ٹوٹے(2)

July 31, 2021

کلنک کا ٹیکہ

امتحانات میں ایک عزیز طالبہ نے ’’ کلنک کا ٹیکہ‘‘ کو جملے میں استعمال کرتے ہوئے لکھا ’’ میرے محلے میں تمام لوگوں نے کلنک کے ٹیکے لگوائے لیکن میں اس روز گھر پر نہ تھی اس لیے کلنک کا ٹیکہ نہ لگواسکی‘‘۔ میں آج تک اس محاورے کی صرف ظاہری سطح ہی دیکھتا رہا۔ اس کی دیگر پرتوں پر میری نظر ہی نہ جاسکی ۔اب یہ عقدہ مجھ پر کھلا ہے تو برادرانِ وطن سے التماس ہے کہ یوں تو قومی سطح پرہم سب کلنک کا ٹیکہ لگواچکے ہیں لیکن اگر کوئی بچ گیا ہوتو وہ اولین فرصت میں کلنک کاٹیکہ لگوائے کہ بقول اقبال؎

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

ہیروئن کی ماں

میں ہیروئن کی ماں اور اس کی کھانسی سے سخت بے زار ہو گیا ہوں۔ یہ ہیروئن وہی فلموں والی ہیروئن ہے جو خود تو ہیرو کے ساتھ لڈیاں ڈالتی ہے اور میرے لیے گھر میں اپنی ماں اور اس کی کھانسی چھوڑ جاتی ہے۔ ہر دوسرے چوتھے منظر میں یہ ماں کیمرے کے سامنے آجاتی ہے اور کھانس کھانس کراپنا اور ناظرین کا براحال کردیتی ہے، یہ مناظر سگریٹ نوشی کے نقصان دکھانے کے لیے پیش نہیں کیے جاتے کیونکہ ہیروئن کی ماں سگریٹ نہیں پیتی ہیروئن پیتی ہے اور اسے کھانستے ہوئے بھی نہیں دکھایا جاسکتا۔

بڑھک

اخبارات میں بیان چھپوانے کے لیے اب لیڈر ہونا بھی شرط نہیں صرف ایک سادہ کاغذ پر چند ’’بڑھکیں‘‘ لکھ دینا ہی کافی ہے۔اس کی ایک مثال(دورغ برگر دن راوی) انجمن خشت سازاں پکی ٹھٹھی کے صدر نے ایک اخباری بیان میں بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آئے ورنہ انجمن خشت سازا پکی ٹھٹھی کے ارکان اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔ امید واثق ہے کہ اس بیان سے بھارت کے حکومتی ایوانوں میں زلزلہ آجائے گا لیکن اس سے قبل انہوں نے اینٹوں کے نرخ اتنے چڑھا دئیے ہیں کہ مکان بنانے کے خواہش مند ان کے اپنے ہم وطنوں کی اینٹ سے اینٹ بج گئی ہے۔

کلمہ سنائو

جب میں تبلیغی جماعت میں تھا تو ایک روز میں دورے میں عارف مرحوم کے پیچھے سرجھکائے ، آنکھیں نیم وا کیے، ذکر وفکر میں مشغول چلے جاتا تھا کہ سامنے گائوں کے میراثی کا گزر ساتھیوں کے ساتھ ہوا۔ عارف مرحوم نے تبلیغی جماعت کے روایتی انداز میں اس سے دومنٹ گفتگو کے لیے مانگے ۔ وہ رکا تو عارف نے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اسے جماعت کے مخصوص عاجزانہ انداز میں کہا’’ بھائی کلمہ سنائو‘‘ اس پر اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے اور وہ ہڑبڑا کر بولا کیا بات ہےکلمہ بدل گیا ہے کیا؟‘‘

یک چشم گل

اسمبلی میں کانوں کی نمائندگی بھی ضرور ہونی چاہئے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ آپ اس محاور ےسے لگا سکتے ہیں جس کے مطابق اندھوں میں کانا راجا ہوتا ہے۔ کانا وہ ہوتا ہے جس کی صرف ایک آنکھ ہوتی ہے چنانچہ وہ ادھورے مناظر دیکھتا ہے اگر وہ بائیں آنکھ سے کانا ہے تو اسے دائیں ہاتھ کی خوبصورتیاں نظر نہیں آتیں اور اگر وہ دائیں آنکھ سے کانا ہے تو بائیں ہاتھ کا حسن اس کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔

شعردان

افلاطون نے اپنی مثالی ریاست کے تصور میں سے شاعروں کوخارج کر دیا تھا مجھے یقین ہے کہ افلاطون کو شاعری سے کوئی کد نہ تھی بلکہ شاعروں کے ’’ عرض کیا ہے‘‘ والے رویے سے تنگ آکر اس نے انہیں ایک ناکارہ مخلوق قرار دے دیا تھا کیونکہ شاعری کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے کسی اہلِ ذوق کا ’’ اٹ کھڑکا‘‘ رہتا ہو البتہ اس سطح ارضی پر شاعروں کی ایک ایسی قسم ضرور موجود ہے۔ جن کے ’’ شر‘‘ سے لوگ پناہ مانگتے ہیں اور یہ قسم وہی ہے جو جہاں بیٹھتی ہے شعر اگلنا شروع کردیتی ہے چنانچہ ضرورت اس امرکی ہے کہ جہاں دیوار ودر کو پان کی پچکاریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اگا لدان استعمال میں لائے جاتے ہیں وہاں ’’ شعر دان‘‘ قسم کی کوئی ایجادبھی ہونی چاہئے تاکہ جہاں کسی شاعر کو شعر اگلنے کی ضرورت محسوس ہو یہ شعر دان اس کے آگے کردیا جائے۔

ش سے شاعر

65کی جنگ کے دنوں میں ایک شہر میں حالات خاصے سنگین تھے۔ کرفیو کے اوقات میں ایک شاعر کے دروازے پر دستک ہوئی جس پر اس نے گھبرا کر بلکہ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا توسامنے ایک شاعر دوست کو کھڑا پایا اس نے بغل میں بیاض دابی ہوئی تھی۔ دروازہ کھولنے والے نے کرفیو کے اوقات میں اپنے اس دوست کو سامنے پایا جس کا گھر بھی دوسرے محلے میںتھا اور جس کے پاس کرفیو پاس بھی نہیں تھا تو وہ بہت حیران ہوا اس حیرانی کے عالم میں اس نے اپنے اس شاعر دوست سے آمد کا مقصد دریافت کرنا چاہا مگر پیشتر اس کے کہ وہ کچھ کہتا ’’ شاعر دوست نے کہا ملک صاحب کے ہاں مشاعرے میں نہیں چلنا؟ اس پر اس نے اپنی ہنسی ضبط کی اور پوچھا، کیسے چلیں ۔کرفیو لگا ہوا ہے ۔کوئی ایسی بات نہیں ۔شاعر دوست نے جواب دیا۔ گلیوں میں سے نکل چلتے ہیں‘‘۔