افغان وفد سے وزیراعظم کی گفتگو

July 31, 2021

بھارت اپنے مذموم عزائم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے خود ساختہ رپورٹیں گھڑ کے پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے جو دن رات مصروف ہے اس حوالے سے چند ماہ قبل یورپی یونین میں جعلی خبروں پر کام کرنے والے ادارے ’’ای یو ڈس انفو لیب‘‘ کی دو سالہ تحقیقی رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں اس کے اپنے ہائبرڈ وار فیئر انٹرنیٹ ورک کے چشم کشا انکشافات تھے۔ ان میں سے ایک یہ کہ بھارت 116ممالک میں 750سے زائد جعلی خبروں کی ویب سائٹس اور 10این جی اوز کی خدمات بروئے کار لاتے ہوئے 15برس سے منفی پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان کو بدنام کر رہا ہے جبکہ ایسی ہی سازشوں کا ایک بھانڈا گزشتہ دنوں مودی حکومت کے وزیر خارجہ نے یہ کہتے ہوئے پھوڑا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالنے میں ہمارا کردار ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کی صراحت ضروری نہیں بلکہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود اور حکومت پاکستان ان تمام ہتھکنڈوں سے واقف ہے جن پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزارتِ خارجہ کے حکام مختلف مواقع پر رد عمل دے چکے ہیں۔ جمعرات کے روز وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں افغان صحافیوں کے وفد سے مختلف امور پر کھل کر بات کی۔ کابل حکومت کے اِس الزام کے بارے میں کہ پاکستان کو ادارے کنٹرول کرتے ہیں اس حوالے سے وزیراعظم نے وفد پر واضح کردیا کہ یہ سراسر بھارت کا پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ایک گروہ کی اجارہ داری ممکن نہیں اور اگر ایسا ہوا تو نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حالیہ بیانات میں افغان رہنماؤں نے پاکستان کو اپنے بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا جو انتہائی افسوس کی بات ہے کیونکہ پاکستان نے ہی امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے طالبان کو قائل کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں رہا ہے لیکن بھارت ایسا نہیں چاہتا کیونکہ وہ آر ایس ایس نظریہ کے زیرِ تسلط ہے۔ گاؤ ماتا کے پیروکار مسلمانوں کو گلیوں میں مار رہے ہیں اور ان پر کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاک فوج نے بھارت کے ساتھ امن سے متعلق میرے تمام اقدامات کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور اس کے پس پردہ حقائق پر بھی روشنی ڈالی جس کی تفصیلات وزیر داخلہ شیخ رشید احمد میڈیا کے سامنے لا چکے ہیں، وزیراعظم کے بقول افغان سفیر کے واپس چلے جانے کے باعث ہمارے پاس تصدیق کیلئے کوئی راستہ نہیں البتہ افغانستان سے آنے والی ٹیم کو تمام معلومات فراہم کر دی جائیں گی۔ وزیراعظم عمران خان کی وفدکے ساتھ ہونے والی گفتگو کے حوالے سےیہ واضح ہو جانا چاہئے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو اپنا برادر اسلامی ملک سمجھا اور یہ صدیوں پرانی حقیقت ہے کہ اس سر زمین پر بسنے والے لوگ مذہب، ثقافت، تہذیب و تمدن کی مشترکہ اقدارکی بنیاد پر ہمیشہ آپس میں ملتے جلتے اور ہر خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ آپس کی رشتہ داریوں، تجارت ، آزادانہ نقل و حرکت سے قیام پاکستان کے بعد بھی دونوں ملکوں کے درمیان برائے نام سرحد قائم رہی۔ قریب ہوتے بھی جو فاصلے دکھائی دیتے ہیں یہ اس مشترکہ دشمن کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے جو اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں کسی بھی حد تک جانے کےعزائم رکھتا ہے۔ تمام افغان گروپوں کو صورتحال کی نزاکت کو سمجھنا چاہئے ۔ وزیراعظم عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ افغان مسئلے کا حل اس سرزمین سے باہر نہیں بلکہ اندر ہی موجود ہے جس طرح افغان خانہ جنگی کے اثرات خطے پر پڑیں گے، اسی طرح پُرامن افغانستان پُرامن خطے کا ضامن ثابت ہوگا۔