طالبان، پاکستان اور ایردوان

July 29, 2021

جب سے صدر ایردوان نے افغانستان میں کابل کے بین الاقوامی حامد کرزئی ہوائی اڈے کی سیکورٹی کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہونے کا اعلان کیا ہے، اس وقت سے پاکستان اور افغانستان میں ترک صدر ایردوان کے خلاف ’’ترک صدر نے طالبان کے خلاف کارروائی کی تو وہ ہمارے دلوں سے اتر جائیں گے‘‘کے زیر عنوان مہم چلائی جارہی ہے۔ اس قسم کی مہم شروع کرنے والوں سے پوچھاجائےکہ کیا صدر ایردوان نے ایسا کوئی بیان جاری کیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ ترکی طالبان کے خلاف کارروائی کرنے جا رہا ہے؟ ہر گز نہیں۔ ترکی گزشتہ بیس سال سے افغانیوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ نیٹو کے رکن ممالک میں سے اگر کسی ملک کے فوجیوں کی آئو بھگت اور قدرو منزلت کی جاتی ہے تو وہ بلا شبہ ترک فوجی ہیں۔ ترک فوجی افغانستان میں جہاں کہیں بھی جاتے ہیں لوگ ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ ترک فوجیوں نے کبھی افغانستان میں کسی فوجی کارروائی میں حصہ نہیں لیا بلکہ یہ تمام فوجی افغانستان کی تعمیر نو میں اپنا بھر پور کردا ر ادا کررہے ہیںاور گزشتہ بیس سال سے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی سیکورٹی کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔صد ر ایردوان کے خلاف یہ مہم دراصل بڑے خفیہ طریقے سے بھارت نے چند ایک پاکستانی اور افغانی شہریوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے شروع کی ہے۔ بھارت طویل عرصے سے صدر ایردوان اور ترکی سے ادھار کھائے بیٹھا ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا میں صرف ایک لیڈر ہی ایسا ہے جسے وہ مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے سے نہیں روک سکا۔

افغانستان کی حالیہ صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان بھارت ہی کو پہنچا ہے کیونکہ اس نے بڑے پیمانے پر افغانستان پر اپنی گرفت قائم کرنے کے لئے بڑے بڑے منصوبے شروع کررکھے تھے اور بڑی تعداد میں کئی ایک شہروں میں اپنے قونصل خانوں کو پاکستان کی جاسوسی کرنے کے لئے قائم کیا تھا اب ان سے یہ مقصد حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ اب ان تمام بھارتیوں کو اپنی زندگیوں کے لالے پڑگئے ہیں جو طویل عرصے سےصدر اشرف غنی اور سابق صدر حامد کرزئی کی آشیرباد حاصل کیے ہوئے ہر طرف دندناتے پھر رہے تھے۔اب حالات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں ، نیٹو کے رکن ممالک کے تمام فوجی افغانستان سے جا چکے ہیں ۔ البتہ ترک فوجی جن کی تعداد 500 کے لگ بھگ ہے گزشتہ بیس سال سے کابل کے بین الاقوامی ائیر پورٹ کی نگرانی کے فرائض ادا کرتے چلے آرہے ہیں، موجود ہیں ۔ ترکی نے اس سلسلے میں ایک بار پھر کابل کے ہوائی اڈےکی سیکورٹی خدمات کو آئندہ بھی جاری رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں برق رفتاری سے طالبان کا قبضہ ہونے کے باوجودترکی نے اس ذمہ داری کو اپنے لئے ایک اعزاز سمجھا اور اس سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ دیاہے۔ ترک صدر ایردوان نے اپنے حالیہ دورہ شمالی قبرص ترک جمہوریہ کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان کو ترکی کے ساتھ ایسے ہی خوشدلی سے مذاکرات کرنے چاہئیں جیسے وہ روس، چین اور امریکہ کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں۔

صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ایک طرف ہمارے طالبان سے بڑے اچھے اور خوشگوار تعلقات ہیں اور دوسری طرف افغان حکومت بھی ہم پر مکمل طور پر اعتماد کرتی ہے۔ ترکی عالمِ اسلام کا واحد ملک ہے جو نیٹو میں شامل رہتے ہوئے بھی افغان عوام کے دل جیتنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترک صدر ایردوان نے واضح طور پر کہا کہ ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے کئی ایک متبادل آپشنزپر غور کررہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ جلد ہی ان کے ساتھ ہمارے معاملات طے پا جائیں گے۔ انہوں نےبرملا کہا کہ ترکی نے کابل کے ہوائی اڈے کی سیکورٹی کے فرائض ادا کرنے کے لئے امریکہ کو چند شرائط پیش کی ہیں اور اگر اِن کو پورا کرلیا گیا تو پھر وہ کابل ایئرپورٹ کا انتظام حاصل کرنے پر غور کرسکتے ہیں۔انہیں ہر صورت میں لاجسٹک امداد ، سفارتی حمایت اور مالی امداد کی ضرورت ہے۔ ترکی امریکہ سے اپنی شرائط منوانے کے بعد طالبان کو رام کرنے میں کامیاب ہوتا بھی دکھائی دیتا ہے اور اس کا پہلا اشارہ اس وقت ملا جب ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ انہیں قوی امید ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ضرور کامیاب ہوں گے اورسب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ صدر ایردوان کبھی ہوا میں تیر نہیں چلاتے۔

صدر ایردوان نے طالبان کو براہ راست پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہمارے اور طالبان کے درمیان مذہب اور اعتقاد کے لحاظ سےکسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ہم طالبان کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں‘‘ ۔ طالبان کے رہنما اور ترجمان ذبیح ﷲ مجاہد نےٹی آر ٹی عربی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں ۔ ترکی ہمارا برادر ملک ہے۔ مذہبی اور اعتقاد کے لحاظ سے ہمارے اور ترکوں کے درمیان کئی ایک مشترکہ نکات موجود ہیں ۔ ترکی کو اپنے ماضی کو ایک طرف چھوڑ کر موجودہ دور اور مستقبل کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ہم جلد ہی ترکی کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی امید رکھتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)