دکھوں کا مداوا

July 30, 2021

ہم پر عجب وقت آن پڑا ہے کہ قوم سے زیادہ اُس کی قیادت انتشار اور بےسمتی کا نہایت شرمناک نمونہ پیش کر رہی ہے اور عظیم لوگ ہمارے درمیان سے اُٹھتے جا رہے ہیں۔ غالبؔ نے اپنے بھتیجے زین عارف کے انتقال پر مرثیہ لکھا تھا جس کا ایک شعر یوں ہے ؎

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہمارے دوست شعیب بن عزیز کے دل پر بھی کچھ ایسی ہی کیفیت گزری ہو گی جب اُن کا چھوٹا بھائی نعمان بن عزیز ہنستا کھیلتا اور میٹھے بول بولتا موت کی وادی میں اتر گیا۔ انتہائی مؤدب، عبادت گزار اور خلقِ خدا کے کام آنے والا۔ شعیب بن عزیز جب‘ حکومتِ پنجاب میں اطلاعات و ثقافت کے سیکرٹری اور وَزیرِاعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے بڑے قریب تھے، تو اُنہوں نے صحافیوں کی بڑی خدمت کی۔ اُن میں سے جو بھی دل یا سرطان کے مرض میں مبتلا ہوتا، تو اُن کی سفارش پر حکومت اُس کے اخراجات برداشت کرتی۔ اُنہیں کیا خبر تھی کہ اُن کا چھوٹا بھائی سرطان کے مرض کا شکار ہو گا اور اُسے موت کے منہ میں جانے سے بچایا نہ جا سکے گا۔

اِنہی دنوں ہمارے محترم دوست جناب حافظ محمد اِدریس بھی شدید صدمے سے دوچار ہوئے۔ اُن کی پوری زندگی اسلام کی دعوت پہنچانے اور اِس کی تعلیمات پر عمل کرتے گزری ہے۔ اُن کے صاحبزادے حافظ ہارون جو لائبریری سائنسز میں جرمنی سے پی ایچ ڈی کر کے آئے تھے اور سرگودھا یونیورسٹی میں پروفیسر تھے، وہ بھی جوانی ہی میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اِس جانکاہ صدمے کے باوجود حافظ ادریس صاحب صبروشکر کی تصویر بنے رہے۔ اِن چل چلاؤ کی خبروں کے دوران مجھے بےاختیار ایس ایم حسن الزماں یاد آ رہے ہیں جو تحقیق و تفتیش میں نام پیدا کر کے دارِفانی سے حال ہی میں کوچ کر گئے ہیں۔ وہ عالمِ اسلام کے عظیم المرتبت مفکر مولانا ظفر احمد انصاری کے سب سے بڑے داماد تھے۔ اُنہوں نے اسلامی اقتصادیات پر گرانقدر کام کیا۔ اُنہوں نے اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی ایڈنبرا سے پی ایچ ڈی کی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ڈائریکٹر رِیسرچ کے منصب پر فائز رہے۔ اُن سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ اُن میں شگفتگی اور متانت کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔

پاکستان کی ایک اور باکمال اور ممتاز شخصیت سابق صدرِپاکستان جناب ممنون حسین بھی اِنہی دنوں خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ اُن کا سنِ پیدائش ۱۹۴۰ء ہے جب حضرت قائدِاعظم کی صدارت میں لاہور کے منٹوپارک میں پورے ہندوستان سے آئے ہوئے ایک لاکھ مندوبین نے قراردادِ لاہور منظور کی تھی۔ اِس مناسبت سے وہ زندگی بھر پاکستان کی محبت سے سرشار اور امانت و صداقت کے اصولوں پر کاربند رہے۔ اُنہوں نے ایک معمولی کاروبار سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور اپنی محنت شاقہ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے صدرِمملکت کے اعلیٰ ترین منصب تک جا پہنچے۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی مشکل کے وقت دوستوں کے ساتھ کھڑا رہنا تھا۔ اِسی پت جھڑ میں ہمارے عزیز دوست عارف نظامی بھی دارِبقا کی طرف سدھار گئے ہیں۔ وہ پاکستان کے مایہ ناز صحافی حمید نظامی کے صاحبزادے تھے جن کو قراردادِ لاہور کی منظوری کے دن نوائےوقت کے اجرا کا اعزاز حاصل ہے۔ قائداعظم اُنہیں بہت عزیز رکھتے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اُنہوں نے جمہوریت اور سول بالادستی کی جدوجہد میں ہراول دستے کا کام کیا۔ 1962ء کے دستور کا خاکہ فروری میں سامنے آیا، تو اُنہیں بہت اذیت پہنچی اور اِسی شدید غم کی حالت میں اُنہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ تقریباً 47 سال کی عمر میں دنیائےفانی سے کوچ کر گئے۔

اُن کے انتقال کے وقت عزیزم عارف نظامی کی عمر بمشکل چودہ سال تھی۔ اُن کی تعلیم یافتہ والدہ محمودہ بیگم نے اُن کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور اُن کے چچا جناب مجید نظامی نے عملی زندگی میں اُن کی راہنمائی کی۔ اُنہوں نے روزنامہ نوائےوقت میں بڑی فرض شناسی سے کام کیا اور روزنامہ دی نیشن کے اجرا میں کلیدی کردار اَدا کیا۔ بدقسمتی سے ایک مرحلہ ایسا آیا کہ وہ نوائےوقت اور نیشن سے بےدخل کر دیے گئے۔ اُس نازک وقت میں جناب میر شکیل الرحمٰن نے اُن سے فراخ دلانہ تعاون کیا۔ وہ تقریباً ایک سال تک روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے اور پاکستان ٹوڈے نکالنے کی تیاریاں کرتے رہے۔ باشعور طبقے اُن کا فکرانگیز اور متوازن ٹی وی پروگرام بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ چند ماہ پہلے اُنہیں گردے کی تکلیف ہوئی، مگر وہ آخری دم تک نہایت باوقار اَنداز میں حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ اُن کی روح 21جولائی 2021 ءکے دن قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اُن کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ شاید ہی پورا ہو سکے۔ بےباک، حلیم الطبع اور پروفیشنل ایڈیٹر ایک دن میں تیار نہیں ہوتے۔ اِن تمام رفتگان کے اللہ تعالیٰ درجے بلند فرمائے۔

قوم اِن پےدرپے صدمات سے گزر رہی تھی کہ ناگہاں ایک سابق سفیر کی بیٹی نورمقدم کے وحشیانہ قتل کی ہولناک تفصیلات سے میرا پورا وجود کانپ اُٹھا۔ سفاک مردوں کے ہاتھوں خواتین وحشیانہ انداز میں قتل کی جا رہی ہیں اور ہماری رِیاست بالکل بےبس ہے۔ تاریکی روشنی پر غالب آتی جا رہی ہے اور قاتل خون بہا ادا کر کے سزا سے بچ جاتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کا اسلامی تشخص خطرے میں پڑ گیا ہے اور پورے کرمنل جسٹس سسٹم پر سنگین سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ اِسی طرح آزاد جموںوکشمیر کے حالیہ انتخابات میں جس بےدردی سے انسانی شرافت، سیاسی کلچر اور شفافیت کامذاق بنا اورکشمیر کے حوالے سے دوہرے ریفرنڈم کا جو شوشہ چھوڑا گیا ہے، اُس نے قوم کے اندر شدید اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ معاشرے کے باشعور لوگوں پر ذمےداری عائد ہوتی ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور عوام کے دُکھوں کا مداوا تلاش کریں۔ عظیم لوگوں کے اٹھ جانے سے جو خلا پیدا ہو رہا ہے، اُسے پورا کرنے کے لیے ہمارے کالجوں، یونیورسٹیوں اور تربیت کے دوسرے اداروں کو ایک جامع لائحہ عمل تیار کرنا اور خواتین پر ہونے والے مظالم کے آگے چٹان کی طرح کھڑا ہونا ہو گا۔ اِسی طرح کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے جارحانہ سفارت کاری کرنا ہو گی۔ ہم اگر ناکام رہے، تو فطرت معاشرے کی تطہیر کے لیے ضرور حرکت میں آئے گی۔