کیا کشمیری ساری عمر لڑتے رہیں گے؟

July 29, 2021

ہالینڈ کے ایک روزنامے نے جموں و کشمیر کے پس منظر اور پیش منظر کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اداریے میں لکھا ہے، ’’ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تمام تر تنازعات کے حل کیلئے یہ ایک مثالی وقت ہے اور مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کیلئے خلوص، لچک اور حقیقت کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔ کشمیر کے دیرینہ تنازع کا حل اس وقت تلاش کیا جا سکتا ہے جب تمام فریق مخلص ہوں اور مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہو یا حل کیا جائے، کوئی بھی سیاسی تنازع طاقت کے بل بوتے پر حل نہیں کیا جا سکتا، اعتماد کی بحالی کے اقدامات جامع مذاکرات کا نعم البدل نہیں ہو سکتے‘‘۔ آگے چل کر اخبار لکھتا ہے’’ یہ کہنا غلط ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے طویل مدت درکار ہے اگر دونوں فریق سنجیدگی سے کام لیں تو مسئلہ کشمیر توقعات سے قبل بھی حل ہو سکتا ہے‘‘۔ آخرمیں اخبار نے سوال کیا ہے، کیا کشمیری ساری عمر لڑتے ہی رہیں گے؟

سوال یہ ہے کہ کشمیری کس کیلئے لڑ رہے ہیں، بھارت کیلئے؟ پاکستان کیلئے؟ یا آزادی کیلئے؟ اگر ان کی یہ جنگ آزادی کیلئے ہے تو سب سے پہلے انہیں اپنی آزادی کی وضاحت اور تشریح واضح طور پر کرنا پڑے گی ۔اگر یہ لوگ مذہبی نقطہ نظر سے لڑ رہے ہیں تو قرآن میں آزادی نام کا کوئی لفظ موجود نہیں، ایک لفظ ’’حریت‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی آزادی ہرگز نہیں، آزادی ایک ایسی اصطلاح ہے جو مختلف اوقات میں ایک ہی قوم کیلئے مختلف معنی رکھتی ہے۔ میرے حساب سے آزادی ایک ایسی حقیقت ہے جو اکثرو بیشتر اپنا رنگ و روپ اور خاصیت بدلتی رہتی ہے ۔تقسیمِ ہند سے پہلے ہندوستان کے مسلمان آزادی یعنی ایک الگ آزاد وطن چاہتے تھے، اب جو وہاں پیچھے رہ گئے ان کیلئے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے آزادی کا مفہوم اب یہی ہے کہ وہ محب وطن بھارتی بن کر رہیں۔ اسی طرح مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے نزدیک 1947 میں آزادی کا مطلب قیام پاکستان اور 1971میں بنگلہ دیش کا قیام تھا ۔موجودہ اقتصادی اور معاشی بدحالی کے دور میں دنیا بھر اور بالخصوص تھرڈ ورلڈ کے اربوں افراد کے نزدیک آزادی کا مطلب دولت مند اور خوشحال ملکوں کی طرف کوچ کر جانا ہے۔ کشمیری پنڈتوں، قوم پرست مسلمانوں، سیکولر ترقی پسند و جمہوریت نواز انسانوں اور جموں، لداخ کے کشمیریوں کی نظر میں آزادی ہندوستانی یا بھارتی کہلانے میں ہے۔ وادی کی ایک بڑی اکثریت کے خیال میں آزادی بھارتی آئین و قانون کی عدم عدولی ہے۔ اسی طرح مسلمان اور ہندو راجوں مہاراجوں کے زیر قبضہ ریاستوں کے عوام برطانوی راج کی حکمرانی کو اپنی آزادی سمجھتے تھے۔ آئے دن ان کی طرف سے دستخط شدہ فریادیں اور اپیلیں دہلی میں موجود وائسرائے کو ارسال کی جاتی تھیں جن میں انہیں اپنے حکمرانوں سے نجات دلانے کیلئے فوری مدد کی اپیل کی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بنیادی سوال ابھی تک معمہ بنا ہوا ہے۔ میری رائے میں جس طرح کشمیریوں کا مسئلہ آزادی ہے اسی طرح پاکستان کا بھی اہم مسئلہ آزادی ہی ہے اور ہم اپنی آزادی کو قربان کرنے کے درپے ہیں۔ اپنے امریکی اور مغربی آقائوں کے سامنے جس طرح سرتسلیم ِخم کرنے کا سلسلہ ہم نے شروع کر رکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ ہم اپنی آزادی اور خود مختاری کو دائو پر لگا رہے ہیں یعنی ہمارا بھی سب سے بڑا مسئلہ ان دنوں آزادی ہے ۔ جہاں تک پاکستان و کشمیر کا تعلق ہے توپرویز مشرف اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان میں اقتدار میں صرف وہی شخص طویل عرصہ تک رہ سکتا ہے جو بار بار وقفے وقفے سے کشمیر کے حصول کی خوش خبری دے سکتا ہو، اگر کسی بھی حکومت نے گاہے گاہے کشمیر کشمیر کی رٹ نہ لگائی اور یہ کہا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو اس حکومت کی اپنی شہ رگ کٹ سکتی ہے۔ پاکستان کشمیر کو اپنا جزلاینفک کیوں سمجھتا ہے اس کی پہلی اور بنیادی وجہ کشمیریوں کا مسلمان ہونا ہے۔ پاکستان چناب فارمولا کے ساتھ ساتھ وادی کی بات بھی کرتا ہے جسے وہ شاید تقسیمِ ہند کا نامکمل ایجنڈا تصور کرتا ہے یعنی وہ 74میل لمبی اور 26میل چوڑی سری نگر وادی کی بات کر رہا ہے، کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ وہاں کی آبادی میں دوسرے مذاہب کی نسبت اسلام کے ماننے والے زیادہ ہیں لیکن میں آپ کو بھارت میں پانچ اضلاع بتا سکتا ہوں جہاں 80فیصد سے زائد شہری مسلمان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت ان اضلاع اور وہاں بسنے والے اسلام کے پیروکاروں کے ساتھ کیا کرے؟ کیا ریل کے ڈبوں میں بھر کے پاکستان بھیج دے؟ کیا ملک عزیزان مسلمانوں کی آمد کا متحمل ہو سکتا ہے؟ میرے حساب سے ہالینڈ کی حکومت کا دونوں ملکوں کے اِس تنازع اور کشمیر کا حل تلاش کرنا ایک نیک شگون ہے، ان کا حالیہ تین نکاتی حل جس پر بھارت بھی بات چیت کرنے کیلئے تیار ہے دونوں ملکوں کے درمیان روشنی کی ایک نئی کرن بن کر نمودار ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کو سچ بولنے پر داد ملنی چاہئے تھی کیونکہ اس سے قبل کسی سربراہ مملکت کو اِتنا سچ بولنے کی توفیق نہیں ہوئی سوائے میاں نواز شریف کے۔ نواز شریف اس سے زیادہ کچھ کر نہیں سکتے تھے (جو انہوں نے کشمیر سے متعلق کیا ہے) اور نہ ہی اس سے زیادہ کچھ ہو سکتا تھا جواب ہوا ہے۔