تحریک انصاف کی کامیابی‘ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی ناکامی کے محرکات

July 26, 2021

اسلام آباد (فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) اگر آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے واضح سبقت حاصل کر لی اور اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی شکست سے دوچار ہو گئیں تو ان تینوں جماعتوں کی کامیابی اور ناکامیوں کے اپنے اپنے عوامل اور محرکات ہیں لیکن ’’زمینی حقائق‘‘ اپنی جگہ۔ آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں یہ پہلا موقع ہے کہ اسے ’’خونی الیکشن‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے کیونکہ پہلی مرتبہ اس وسیع پیمانے پر لڑائی‘ جھگڑے اور ہنگامہ آرائی کے واقعات دیکھنے میں آئے جس میں بعض ہلاکتوں کی اطلاعات بھی آئی ہیں اور اس کا پس منظر بھی موجود ہے‘ کیونکہ ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں حصہ لیتی آئی ہیں لیکن انکے پیش نظر یہ حقیقت بھی ہوتی تھی کہ وفاق میں جو سیاسی جماعت برسر اقتدار ہے آزاد کشمیر میں حکومت بنانا اُسی کا استحقاق اسلئے بھی ہے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ اپوزیشن کی دونوں جماعتوں نے ماضی کی اس روایت سے انحراف کرتے ہوئے جیتنے کیلئے یا پھر وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے الیکشن میں حصہ لیا‘ اسکی ایک وجہ تو پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت تھی جس پر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی 2018ء کے انتخابات دھاندلی سے جیتنے کا الزام لگاتی ہیں اور ’’منتخب وزیراعظم کو سلیکٹڈ وزیراعظم‘‘ قرار دیتی ہیں۔ پھر بالخصوص گزشتہ چند ماہ سے پاکستان کی سیاست میں جو واقعات اور پارلیمان میں جو مناظر دیکھنے میں آئے اور ضمنی انتخابات میں حکومتی جماعت کو جس طرح شکست ہوئی اسکے باعث سیاسی ماحول میں خاصی گرما گرمی تھی۔ اگست 2009ء میں مودی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد آزاد کشمیر میں یہ پہلے انتخابات ہیں اور ان انتخابات کا ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان جو آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے خواہشمند ہی نہیں بلکہ پرعزم بھی ہیں‘ اگر انہیں آزاد کشمیر میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو اسکے اثرات بالواسطہ یا بلاواسطہ 2023ء کے عام انتخابات پر لازمی پڑنے تھے۔ پھر اگر شکست کی صورت میں یا پھر بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) جو پاکستان میں حکومت کیخلاف انتہائی جارحانہ سیاست کر رہی ہے اسکے اسلام آباد کی حکومت سے ’’روابط اور معاملات‘‘ کیسے چلتے۔ اگر حکومتی جماعت کی فتح کے ’’اسباب‘‘ کو زیربحث لائے بغیر مسلم لیگ (ن) کی شکست اور کم نشستوں پر کامیابی پر نظر ڈالی جائے تو اسکی وجوہات سامنے ہیں‘ اس حقیقت کے باوجود کہ مریم نواز نے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں سب سے زیادہ جلسے کئے اور عوام کی بڑی تعداد نے ان میں شرکت کی لیکن انکی جماعت میں ’’مزاحمت اور مفاہمت‘‘ کی سیاست کا جو بیانیہ چل رہا ہے اس کا مظاہرہ آزاد کشمیر میں اُنکی تقاریر میں بھی دیکھنے میں آیا۔ انکے پاس پانچ سال میں آزاد کشمیر میں اپنی جماعت کی کارکردگی کا حوالہ دینے کیلئے کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں تھا اور انکی تمام تقریریں وفاقی حکومت ا کیخلاف تھیں اور اس دوران ان کے حوالے سے بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے جن سے ان کی ’’سیاسی ناپختگی‘‘ کا اظہار ہوتا تھا۔ اسکے برعکس اُنکی جماعت کے صدر میاں شہباز شریف کو آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی‘ اور یہ بات مریم نواز نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں ان لفظوں میں کہی تھی کہ ’’جہاں شہباز شریف موجود ہوں وہاں میری ضرورت نہیں ہے‘‘ گویا وہ یہ کہہ رہی تھیں کہ ’’جہاں میں ہوں وہاں شہباز شریف کی ضرورت نہیں‘‘ اور یہی وجہ تھی کہ شہباز شریف نہ صرف آزاد کشمیر کی پوری انتخابی مہم سے کنارہ کش رہے بلکہ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی شرکت نہیں کی۔ اس تناظر میں یہ قیاس حقیقت پر مبنی بھی ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف ’’نالاں بھی ہیں بدظن بھی اور باقاعدہ ناراض بھی‘‘۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو اس کا سیاسی وجود کافی عرصے سے ماضی کے اُن نظریاتی کارکنوں اور رہنمائوں کا مرہون منت ہے جن کا تعلق ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو سے تھا۔ الیکشن کے دوران جس اچانک اور پراسرار انداز میں بلاول بھٹو انتخابی مہم چھوڑ کر امریکہ روانہ ہو گئے‘ اور پھر واپسی پر انہوں نے اپنے اس دورے کی وجوہات کامیابیوں یا ناکامی سے بھی آگاہ نہیں کیا‘ تاہم جو پرجوش ماحول انہوں نے قائم کیا تھا‘ اُس تسلسل کو آصفہ بھٹو قائم نہیں رکھ سکیں اور آخر میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مریم نواز اور راجہ فاروق حیدر نے انتخابات میں ناکامی کی صورت میں احتجاجاً اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اگر وہ اپنے اس فیصلے پر قائم رہتے ہیں تو شاید اسکے اثرات اور نتائج انکی توقع کے برعکس نکلیں۔ اسلئے انہیں اپنے اس فیصلے پر سوچ بچار کرنی ہوگی۔