۂ امن تک، زندگی کے ہر شعبے میں جو عظیم الشّان اور محیّر العقول کارنامے سر انجام دیے، اُن کی مثال ترقّی یافتہ دنیا کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ بلاشبہ، بدی کی قوّتوں کے زہریلے اثرات سے اپنے گھر، خاندان اور معاشرے کو نجات دِلانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم ان عظیم صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں اور ان کی ایمان افروز زندگیوں کے تذکرے سے اپنے ماحول کو معطّر ومنوّ ر کریں۔