بڑی عید کے لئے چھوٹی سی ایک بات

July 29, 2021

ہمارا کوئی بھی تہوار ہو، وہ ہماری مذہبی عقیدتوں، تہذیبی شعور اور سماجی روایات کے خلوص کا آئینہ دار ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے رویے بھی سامنے آتے ہیں جو اُس تہوار کی روح کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ بکرا عید ہی کو لے لیجئے، یہ تہوار اپنے اندر ایک نہایت شاندار درس لئے ہوئے ہے۔ درس یہ ہے کہ آپ دوسروں کے لئے اپنے اندر قربانی اور ایثار کا احساس پیدا کریں۔ اپنی انا اور غرض کو قربان کر دیں۔ ایسا ہوتا بھی ہے۔ معاشرے کے بہت سے لوگ اس تہوار کی غرض و غایت کی تہہ تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے اپنے رویے بدلے ہیں، وہ اپنے سے کم تر لوگوں کی طرف نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ ان کی ضرورتوں کا احساس بھی کرنے لگے ہیں۔ دینے دلانے میں اخلاص آ گیا ہے لیکن ہمارے اردگرد رہنے والے بہت سے لوگوں کو ابھی قربانی کی غرض و غایت کے علاوہ بھی بہت کچھ سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ عید الاضحی کو ہم میں سے بہت سے لوگوں نے دکھاوا بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قربانی کی استطاعت نہ رکھتے ہوئے بھی صرف یہ سوچ کر جانور خریدنے چل پڑتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ان کے مذہبی اخلاص پر ہرگز شک نہیں کیا جا سکتا لیکن کیا کیا جائے کہ وہ اپنے اردگرد رہنے والے صاحبان ثروت کی نقالی کرتے ہیں۔ چادر سے باہر پائوں پھیلاتے ہیں اور پھر اپنے تئیں خود کو غریب تر محسوس کرتے ہیں۔

پچھلے کچھ برسوں میں ہمارے ہاں قربانی بھی ایک دکھاوا بن کر رہ گئی ہے۔ لوگ بڑے بڑے مہنگے جانور، اپنی امارت اور شان دکھانے کے لئے خریدتے ہیں۔ انہیں گلی محلے میں گھماتے پھرتے ہیں۔ ذوالحج کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے مسلمان بھائی یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ کسی کی راہ سے ایک معمولی سا پتھر ہٹا دینا بھی صدقہ جاریہ ہے کیونکہ معمولی سا پتھر، بہت سے راہ گیروں کا سفر آسان بنا دیتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں بڑی عید کے دنوں میں مہنگے جانور خریدنے والے لوگ اپنے جانور، اپنے گھروں کے باہر گلیوں اور بازاروں میں باندھ دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کرتے بلکہ اس کے گرد باڑ بھی لگا دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آنے جانے والوں کو راستہ بدل کر گزرنا پڑتا ہے۔ بائیک اور موٹر کار والوں کو زیادہ اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ راستہ بند کر کے وہ ایک عجیب سی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارا مذہب تو یہ کہتا ہے کہ دوسروں کو چلنے پھرنے میں آسانی دیں۔ چلیے مذہب کو ہم ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات اور تہذیب کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم دوسروں کے لئے مشکلات کا باعث نہ بنیں۔ اس برس تو ایک نئی بات سامنے آئی ہے جن لوگوں نے اونٹ اور بیل قربانی کے لئے خریدے، ان میں سے بیشتر نے اپنے گھروں کے سامنے مٹی یا ریت کی ایک ٹرالی بھی ڈلوا لی تاکہ جانور کو بیٹھنے اور کھڑے ہونے میں آسانی ہو۔ چلیے! مان لیا کہ یہ عمل جانور کے حق میں بہتر ہے۔ قربانی کے جانور کی ضروریات کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا بھی قربانی کے عمل کا حصہ ہے۔ اب یہ کون کہہ سکتا ہے کہ گلی میں ڈالی گئی مٹی یا ریت کوئی اٹھوائے گا بھی یا نہیں؟ ہمارا یہ انسانی اور اخلاقی فرض بنتا ہے کہ قربانی کے بعد یہ مٹی یا ریت فوراً اٹھوائیں تاکہ ہم دوسروں کے لئے ایک عمدہ مثال بن جائیں۔ میں گلی محلوں میں پڑی آلائشوں کی بات نہیں کروں گا کیونکہ اس ضمن میں ہماری مقامی حکومتیں اب خاصی فکرمند رہتی ہیں۔ آلائشیں اٹھوانے کے لئے تیز ترین آپریشن کیا جاتا ہے۔ آلائشوں کے لئے لوگوں کو بڑے پلاسٹک بیگ مفت دیئے جاتے ہیں۔

دنیا کے دوسرے مسلمان ممالک میں بھی عید الاضحی کے موقع پر قربانی کی جاتی ہے لیکن جو رویے ہمارے ہاں دکھائی دیتے ہیں، وہ وہاں کبھی پنپ ہی نہیں سکتے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہاں کے حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریاں پہچانتے ہیں۔ وہ اپنے قوانین پر عملدرآمد کرانا جانتے ہیں۔ دوسری یہ ہے کہ وہاں کے لوگ خود بھی باشعور ہیں۔ وہ انسانی آزادی کا ادراک رکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرتے ہیں تو دوسروں کی آزادی کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ سادہ سا اصول ہے کہ اگر ہم دوسروں کی آزادی کا خیال رکھیں گے تو ہماری آزادی بھی خودبخود ہماری جھولی میں آن گرے گی۔ جب ہم اپنے گھر کے سامنے قربانی کا جانور باندھ کر آنے جانے والوں کا راستہ روکتے ہیں تو دراصل دوسرے کو بھی یہ حق دے دیتے ہیں کہ وہ ہمارا راستہ روک سکتا ہے۔ یہ بات ہی معاشرتی انصاف اور انسانی اخلاق کی بنیاد ہے۔ اگر ہم خود کو بدلیں گے تو ہمارا معاشرہ بدلے گا ورنہ ہم اسی طرح گلے شکوے کرتے رہیں گے اور کڑھتے رہیں گے۔

آخر میں آج کی غزل ملاحظہ کیجئے ؎

ہم اہلِ درد کو پابندِ التجا نہ کرو

جو ناخدا بھی نہیں ہیں، انہیں خدا نہ کرو

جو رَہ زُلفوں سے مراسم پہ ناز کرتا ہے

اُس آدمی کو تو سالارِ قافلہ نہ کرو

ہماری پیاس ہمارے ہی پاس رہنے دو

کرم کرو ہمیں محرومِ کربلا نہ کرو

جنون، اہلِ جنوں ہی کو زیب دیتا ہے

زمانے والو! ہمیں دیکھ کر ہنسا نہ کرو

تمہیں ملا ہے جو کردار، وہ نبھاتے رہو

پہاڑ ہو تو ہمیں راستہ دیا نہ کرو

تمام شہر کو ہم پیچھے چھوڑ سکتے ہیں

ہمارے ساتھ اگر تم مقابلہ نہ کرو

تمہارے سینے میں پتھر کا دل سہی ناصرؔ

یہ بزمِ یار ہے، باتیں تو شاعرانہ کرو