لوگ … لیڈر اور وفا

July 25, 2021

حرف و حکایت … ظفرتنویر
اس کا منہ بنا ہوا تھا ایسے لگتا تھا کہ کسی سے جھگڑکر آیا ہے، میں نے وجہ پوچھی تو گویا پھٹ پڑا اور تیز تیز بولنے لگا وہ کہہ رہا تھا کہ آخر لوگوں نے کشمیریوں کو سمجھ کیا رکھا ہے جو بولتا ہے بغیر سوچے سمجھے اپنی ہانکنا شروع کردیتا ہے یہ جانے بغیر کے ان کی اس بے تکی کے باعث خود کشمیریوں کو کتنی کوفت ہوگی اور ان باتوں سے وہ کتنی تذلیل محسوس کریں گے، مستحسن عقیل میرا بھانجہ بھی ہے اور دوست بھی، اسے اخبارات میں تواتر سے شائع ہونے والی بعض خبروں اور تجزیوں نے دکھی کردیا تھا، یہ وہی خبریں ہیں جن میں بڑے اصرار کے ساتھ یہ کہا اور لکھا جاتا ہے کہ آزاد کشمیر کے لوگ ’’عام انتخابات میں صرف اس جماعت کو ہی ووٹ دیتے ہیں جو پاکستان میں برسراقتدار ہو‘‘ وہ کہہ رہا تھا کہ دوسرے لفظوں میں آزادکشمیر کے لوگ بکائو ہیں جنہیں پاکستان کی حکمراں جماعت خرید لیتی ہے، عقیل کو اس مفروضہ پر نہ صرف اعتراض ہے بلکہ شدید غصہ بھی ہے وہ کہہ رہا تھا کہ یہ وہی آزادکشمیر ہے جس کے لوگوں نے اپنے مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی حکومت کو قبول نہیں کیا اور عوامی حقوق کیلئے چلانے جانے والی تحریک کے ذریعہ آزادکشمیر کے ڈھائی اضلاع کو ریاست سے الگ کرلیا اگر انہیں اقتدار کا اتنا ہی شوق ہوتا تو مہاراجہ کی بنائی ہوئی اسمبلی ’’پر جابیٹھتے‘‘اور عوامی نمائندوں کی نشستوں پر بیٹھ کر اقتدار کا اپنا ٹھرک پورا کرلیتے وہ کہہ رہا تھا کہ کون نہیں جانتا کہ آزاد کشمیر میں ریاست کی ہی طرح آج بھی قبیلوں اور برادریوں کی حکومت ہوتی ہے، آزاد کشمیر کے عوام عام انتخابات میں کسی سیاسی پارٹی کو نہیں بلکہ اپنے علاقہ کی شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں ،اس نے مجھے یاد دلایا کہ حلقہ نمبر3 میرپور شہر کی نشست سے گزشتہ 50 برس سے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ان کے چچا چوہدری خادم حسین اور والد چوہدری نورحسین انتخاب لڑتے آئے ہیں اور ماسوائے ایک دو کے تمام انتخابات اسی خاندان نے جیتے ہیں ،ظاہر ہے یہ تبھی ممکن ہے جب آپ کو عوام کی حمایت حاصل ہو، ان 50 برسوں میں اس خاندان نے سات آٹھ سیاسی جماعتیں تبدیل کی ہیں اور اکثریہی کامیاب ہوتے ہیں لوگوں نے تو ہربار اپنی محبت میں انہیں ووٹ دیئے ہیں، یہ اگر لوگوں کی اس محبت کو سہارا بنا کر سیاسی جماعتیں تبدیل کرتے رہیں تو اس میں عوام کا کیا قصور، عوام تو اپنی محبت کی رسی میں بندھے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ یہ لیڈر ہر بار اس رسی کو کسی نئی کھونٹی سے باندھ دیتے ہیں، عقیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں تو شاید لوگ سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہوں گے لیکن آزادکشمیر میں آج بھی سیاسی جماعتوں سے زیادہ اہمیت شخصیات کو حاصل ہے اور ان ہی شخصیات کو بہلا پھسلا کر یا ان کی کارستانیاں انہیں یاد دلواکر ان کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کروا دی جاتی ہیں لیکن عقیل کو اس امر کا بھی پختہ یقین ہے کہ شاید 25جولائی کو ہونے والے انتخابات میں یہ کارڈ اس طرح نہ چل سکے جس طرح پچھلے انتخابات میں چلتا رہا ہے، اس کا خیال ہے کہ موسم تبدیل ہو رہا ہے اگر موسم پہلے جیسا ہی ہوتا تو آزادکشمیر کا الیکشن کمشنر اتنی جرأت نہ کرتا کہ اپنے ہی وزیر امورکشمیر کو ریاست بدری کے احکامات سنا دیتا، وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ آزادکشمیر کے چیف الیکشن کمشنر بھی ہوسکتا ہے اس حد تک نہ جاتے اگر وہ بدلتے موسم کی تھپک اپنے وجود پر محسوس نہ کرتے مستحسن عقیل نے جو کچھ کہا میں یقیناً اس سے اتفاق کرتا ہوں اور یہ جانتا ہوں کہ اس بار کے انتخابات ماضی کے انتخابات سے قدرے مختلف ہوں گے، صرف انتخابات ہی نہیں اس کے نتائج بھی لیکن ایک بات تو ماننی ہی پڑے گی کہ اگر عام انتخابات میں آزادکشمیر کے سیدھے سادے لوگ نہیں بکتے تو وہ لیڈر ضرور بک جاتے ہیں جو عرصہ سے برادری یا علاقہ کے نام پر اپنے ہی لوگوں کو الو بنا رہے ہیں۔