آزادکشمیر میں چنائو …

July 28, 2021

خیال تازہ … شہزادعلی
آزاد کشمیر کے انتخابات کے موقع پر جوں جوں نتائج آتے گئے آزاد کشمیر اور پاکستان کے مختلف ذرائع ابلاغ لمحہ بہ لمحہ نتائج اور تبصرے بھی پیش کرتے رہے، اور انتخابی مرحلہ مکمل ہوجانے کے بعد آزاد کشمیر اور پاکستان کے بعض چوٹی کے کالم نگاروں اور رپورٹرز نے اپنے اپنے انداز میں آزاد کشمیر میں انتخابات کےنتائج کو موضوع بنایا ۔ قومی سطح کے میڈیا میں آزاد کشمیر کو جگہ ملنا ایک خوش آئند بات ہے۔ یہ بھی ایک مثبت طرز عمل ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کی مہم میں ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کے صف اول کے قائدین اپنی اپنی جماعتوں کے امیدواروں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے، مجموعی طور پر انتخابی مہم کے دوران پاکستانی جماعتوں کے قائدین کو آزادکشمیر کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں آزاد کشمیر کے باشندوں نے پرتپاک خیر مقدم کیا اور ان کی کشمیریوں کے ساتھ اپنائیت کو سراہا، اسی بات سے آزاد کشمیر کے عوام اور پاکستان کے لوگوں کے درمیان تعلقات کار کی نوعیت سمجھے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ کیا نریندر مودی اور بھارت کے دیگر سیاست دان مقبوضہ کشمیر میں کوئی اس طرح کا منظر پیش کرسکتے ہیں؟ سیاسی اور صحافتی حلقے اب پاکستان مسلم لیگ نواز آزاد کشمیر کی شکست کے اسباب بھی تلاش کر رہے ہیں اس لیے کہ یہاں پر یہ جماعت برسر اقتدار ہے اور انتخابات اسی کی زیر نگرانی ہوئے مگر پھر بھی جب دھاندلی اور انتخابات کے غیر شفاف ہونے کے الزامات لگائے جائیں تو پھر خود آزاد کشمیر کے سیٹ اپ پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ بعض متعجب ہیں کہ کراوڈ پلر مریم نواز کی جاندار انٹری، پاکستان مسلم لیگ نواز کی مکمل سپورٹ اور بذات خود آزاد کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے ہوتے ہوئے آزاد کشمیر کی حکومتی جماعت پھر بھی آخر کیوں بری طرح شکست و ہزیمت سے دوچار ہوئی ۔ اکثر جائزوں میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ پیش کی گئی ہے کہ یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ جس پارٹی کی بھی وفاق میں حکومت ہوتی ہے آزاد کشمیر کے لوگ چونکہ اسی جماعت کو ووٹ دیتے چلے آئے ہیں اس لئے اس مرتبہ بھی یہی ہوا۔ ہمارے حساب میں یہ بات جزوی طور پر درست ہے ورنہ اگر صرف یہی ایک ٹرینڈ ہوتا تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی نے کیسے درپیش حالات میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کی؟ پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت نہ تو مرکز اور نہ پنجاب میں حکمران ہے بلکہ آزاد کشمیر پر بھی اس کی حکومت نہیں جبکہ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور عمران خان کے حمایت یافتہ میڈیا کی بڑی تعداد چند سال سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ بھی کرتی چلی آرہی ہے کہ پی پی پی تو قصہ پارینہ بن چکی ہے تو اگر ایسی باتوں میں کوئی "مکمل" سچائی ہوتی تو پھر وفاق کی حمایت یافتہ پوری سرکاری مشینری کے استعمال کے باوجود آزاد کشمیر سے پی ٹی آئی 26نشستیں کیوں لے سکی؟ اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی آزادکشمیر پر حکومت تھی مقامی وسائل کے علاوہ پنجاب سے مسلم لیگ نواز کی مکمل آشیر باد حاصل تھی مگر اسے جو دھچکا لگا اس لیے اس باب میں وسیع پیمانے گہرائی سے جائزوں کی گنجائش موجود ہے ۔ کچھ وجوہات جن سے بڑے بڑے جائزہ کاروں کے کالمز اور جائزے نشان دہی کرنے میں شاید ناکام رہے وہ یہ ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز آزاد کشمیر کی حکومت مجموعی طور پر درحقیقت مایوس کن کارکردگی کی حامل حکومت ثابت ہوئی ہے البتہ مالیاتی خودمختاری اور بعض آئینیحوالہ سے پیش رفت کی اور بعض جگہوں پر سڑکوں کی تعمیر بھی اس کا کارنامہ بتایا جاتا ہے مگر آزاد کشمیر کے خطے میں گڈ گورنس کو فروغ نہیں دے سکی ۔ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر مخصوص اور منظور نظر افراد کو نوازنے کی بھی بعض نئی مگر غلط روایات قائم کی گئی تھیں آزاد کشمیر کے متعدد اضلاع کے پولیس سربراہان، ڈپٹی کمشنروں کے علاوہ الیکشن کمیشن کے ممبرز جن افراد کو بنایا گیا آزاد کشمیر عدلیہ میں بھی جو ن لیگ کے دور میں تعیناتیاں کی گئی ہیں ان معاملات کو بھی واقفان حال پاکستان مسلم لیگ ن کی آزاد کشمیر کے انتخابات میں ناکامی کی ایک وجہ قرار دے رہے ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی پاکستان کے اندر حکومتوں اور پی پی کی سندھ میں کارکردگی بھی نااہلی کی اپنی مثال آپ ہیں مگر چونکہ الیکشن آزادکشمیر کے اندر منعقد ہو رہے تھے اس لئے پاکستانی فیکٹرز کے علاوہ آزاد کشمیر کے مقامی معاملات حکومت آزاد کشمیر کی کارکردگی بھی آزاد کشمیر کے اب پہلے سے زیادہ باشعور ہوتے ہوئے رائے دہندگان کے مد نظر تھی۔ ادھر برطانیہ میں لوٹن، برمنگھم اور بریڈ فورڈ جیسی کئی جگہوں پر جہاں پر میرپور ڈویژن، کوٹلی کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں کمیونٹی آباد ہے ان میں اس الیکشن میں بالخصوص ان لوگوں کے آبائی علاقوں میں انتخابی عمل پر زور و شور سے تبصرے سننے میں آئے ہیں۔ برطانوی پس منظر رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر چوہدری محمد یاسین کا بیک وقت دو حلقوں کوٹلی اور چڑھوئی سے انتخابات میں کامیاب ہونا بھی زیر بحث ہے، ان کی اس جیت کو کوٹلی میں ایک نئی تاریخ رقم ہونا بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بھی خیال رہے کہ خاص طور پر وفاقی حکومت کے حمایت یافتہ امیدواروں کی شدید مخالفت کا چوہدری محمد یاسین کو سامنا تھا، اور اپنے حلقہ چڑھوئی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے بھی ان پر ماضی کی نسبت اس مرتبہ زیادہ دباؤ بڑھانے کے دعوے کیے جارہے تھے اس تناظر میں دو حلقوں سے بیک وقت کامیابی بڑاکارنامہ ہےمگر اس تبدیلی کو قومی میڈیا نے شاید محسوس نہیں کیا۔اسی طرح طویل مدت سے سہنسہ سے پاکستان مسلم لیگ نواز کے ناقابل شکست سمجھے جانے والے راجہ نصیر کی پی ٹی آئی کے چوہدری اخلاق کے ہاتھوں شکست، کھوئی رٹہ سے پی ٹی آئی کے ڈاکٹر چوہدری نثار انصر ابدالی کی پی پی پی کے امیدواروں کے مقابلے میں کامیابی اور نکیال سے پی پی کے جاوید بڈھانوی کی سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان کے خاندان کے مقابلے میں کامیابی مقامی طور پر کئی حوالوں سے اہم تبدیلیاں خیال کی جاتی ہیں۔ان انتخابات میں میں مریم نواز کا ہی نہیں سالار جمہوریت کہلانے والے سردار سکندر حیات خان کا بیانیہ بھی نہیں چل سکا، جبکہ پی ڈی ایم کی ناکامی، حالیہ عرصہ میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے معاشی بحالی میں بہتری لانے کے لئے بعض اقدامات، پھر پاکستان کے ساتھ آزاد کشمیر میں بھی صحت کارڈ کا جو اجراء کیا گیا، امریکہ کے حوالے عمران خان نے جو تازہ بیانیہ اپنایا ان عوامل کا بھی آزاد کشمیر میں عوامی ذہنوں پر اثر پڑا ہے۔ آزاد کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے نالاں تبدیلی لانے کے خواہش مند بعض ووٹرز نے بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا جبکہ آزاد کشمیر کا عام ووٹر اب خاصی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتا ہے کہ کسی ایک پارٹی پر اندھا مکمل اعتماد نہیں کیا گیا، جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں آزاد کشمیر کی حدود میں واقع 33 انتخابی حلقوں کا نتیجہ چشم کشا رہا ماضی کی روایات کے برعکس وفاقی پارٹی تحریک انصاف کو آزادکشمیر سے صرف 16 نشستیں حاصل ہو سکی ہیں۔اضی میں آزاد کشمیر کی حد بندی میں بھی پاکستان میں کشمیری مہاجرین کے حلقہ ہائے انتخابات کی طرح صورتحال درپیش ہوتی تھی وفاقی حمایت یافتہ جماعت کی قابل ذکر اکثریت ہوتی تھی مگر اس مرتبہ ایسا نظر نہیں آریا البتہ پاکستان کے اندر واقع آزاد کشمیر کے انتخابی حلقوں میں ماضی کی طرح غالب اکثریت وفاقی حکومت کی منظور نظر جماعت کو ملی جبکہ پی پی پی ایک مرتبہ پھر جس طرح ابھر کر سامنے آئی ہے اس سے آئندہ چند سال میں نئی تبدیلیوں کی تپش کو ابھی سے محسوس کیا جا رہا ہے۔، تحریک انصاف آزاد کشمیر میں سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے وزارت عظمیٰ کے لیے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سردار تنویر کے ساتھ ساتھ درون خانہ چوہدری انوار الحق اور خواجہ فاروق احمد کے نام بھی گردش کر رہے ہیں جبکہ یہ تبصرے بھی سننے کو مل رہے ہیں کہ باالفرض بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جو پارٹی کے صدر ہیں اور جن کی قیادت میں یہ الیکش پی ٹی آئی نے جیتے ہیں اگر وزیر اعظم کے لیے ان کے بجائے کسی اور کو ترجیح دی جاتی ہے تو وہ کوئی اور قدم بھی اٹھا سکتے ہیں؟۔