دال روٹی سے گریٹ گیمز تک

July 31, 2021

کورونا کی عالمی وبا دنیا کی اقتصادی تباہی کے لئے پورے عالمی معاشرے کو ایک بڑا انتباہ ہے، اس سے ہونے والی عالمی اقتصادی تباہی مکمل واضح ہے۔ چند ہفتوں میں ہی کل عالم کو اپنی لپیٹ میں لینے والی اس ہلاکت خیز وبا سے قبل ہی کثیر عالمی آبادی بڑھتے اقتصادی دبائو سے، بڑھتی غربت اور معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے چیلنج سے دو چار ہو گئی تھی۔ اس تشویشناک صورتحال کا گراف کہیں تیزی سے اور کہیں کسی نہ کسی کم فیصد میں بڑھ رہا تھا۔ اسی کے متوازی ایک بڑا راز اب اپنی اصلیت کے ساتھ بے نقاب ہو رہا ہے، جیسا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے تناظر میں امریکی انتظامیہ اور میڈیا سے افغانستان میں اس کی 20سالہ عسکری موجودگی کے اڑھائی ٹریلین ڈالر کے بھاری بھر کم خرچے کا راز کھل گیا۔ اس حوالے سے مختلف اعداد وشمار سامنے آ رہے ہیں جو سب اس کم سے کم علانیہ (اڑھائی ٹریلین) سے زیادہ ہیں، 9ٹریلین ڈالر تک کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ ساتھ ہی یہ تجزیہ بھی بڑا اذیت ناک ہے، خصوصاً امریکنوں کے لئے اس کا حاصل 2400امریکی جانوں کاضیاع، ہزاروں کی تعداد میں زخمی اور معذور، انسانی نفسیاتی مسائل کی بھرمار اور امریکی فوج کی سکت، پالیسیوں اور حکمت عملی کی ناکامی کا پول کھل جانے کےسوا کچھ نہیں۔ افغانستان میں جمہوریت آئی، ترقی ہوئی، نہ امن قائم ہوا۔ اتحادی نیٹو ممالک کا فرداً فرداً جانی و مالی خسارہ اور ملتا جلتا خسارہ الگ ہے۔ بھارت کا ماتم بھی جاری ہے کہ اس کے تین ارب ڈالر ڈوب گئے، جبکہ وہاں بھی امریکہ کی طرح یہ ڈیٹا بھارتی حکومتی ذرائع سے آ رہا ہے، میڈیا میں تو رونا دھونا 9ارب ڈالر ڈوب جانے کا رویا جا رہا ہے۔ شاید وہ شیطانی بجٹ چھپایا جا رہا ہے، جس کی آخری لاٹ 3ارب بشکل پاکستانی کرنسی کیش، قندھار کے بھارتی قونصل خانے پر طالبان کے قبضے کے بعد ان کے ہاتھ لگی۔ یہ واضح ہے کہ یہ بھاری رقم پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہی تھی۔ اندازہ لگائیں کہ کابل کی بھارتی ایمبیسی کے علاوہ قندھار جیسے چار اور بھارتی ’’سفارتی مراکز‘‘ افغانستان میں گزشتہ بارہ پندرہ برس سے کام کر رہے ہیں۔ ’’کام‘‘ اب مکمل بے نقاب ہو چکا، اس کے باوجود لاہور کے جوہر ٹائون دھماکے، داسو ڈیم کے چینی و پاکستانی انجینئروں کی بس پر حملے بارے پاکستان ثبوتوں کےساتھ اس میں ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کا دعویدار ہے، یہ ثبوت چین سے بھی سرکاری سطح پر شیئر ہو گئے۔ اب اسلام آباد ہی نہیں بیجنگ بھی اس پر یکسو ہے۔ افغانستان تک ہی محدود ’’عالمی وار آن ٹیرر‘‘ کے حوالے سے پاکستان کا افغان سرزمین اور ’را‘ کی مدد سے اپنے قبائلی علاقوں سے ہونے والی دہشت گردی سے 70ہزار بے گناہ شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی جانوں اور ہزاروں زخمی و معذور ہونے، 150ارب ڈالر کے اقتصادی قومی نقصان کا ماتم ہمارے حکمران ہر عالمی فورم، سفارتی رابطوں اور میڈیا ٹاکس میں کر رہے ہیں۔ یعنی جانی و مالی بھاری خسارے کے حوالے سے متاثر ترین ممالک افغانستان، پاکستان، امریکہ اور بھارت رہے۔

اب یہ مکمل ثابت شدہ اور 7ارب انسانوں کی بستی کی تلخ ترین حقیقت ہے کہ افغانستان میں نیٹو اور بھارت کی 20سالہ سیاسی، سازشی اور عسکری موجودگی اور پاکستان پر مسلط جنگ (اور اسلام آباد کےتعاون کے غلط فیصلے یا بےبسی) کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ بتلایا جاتا رہا اور جس جارحانہ سفارتی بیانیے کو وسیع پیمانے پر دنیا بھر میں قابل قبول بنایا گیا اور وار آن ٹیرر جاری رکھی گئی، اس سے تو دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس سے دہشت گرد تنظیموں کے متوازی مکمل منظم ریاستی دہشت گردی بھی اختیار کی گئی جس سے پاکستان میں جان و مال اور قومی و عوامی اقتصادیات کی بڑی تباہی ہوئی۔

متذکرہ حقائق کی روشنی میں مکمل عیاں ہے کہ نائن الیون کے اشتعالی ردعمل میں تلاش انصاف کے مسلمہ بین الاقوامی قوانین کی راہ اختیار کرنے کی بجائے افغانستان کے خلاف وار آن ٹیرر اور پاکستان کو دھمکی سے فرنٹ لائن پارٹنر بنانے کا جو انتہائی غیر ذمہ دارانہ فیصلہ کیا گیا، یا تشویشناک صورتحال سے ’’گریٹ گیم‘‘ نکالی گئی، اس نے ’’گیم‘‘ کے ہر شکار اور سرگرم نشانچی کو بڑے بھاری خسارے سے دوچار کیا۔ اس سے چار ملکوں امریکہ، افغانستان، پاکستان اور بھارت کی قومی معیشت کو جو بھاری نقصان پہنچا اس سے یہ ممالک عوامی سطح کی اقتصادیات، غربت، بےروزگاری اور مہنگائی کے تکلیف دہ مسائل سے دو چار ہوئے۔عالمی سیاست ’’گریٹ گیمز‘‘ کے ’’ڈیزائنرز اور شیدائیوں‘‘ مقابل و متحارب پرو پیپلز ’’ایجنٹس آف چینج‘‘ اور پوٹینشل ورلڈ کمیونٹی کے لئے چاروں متذکرہ کیسز انتہائی سبق آموز سٹیڈیز کابڑا ساماں لئے ہوئے ہیں۔ ایک دو کے لئے نہیں 11/9کے تناظر میں ہونے والی فقط افغانستان کے بیٹل فیلڈ میں لڑی (پاکستان کو براہ راست اورشدت سے متاثر کرنے والی) اور لڑائی گئی ’’عالمی‘‘ 20سالہ وار آن ٹیرز‘ چاروں زیر بحث ممالک کے خارجہ پالیسی سازوں، پیس اینڈ سیکورٹی سکالرز اور عوام الناس کے لئے یہ کیس سٹڈیز، مطلوب مستقبل گری کی رہنمائی کے لئے مشعلِ راہ بن سکتی ہے۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ زیر بحث ’’وار آن ٹیرر‘‘ جو دراصل ایک گریٹ گیم تھی، چند بڑے نتائج اور آنکھیں کھولنے والے، انتہائی انتباہ کے حامل نتائج دینے کے باوجود ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی بلکہ ایک نئی شکل اور (شاید) کسی نئے بیانیے کے زور پر جاری رہنے کے خدشات سے لبریز ہے۔ حقیقت تو اس کی یہ ہی ہوگی کہ اگر اس کا ہونا ٹھہر ہی گیا ہے تو یہ ’’گریٹ گیم‘‘ (اللّٰہ کرے) روایتی گریٹ گیم ہی تک رہے تاکہ اس کے نتائج چار ملکوں کے بڑے بڑے خساروں اور دنیا پر اس کے گہرے اقتصادی منفی اثرات جیسے ہی محدود رہیں لیکن امکانات اس سے بھی تشویشناک معلوم دے رہے ہیں۔ اس صورتحال کا کون کتنا ذمہ دار اور عالمی معاشرے کا مجرم ہوگا؟ (جاری ہے)