سیاست بدل رہی ہے

July 30, 2021

تحریک انصاف نے آزاد کشمیر کے بعد سیالکوٹ کا معرکہ بھی سر کر لیا ہے مگر پی ٹی آئی کے ترجمانوں کو کون سمجھائے کہ جب ن لیگ الیکٹرانک میڈیا پر ضمنی الیکشنز کی گردان کرتی ہے تو بڑاسادہ سا جواب دیا جاسکتا ہے کہ آپ کون سے ضمنی انتخاب جیتنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ڈسکہ کی سیٹ آپ کی تھی البتہ وہاں تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا، وزیرآباد ضمنی انتخاب کی بات کریں یا خوشاب الیکشن کی تو یہ دونوں سیٹیں ن لیگ کی تھیں ان دونوں جگہوں پر بھی پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا۔ اپنی ہی سیٹوں پر کامیابی کو ن لیگ کس طرح فتح قرار دیتی ہے اور کس طرح تحریک انصاف کے بڑھتے ہوئے ووٹوں کو شکست کا نام دیتی ہے؟ رہی بات دھاندلی کی تو اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ 2018ء کے الیکشن میں خواجہ آصف کو قومی اسمبلی کی سیٹ کیسے ملی تھی۔ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں شکست کے بعد ن لیگ کے سامنے کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا ن لیگ کی قیادت کا کام ہے، میڈیا کب تک ن لیگ کی خامیوں کی پردہ پوشی کرے گا۔ آزاد کشمیر میں چند لوگوں کے پیچھے لگ کر مسلم کانفرنس کی کوکھ سے ن لیگ نکالنا دانشمندانہ فیصلہ نہیں تھا، اسی لئے مسلم لیگ کے اکابرین نے اس کی مخالفت کی تھی، حالیہ دنوں میں ن لیگ کی مشکلات اس وقت سامنے آئیں جب اسے آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑی مشکل یہ ہے کہ ن لیگ گوجرانوالہ اور لاہور ڈویژن سے کشمیری مہاجرین کی تمام سیٹیں بھی ہار گئی۔ رہی سہی کسر سیالکوٹ نے پوری کردی۔ ن لیگی قیادت کا خیال تھا کہ وہ کہیں اور سے تو ہار سکتی ہے مگر سیالکوٹ سے اسے شکست نہیں ہوسکتی۔ ن لیگ کے اس خواب کو چکنا چور کرنے میں عثمان ڈار اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھرپور کردار ادا کیا، پی ٹی آئی کی سیاست اور پالیسیوں کا دخل ضرور ہوگا مگر ایک کردار جمشید اقبال چیمہ کا بھی ہے، انہوں نے عمران خان کی قیادت میں ایسی کسان دوست پالیسیاں متعارف کروائیں کہ دیہات کے لوگ خوش ہیںاور ان لوگوں نے اپنی خوشی کا اظہار ووٹ کے ذریعے کیا۔ ن لیگ ہمیشہ سینٹرل پنجاب میں مضبوط رہی ہے جو جونیجو کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی کوکھ سے نکالی گئی۔ 1990ء میں تمام تر حربوں کے باوجود بے نظیر بھٹو قومی اسمبلی میں اکثریت لے گئیں تو تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے لئے اس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف، جو الیکشن بھی لڑ رہے تھے، نے لسانی تعصب کی بنیاد پر نعرہ لگایا، اشتہارات شائع کروائے، ’’. . . . جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ . . . .‘‘ ایک تعصب جگا کر نواز شریف صوبائی الیکشن جیت گئے۔ 1990ء میں آئی جے آئی کےٹکٹ پر پوری مسلم لیگ نے الیکشن لڑا۔ آئی جے آئی بنانے والوں کا خیال تھا کہ اگلا وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کو بنا کر نواز شریف کو پھر سے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا اس مقصد کے لئے جتوئی کو نارووال سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوایا گیا، نواز شریف کوبھی صوبائی اسمبلی کا الیکشن نارووال ہی سے لڑوایا گیا۔ ان دنوں نارووال ضلع سیالکوٹ کاحصہ تھا، ان دونوں کو جتوانے کی ذمہ داری اختر وریو کو سونپی گئی۔ اس دوران ایک رات لاہور میں ایک سیاستدان کے گھر پر کھانا تھا، یہاں اختر وریو اور جتوئی میں یہ ساز باز ہوئی کہ وزیراعظم جتوئی ہوں گے اور پنجاب کا وزیر اعلیٰ اختر وریو کو بنایا جائے گا، ضیاء الحق کے متعارف کروائے گئے ایک صوبائی وزیر، جو گجرات کے چودھریوں کے بھی بہت قریب تھے، نے یہ ریکارڈنگ نواز شریف تک پہنچائی۔ اس سازش کے توڑ کے لئے نواز شریف نے اپنے کرم فرمائوں سے مدد لی۔ انہوں نے نہ صرف جتوئی کا راستہ روکا بلکہ اختر وریو کی خواہش پر بھی پانی پھیر دیا۔ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے اور انہوں نے غلام حیدر وائیں کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا۔ یہیں سے نواز شریف اور اختر وریو میں دوریاں پیدا ہوئیں۔ اختر وریو (جنہیں علاقے کے لوگ اختر جگا کہتے تھے) نے حامد ناصر چٹھہ کی قیادت میں جونیجو لیگ میں پناہ لی مگر یہ خاندان سیاسی طور پر مضبوط تھا۔93ء میں نواز شریف کے خلاف الیکشن لڑ کر یہ خاندان بے نظیر بھٹو کے ساتھ اتحادی حکومت میں شامل ہوگیا، آپ کو یاد ہوگا کہ پہلے منظوروٹو اور پھر عارف نکئی وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تھے، وریو خاندان اس حکومت میں بہت اہم تھا۔ یہ خاندان 1963ء میں بورے والا سے سیالکوٹ آگیا۔ ضلع سیالکوٹ میں اس خاندان کی سیاسی قسمت جگانے میں انور عزیز چوہدری نے پورا کرتب دکھایا۔

یہ کیا بیانیہ ہوا کہ جیت جائو تو الیکشن اور اگر ہار جائو تو سلیکشن۔ ن لیگ ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہے بقول سرور ارمان ؎

یہ تحریریں یہ تصویریں یہ سب قصے یہ سب چہرے

مرے گزرے ہوئے ایام کی پہچان تھے لیکن