کشمیر میں دو ریفرنڈم کروانے کی نئی تجویز

July 29, 2021

پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران کشمیر کے بارے میں ایک پالیسی بیان دیا جس کے تحت اُنہوں نے کشمیر کے عوام کی رائے معلوم کرنے کیلئے دو قسم کے ریفرنڈم کروانے کا عندیہ دیا ہے۔ پہلے ریفرنڈم میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیری عوام سے پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں؟ اگر کشمیریوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں تو دوسرے ریفرنڈم کے تحت انہیں پاکستان کے ساتھ رہنے یا آزادی کا انتخاب کرنےکی اجازت ہوگی۔ عمران خان کے اس اعلان کو حزبِ اختلاف کی تمام پارٹیوں نے نہ صرف مسترد کر دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ یہ بیان پاکستان کی خارجہ پالیسی سے انحراف اور آزاد کشمیر کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اعلان ہے۔ قطع نظر اس کے کہ حزبِ اختلاف نے عمران خان کے ریفرنڈم کے اعلان کو مسترد کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود اس اعلان کے بہت سے مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ یاد رہے کہ اس موقع پر عمران خان نے کشمیر کو الگ صوبہ بنانے کے موقف کو بھی مسترد کر دیاہے۔

1947کے آزادی ایکٹ کے تحت ہندوستان آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو گیا اور یہ طے پایا کہ جن ریاستوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی، وہ پاکستان سے الحاق کریں گی اور جن ریاستوں میں ہندئووں کی اکثریت ہوگی وہ ہندوستان سے الحاق کریں گی۔ کشمیر میں گو کہ مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر مہاراجہ ہندو تھا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ مہاراجہ کشمیر پاکستان سے الحاق کرنے کو تیار بھی تھا اور اس معاملے پر قائداعظم سے خط و کتابت بھی کر رہا تھا۔ مہاراجہ کے پاکستان سے الحاق کی طرف جھکائو کی اصل وجہ مسلم لیگ کے منشور میں وہ شق تھی کہ جس کے تحت وہ ریاستیں جو پاکستان سے الحاق کریں گی ان کی خود مختاری برقرار رہے گی جبکہ کانگریس کے منشور میں اس کے برعکس لکھا تھا کہ الحاق ہونے والی ریاستیں بھارت میں ضم ہو جائیں گی۔ ابھی یہ بات چیت چل ہی رہی تھی کہ قبائلیوں کے لشکر نے حملہ کر دیا جس پر مہاراجہ نے بھارتی حکومت سے مدد مانگی جو کہ اس شرط پر دی گئی کہ مہاراجہ بھارت سے کشمیر کے الحاق کا اعلان کرے۔ جب حالات زیادہ سنگین ہو گئے تو یکم جنوری 1948کو بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کشمیر کے مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں لے گئے۔ یوں 5فروری 1948کو اقوامِ متحدہ کی قرارداد منظور ہوئی جس کے تحت ایک آزاد کمیشن ریاست جموں و کشمیر میں ریفرنڈم کروائے گا اور ہندوستان اور پاکستان کو اپنی فوجیں کشمیر سے نکالنا ہوں گی۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی اس قرارداد سے انحراف کیا اور 26جنوری 1950کو بھارت کے آئین میں آرٹیکل 370کے تحت جموں و کشمیر کو ایک نیم خود مختار علاقے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ 30مارچ 1951کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھارت کی طرف سے کشمیر میں کروائے گئے الیکشن کو مسترد کر دیا اور کشمیر کے مستقبل کیلئے ریفرنڈم کے انعقاد پر زور دیا۔

وزیراعظم عمران خان کے پہلے ریفرنڈم کا بیان دراصل اقوامِ متحدہ کی جنوری 1948کی قرارداد کا تسلسل ہے لیکن اصل مسئلہ قرارداد پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرانے کا ہے۔ اس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اقوامِ متحدہ کو ایک عارضی ڈھانچہ بنانا ہوگا جس کے لئے بھارت کی بھی مدد درکار ہوگی، پانچ رکنی کمیشن کا اعلان کرنا ہوگا اور پاکستان اور بھارت کی فوجوں کو کنٹرول لائن سے باہر جانا ہوگا۔ یہاں ایک اہم مسئلہ بھارتی آئین کی شق 370کو بحال کرکے ریاست کشمیر کی پرانی حیثیت بحال کرنا ہوگی اور لداخ کے علاقے کو یونین ٹیریٹری سے نکال کر کشمیر کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ اقوامِ متحدہ کی روح کے مطابق ریفرنڈم کروایا جا سکے جس سے ظاہرہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اقوامِ متحدہ کے تحت مذاکرات کرنے ہوں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ بھارت ان اقدامات کے تحت کسی قسم کے ریفرنڈم کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور اگر اس ریفرنڈم کا سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق انعقاد نہیں ہوتا تو اس کی بین الاقوامی قانون کے مطابق کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ جہاں تک دوسرے ریفرنڈم کا تعلق ہے جس کے تحت اگر کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیتے ہیں تو انہیں یہ انتخاب کرنے کا حق حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد۔ یہ ایک خوش آئند حکمت عملی ہے کیونکہ اکیسویں صدی میں اس حقیقت کو تمام قوموں نے تسلیم کیا ہے کہ جن قوموں کی ہزار سالہ تاریخ ہو، تہذیب و تمدن ہو تو انہیں اپنی زبان اور جغرافیہ کے ساتھ ایک آزاد قوم کے طور پر رہنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257میں کہا گیا ہے کہ جب بھی جموں و کشمیر کا علاقہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے گا تو اس کے مستقبل کا فیصلہ جموں و کشمیر کی عوام کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔ اس لحاظ سے عمران خان کا یہ فیصلہ خوش آئند اور دور اندیشی پر مبنی ہے جس کے تحت کشمیر کے عوام اگر پاکستان سے الحاق کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں حق خود مختاری اور حق آزادی حاصل ہوگا جس سے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

ضروری ہے کہ عمران خان کے اس د ہرے ریفرنڈم کے منصوبے پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں خور و غوض کیا جائے اور کوئی ایسا منصوبہ بنایا جائے جس سے نہ صرف کشمیری عوام اپنی 74سالہ اذیتوں سے نجات حاصل کریں بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے ڈیڑھ ارب عوام بھی نفرتوں کی دلدل سے نکل کر امن، آشتی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)