دہرا نظامِ تعلیم

July 24, 2021

کسی بھی قوم کی ترقی میں وہاں کے تعلیم یافتہ طبقے کا سب سے زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ معیاری تعلیمی ادارے ملک و قوم کے تابناک مستقبل کی علامت ہوتے ہیں۔ اچھے تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم حاصل کرنا بھی ہر شہری کا بنیادی حق ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں دہرا نظامِ تعلیم رائج ہے یوں دوہرا معیار قائم کر کے معاشرے کو بھی دو واضح طبقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔کچھ بچے سرکاری اسکولوں میں ،نیلے پیلے یونی فارم میں ملبوس انگریزی سے نا بلد اردو میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو کچھ ٹائی لگا کر پرائیوٹ اداروں میں فر فرانگریزی بولتے نذر آتے ہیں۔

اس نظام تعلیم نے نوجوانوں کو باغی کر دیا ہے۔ جرائم کی طرف رجحان بڑھتا جارہا ہے، احساس محرومی اور احساس کمتری کا شکار ہورہے ہیں، نفرت اور حسد کے جذبات جنم لے رہے ہیں، پھر اردو میڈیم کے طالب علم جب تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کوکوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔ یہ لوگ ایم اے یا بی اے کی ڈگری لے کر بھی اچھی طرح انگلش نہیں بول سکتے اور ان میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے جبکہ نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلباء ہر میدان میں، ہر شعبے میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔

ہم نے چند اساتذہ سے جب یہ پوچھا کہ تعلیم میں طبقاتی کشمکش کیسے ختم ہو؟ یہ دہرا نظامِ تعلیم ہمیں کس سمت لے جارہا ہے؟کیسے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم ہو؟ ہمارے سوالوں کے جواب میں انہوں نےکیا کہا،آپ بھی جانیے، شاید ان کے خیالات دہرے نظامِ تعلیم ختم کرنے میں معاون ہوں۔

ڈاکٹر ساجد علی، آغا خان یونیورسٹی، انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نےہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ، ملک میں تعلیمی نظام اردو اور انگریزی میڈیم میں بٹا ہوا ہے، جہاں سرکاری اسکول، اردو میڈم اور نجی اسکول انگریزی میڈیم تصور کئے جاتے ہیں۔ اگر ہم مدارس کے نظام تعلیم کو بھی شامل کریں تو یہ ایک تیسرا نظام تعلیم بن جاتا ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے برطانیہ نے اس خطے میں ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف کرایا، جس میں انگریزی زبان کو ایک کلیدی حیثیت حاصل تھی۔

اسی نظام میں اشرافیہ کےلئے اعلیٰ تعلیمی نظام متعارف کرایا، جس میں انگریزی زبان رکھی گئی۔ اس نظام میں اشرافیہ کےلیے اعلیٰ تعلیمی نظام جبکہ عوام کےلیے ایک نچلے درجے کا نظام تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بدقسمتی سے وہی نظام تعلیم رائج رہا اور اب اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ صرف تعلیمی نظام بلکہ پورا معاشرہ ہی تقسیم ہوگیا ہے، جنہیں نہ اردو میڈیم، نہ انگریزی میڈیم نصیب ہوتا ہےیعنی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

اب رہی بات کہ، نوجوان اس دہرے تعلیمی نظام سے کس سمت جارہے ہیںتواس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ایک طرف اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل انگریزی میں بات کرتے، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور بہترین گھروں میں رہتے ہیں۔ دوسری طرف اردو میڈیم سے پڑھے ہوئے نوجوان نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے نظر آتے ہیں۔ کچھ تو دل برداشتہ ہو کر زندگی کو ہی خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

وہ نوجوان جو اردو میڈیم سے پڑھ کر نکلتے ہیں تو ان پر یہ اشکار ہوتا ہے کہ اپنی تمام تر محنت کے باوجود وہ ان اعلیٰ عہدوں کے اہل ہی نہیں ہیں جہاں کی اولین ترجیح انگریزی زبان پر عبور ہے۔ یہ حقیقت انہیں احساس کمتری میں مبتلا کردیتی ہے اور اس کے لیے بہتر روزگار سوائے خواب کے کچھ نہیں رہتا۔ ایسا نوجوان معمولی ملازمت یا مزدوری سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ نتیجتاً ایک نہ ختم ہونے والی غربت اور تاریک مستقبل کا شکار رہتا ہے۔ اسی دہرے نظام تعلیم کے تحت ایک کنفیوژ اور الجھائو کا شکار نسل پروان چڑھ رہی ہے۔

ایک طرف وہ جنہوں نے مادری زبان میں تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل تاریک کرلیا، دوسری طرف انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے نوجوانوں کو مادری زبان سے دور کردیا۔ بحیثیت قوم ہم اپنی آنے والی نسلوں کے مجرم ہیں، جنہوں نے اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کردی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے۔

موجودہ حکومت نے ایک قومی نصاب کا نعرہ لگایا ہے۔ یہ اچھی ابتدا ہے لیکن ماہرین تعلیم جانتے ہیں کہ صرف نصاب بنانے سے فرق نہیں پڑا،بلکہ عملی اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں۔ نوجوان چاہے اردو میڈیم سے پڑھ کر نکلیں یا انگریزی میڈیم سے، ان کی صلاحیتوں پر نظر رکھنی چاہیے نہ کہ ان کے میڈیم پر۔ اس کے ساتھ ہی اپنی قومی زبان کی ترویج پر بھی زور دینا ہوگا تاکہ نوجوان اردو میں جدید سائنسی مواد نا ہونے کی وجہ سے کسی کمی کا شکار نہ ہوجائیں۔

پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ کرمنالوجی کی چیئرپرسن ہیں۔ انہوں نےہمارا سوال سن کر کہا کہ یہ ایک بہت اچھا موضوع ہے جس پر نہ صرف بات کرنی چاہیے بلکہ اس پر کام بھی ہونا چاہیے کیونکہ دو مختلف تعلیمی نظام سے معاشرے میں تضاد پیدا ہورہا ہے جو سب کے سامنے روزروشن کی طرح عیاں ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ایک سا قومی نصاب ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک دیگر شعبوں کی نسبت تعلیم کی مد میں زیادہ بجٹ رکھتے ہیں، مگر افسوس ہمارے ملک میں تعلیم کے نام پر جو بجٹ رکھا جاتا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایسی صورتحال میں انفرا اسٹرکچر بھی مخدوش ہی ہوگا۔دُنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان شعبہ تعلیم میں اہداف کے حصول میں کئی دہائیاں پیچھے ہے۔

پاکستان میں ایک نظام برطانیہ کا نظامِ تعلیم یعنی O، & A لیول،دوسرا نظام پرائیویٹ ا سکولز سسٹم، تیسرا نظام گورنمٹ اسکولز سسٹم اور چوتھا نظام مدرسہ تعلیم سسٹم رائج ہے۔اور مزید گورنمنٹ ا سکولز میں فیڈرل بورڈ الگ اور پانچوں صوبوں کا الگ الگ نظامِ تعلیم و نصاب نظر آتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے توامیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ نظامِ تعلیم ہے۔ ایک اور بات جو اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ تعلیم کے ساتھ ماحول کا بھی بہت اثر ہوتا ہے۔ سرکاری اسکولوں کے بچے مخدوش حال عمارتوں میں، ٹوٹی ہوئی کرسیوں یا کھلے میدانوں، برآمدوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں نہ وہاں لائبریریاں ہیں، نہ کمپیوٹر روم ،جب وہ اپنا موازنہ نجی اداروں کے طلباء سے کرتے ہیں، ان کی عمارتیں دیکھتے ہیں تو وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں، وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے۔

دہرے نظام سے طلباء میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ صرف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی بات نہیں کی جاسکتی، اس کے علاوہ مدارس بھی ہیں جہاں بہت زیادہ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کی تعلیم بھی نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں سے قطعی مختلف ہے۔ سرکاری اداروں سے پڑھنے والے طلباء جب کالج، یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں تو انگریزی میں کمزور ہونے کی وجہ سے انہیں بہت مشکلات درپیش آتی ہیں، وہ بیچ میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں انگریزی کا معیار بھی نجی اداروں کی طرح ہونا چاہیے یا پھر ایسا معیار قائم ہو جو دونوں کےلئے مفید اور کارگر ہو۔

اسی طرح دیگر مضامین کے معیار کو بھی ایک نہج پر لانا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو نوجوانوں کی شخصیت پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں طلباء کی سوچ کو اہمیت نہیں دی جاتی بس ان کو رٹا رہے ہیں۔ ان میں بھی ذہانت کم نہیں لیکن ان کو وسائل اور سہولتیں نہیں ملتیں کہ وہ اپنی صلاحیت دکھا سکیں۔ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو جدید علوم کے ساتھ یکساںسطح پر لانے کی ازحد ضرورت ہے کیونکہ بہتر اور یکساں نظمِ تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم اور معاشرہ اپنے مقاصد اور اہداف حاصل نہیں کرسکتا۔

پروفیسر سید مہدی حسن زیدی حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ ڈگری کالج میں آرٹس اینڈ سوشل سائنسز کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی فرد وقوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے اگر ہم اقوام عالم میں ترقی یافتہ ممالک کا مطالعہ کریں تو ان کی ترقی کے پیچھے تعلیم و تحقیق ہے، جس نے انہیں دیگر اقوام پر برتری عطا کی لیکن وہ فرد اور اقوام کبھی ترقی نہیں کرتے، جنہوں نے تعلیم و تحقیق سے منہ موڑا۔ پاکستان کو بنے74سال ہوگئے ہیں اتنے سالوں میں شرح خواندگی 58فی صد ہے۔1947سے لے کر آج تک تعلیم پر حکومتی 22 پالیسیز بنیں، مگر کسی ایک پر بھی صحیح عمل درآمد نا ہوسکا۔

جہاں تک نظام تعلیم کی بات ہے تو ملک میں کئی قسم کے تعلیمی نظام رائج نظر آتے ہیں۔ الگ الگ نصابی کتب اور الگ الگ تعلیمی معیار ہے، اس قدر مختلف نظام ہائے تعلیم سے کیسے ایک قوم پروان چڑھ سکتی ہے؟ عمومی طور دو نظام تعلیم کی بات زیادہ زیرِ بحث رہتی ہے، وہ ہے نجی اور سرکاری، اس میں سب سے زیادہ اہم چیز یعنی نصاب کو دیکھا جائے تو نجی ا سکولوں کو سرکاری اسکولوں پر واضح برتری حاصل ہے۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جانے والے نصاب طلباء کی ذہنی استعداد بڑھانے میں مناسب حد تک ممد و معاون ثابت نہیں ہوتا ۔

یہاں کے طلباء کا کوئی ویژن نہیں ۔سرکاری اداروں کی جانب سے کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں، جبکہ نجی اسکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سےطالب علموں کی سوچ، فکر، خیالات اور نظریات میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ چند برسوں کے نتائج اٹھا کر دیکھیں تو پرائیویٹ اداروں کے پوزیشن ہولڈر طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں سیکٹرز کے معیار اور وہاں دستیاب سہولتوں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔

جس کی وجہ سے ان دونوں طبقات میں دوریاں بڑھ رہی ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری اداروں کا تعلیمی معیار پرائیویٹ اداروں کے معیار کی سطح پر لایا جائے، بہت سے ذہین طلباء میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں اس لیے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ بنیادی نصابی تعلیم اردو میں حاصل کرنے کے بعد ان کی تمام تر توجہ اور ذہنی صلاحیتیں ایف ایس سی کے نصاب میں انگریزی زبان کو سمجھنے میں لگ جاتی ہیں۔

اس طرز تعلیم نے سب سے زیادہ نوجوان نسل کو تباہ کیا ہے۔ اگر تعلیم اور تعلیمی اداروں میں طبقاتی تفریق ہو تو نوجوان نسل بھی ایک غیر متوازن اور غیر ہم آہنگ سوچ وفکر کی حامل ہوگی ۔طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کر کے ایک مضبوط فعال نظام تعلیم رائج نہیں کیا گیا تو بنیادی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم حاصل کر لینے تک بھی اقدار اور فکر و نظر کی حامل قوم پروان نہیں چڑھ سکتی ۔

پروفیسر ثریا قمر، جناح یونیورسٹی برائے خواتین میں شعبہ اسلامک لرننگ کی چیئرپرسن ہیں۔ انہوں نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ، ملک میں نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کےلئے اب تک یہ طے ہی نہیں ہو پایا کہ تعلیم کس زبان میں دی جانی چاہئے۔ قوم اب تک خلفشار کا شکار ہے۔ دہرے نظام تعلیم کی وجہ سے طلباء کی ذہنی تعمیر نہیں ہورہی۔

وہ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہ طے ہی نہیں ہوسکا کہ تعلیم کا بجٹ کیا ہونا چاہئے۔ جیسا اور جہاں کی بنیاد پر جو کچھ چل رہا ہے، اسی کو چلا ر ہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کاجو حال ہے، اساتذہ جو وہاں پڑھا رہے ہیں، وہ سوالیہ نشان ہیں۔ وہاں سے ہماری جو نسل تیار ہوکر نکل رہی ہے، وہ بھی سوالیہ نشان ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے تباہ ہورہے ہیں۔ نظامت تعلیم ایک یتیم ادارہ بن چکا ہے، جس کا کوئی پرسان حال نہیں،بھاری بھرکم تنخواہوں سے لطف اندوز ہونے والے اساتذہ کے اپنے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھ رہے۔

کہا جاتا ہے کہ استاد ہی وہ منفرد آنکھ رکھتا ہے جو طالب علموں میں جوہر تلاش کر کے اس کی درست معنوں میں تربیت کر سکے اور ایک مہذب قوم کی تشکیل کے لئے معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اساتذہ کی طرف سے لاپرواہی ایک غیر محسوس طریقہ سے تعلیمی نظام میں ایک ایسا چھید کر رہی ہے جو ہمارے تعلیمی اداروں کی ساکھ کے لئے خطرے کا باعث بھی ہو سکتاہے۔ سرکاری اداروں میں تعلیم کا نظام نہایت پست ہے۔ نصاب کی کتابیں عرصے تک نہیں بدلی جاتیں جس کی وجہ سے بچے جدید معلومات سے محروم رہتے ہیں۔

ایک طرف تو ایسے طلباء ہیں جن کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہے، وہ سول سروس کے امتحان میں بھی بیٹھتے ہیں اور اعلیٰ شعبوں پر بھی براجمان ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ طلباء ہیں جو اردو میڈیم سے پڑھ کر نکلتے ہیں۔ وہ باصلاحیت بھی ہوں لیکن ان کو دانستہ یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ معاشرے کے کارآمد رکن نہیں، حالانکہ صلاحیتوں کا تعلق انگریزی اور اردو میڈیم سے نہیں ہوتا۔ یہ وہ رویے ہیں جن سے سرکاری تعلیمی اداروں سے پڑھنے والوں میں احساس کمتری پیدا ہورہاہے۔ نجی اداروں سے پڑھنے والوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر ان میں حسد اور رقابت پیدا ہورہی ہے۔ اس طرح معاشرے میں امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جارہا ہے۔

جس ملک کے ارباب و اقتدار اب تک یہ طے ہی نہیںکر پائے کہ مستقبل کے معماروں کےلئے کس طرح کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے، اقوام عالم میں ان کو کس طرح سرخرو کرنا ہے۔ وہ کیا کرسکتے ہیں تعلیمی نظام کی درستگی کے علاوہ سب کچھ ہورہا ہے۔ ہمیں ایک پالیسی واضح کرنی ہوگی جو پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم کی ہو، تاکہ نوجوانوں میں اعتماد پیدا ہو۔ اگر تفریق ختم نہ ہوئی تو مستقبل کے معماروں میں طبقاتی کشمکش جاری رہے گی۔

ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی میڈیا اینڈ ڈیزائن فیکلٹی علمایونی ورسٹی میں ’’ڈین‘‘ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کے ترقی کے پیمانوں میں تعلیم سرفہرست ہے ۔ سماجی اور معاشی ناہمواری‘غربت سے نکلنے کے راستے اور قومی شناخت و یک جہتی کا عمل‘ سب تعلیمی نظام سے ہی مربوط ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری تعلیم بھی تقسیم کا شکا ر ہے، اعلی تعلیم کے لئے اعلی وسائل درکار ہیں، اور نچلے طبقے کے لئے موجود سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، نئی نسل اس تقسیم کے بعد قومی یکجہتی کے فلسفے سے دور ہوتی جارہی ہے۔ معاشرے میں تعلیمی نظام میں دُہرا معیار، صحت کے نظام میں دُہرا معیار، انصاف کے نظام میں دُہرا معیار، غرض یکہ اس ملک کو طبقاتی نظام کے دلدل میں دھنسا دیا گیا ہے۔

اس وقت ملک میں دو تین طرح کےتعلیمی نظام ہیں،ایک سرکاری اسکولوں کا نظام ہے دوسرا پرائیویٹ اسکولوں کا نظام اوسط گھرانوں کے لئے اور ایک اشرافیہ کے لئے الگ ہی تعلیمی نظام ہے، جہاں ان کے بچے پڑھتے ہیں، وہاں پڑھنے کا عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک مدرسے کا نظام بھی ہے جب اتنے سارے نظام ہوں گے تو تعلیم کا کوئی ہدف مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ملک میں کئی کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے جو جاتے ہیں وہ پرائمری پڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں سیکنڈری کی تعلیم سے محروم ہی رہتے ہیں۔

ہمارے ہاں یونی ورسٹی جانے والے طلباء کی تعداد دو سے تین فی صد ہے، سوچیں ہم کہاں ہیں۔ ہمارے نوجوان دو نظاموں میں بٹ کر خلفشار کا شکار ہورہے ہیں، ان کی صلاحیتیں برباد ہورہی ہیں۔ تعلیم کی شرح ہمارے ملک میں پہلے ہی کم ہے، طبقاتی نظام نے انہیں مزید تعلیم سے دور کردیا ہے ۔ سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو نوکریاں نہیں ملتیں جب ان کو آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملتے وہ غلط راستوں پر نکل جاتے ہیں ۔پورے ملک میں ایک ہی نظامِ تعلیم ہونا چاہیے، خواہ وہ انگریزی ہو یا اردو۔ جب نظام تعلیم ایک ہوگا تو ایک جیسے انداز سے سوچیں گے ۔ سرکاری اسکولوں کا معیار بلند کرنا ہوگا ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں لہذا تعلیم کے لیےبجٹ بھی بڑھانا ہوگا۔

پروفیسر ریاض احمد شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری ، جامعہ کراچی سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب، سب کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔ لیکن ہمارے ہاں صرف دہرا تعلیمی نظام نہیں ہے بلکہ اس میں آغا خان بورڈ، اے لیول، او لیول بھی ہیں جن کی تعداد بہت کم ہے لیکن اخراجات اور معیارات اونچےہیں۔

پھر آتا ہے مدارس کا نظام۔ تعلیم جہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں مہنگی ہے وہاں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سرکاری اداروں کے پڑھنے والوں کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ ٹیوشن، کوچنگ کی فیسیں ہیں۔ تعلیم مشکل ہی نہیں مہنگی بھی ہوتی جارہی ہے۔ آپ کے پاس اتنا بڑا طبقاتی نظام ہے جو آغا خاں اور لمز سے پڑھ کر آتے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے جگہ جگہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں جن میں اپنے بچوں کو پڑھانا غریب طبقے کوتو کیا متوسط طبقے کے بس کی بات نہیں۔ دوسرے شعبوں پر پیسہ لگانے کے بجائے تعلیم پر خرچ کرنا زیادہ ضروری ہے ۔

مختلف اساتذہ کے خیالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ دہرا معیارِ تعلیم آگے بڑھنے میں کبھی معاون نہیں ہوسکتا۔ یکساں نصاب تعلیم کے ساتھ یکساں نظامِ تعلیم بھی ضروری ہے۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے:

صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔