میاں صاحب! اپنے بیانیے میں لچک پیدا کیجئے

July 31, 2021

پاکستان کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے عوام ہی نہیں خواص بھی خاصے بددل اور پریشان ہیں، سوائے کٹھ پتلیوں کے۔ اگر ہم انسانی تاریخ پر عمیق نظر ڈالیں تو لازم نہیں ہے کہ شعور کی آواز ہمیشہ سر بلند ہوئی ہو۔ کئی مواقع پر اسے پیہم دھیمی رہنا پڑا ہے۔ بیشتر مواقع پر مفاداتی طاقتوں نے خرد مندوں کو زہر پلایا اور صلیبوں پر چڑھایا ۔

ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومتِ عشق

سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں

اس تلخ نوائی کی غایت یہ نہیں کہ مایوس ہو کر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ عرضِ مدعا یہ ہے کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے آئیڈیل ازم سے تھوڑا نیچے آ کر بھلے زمانہ سازی نہ کریں مگر اصل حقائق کی مطابقت میں اپنی پلاننگ پر نظرثانی ضرور فرما لیں۔ آج ہی ایک محترم دوست سے بات ہو رہی تھی کہ ہر باذوق انسان باغیچے میں قیام چاہتا ہے لیکن اگر دلدل، کھائی یا گٹر میں گرنے کا اندیشہ ہو تو باامر مجبوری کچرے پر بھی قیام کیا جا سکتا ہے’’ملے نہ پھول تو کانٹوں سے دوستی کرلی‘‘۔

ایک ذہین سیاستدان کی قابلیت بدلتے حالات و واقعات کے تیور کا ادراک ہی نہیں ان کی مطابقت میں پالیسیوں کی تشکیلِ نو ہے۔ ایک قدیمی عرب سیاستدان نے کہا تھا کہ میں حالات کی مطابقت میں اپنا مقام بدل لیتا ہوں، کوئی میری منشا کے بغیر زیادہ قریب آئے تو دوری اختیار کرتا ہوں، دوری دکھائے تو قریب ہو جاتا ہوں۔ عصر ِجدید کے عرب سیاستدان نے کہا اپنے جیسے کا مقابلہ تو کر سکتا ہوں لیکن سپر پاور سے جنگ نہیں لڑ سکتا۔ ہمارے قومی شاعر اگر ممولے کو شہباز سے لڑانے کی ترغیب دلاتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی، تو شاعر کی تخیلِ پرواز اور سیاستدان کے زمینی ادراک میں موجود تفاوت کو سمجھا جانا چاہئے۔ جنہوں نے نہیں سمجھا وہ اپنے تئیں جتنے بھی تیس مار خان تھے، قصۂ ماضی بن گئے۔

درویش معافی کا خواستگار ہے یہاں اولوالعزم ہستیوں کے عزم و استقلال کی نفی مقصود نہیں، ان کی عظمتوں کو ہزاروں سلام جنہوں نے طاقتوروں کا وزیر مشیر بننے کی بجائے پابندِ سلاسل ہونا اور وہیں مرنا قبول کر لیا۔ اس کے بالمقابل اہلِ خرد کی ایک اور جہت یا منزل بھی ہے، امام ابو یوسفؒ کا کیا خوب استدلال ہے، اگر میں نے اس بھاری ذمہ داری کو اٹھانے کی بجائے اس سے کنارہ کشی اختیار کی تو نااہلیت اس سلطنت پر چھا جائے گی، نااہل لوگوں کے ان معزز مناصب پر فائز ہونے سے ان عہدوں کی جو بےتوقیری ہوگی اسے پوری قوم بھگتے گی۔ آج کون ہے جو اس عظیم استاد امام اعظم ابو حنیفہؒ کے ذہین شاگرد کی منطق پر رائے زنی کرے۔ اپنے اپنے زمانی و زمینی حقائق کی مناسبت سے پالیسیاں تشکیل و تبدیل ہو سکتی ہیں۔

ہمارا یہ سارا منظر نامہ تشکیل پایا ہی اس طرح تھا، کون غریب آدمی تھا جو عوام کے اندر سے جمہوری پراسس سے ابھر کر سامنے آیا تھا؟ یہ بڑے بڑے نواب زادے، زمیندار اور وڈیرے تھے جن کے تب کی پی ٹی آئی میں تشریف لانے سے تحریک یا تشکیل کا رونق میلہ شروع ہوا یا آگے بڑھا، کسے معلوم نہیں کہ برٹش انڈیا کی افواج میں مسلم شرح، حصہ بقدر جثہ سے کس قدر آگے بڑھی ہوئی تھی۔ سر کا بوجھ آخر پیروں پر ہی آنا تھا سو آیا اورپوری طاقت سے آیا ۔غصہ والی کیا بات ہے؟ آپ کسی کی شان میں رطب اللسان نہیں ہو سکتے تو بھی کچھ عرصے کےلئے تنقیدی گھوڑے دوڑانےکی بجائے دو ایک توصیفی نعرے لکھ لیں ہر کوئی اپنا ہی ہے، ازلی دشمن ہندوستان کا تو نہیں ہے۔ معیشت تباہ ہے یا جمہوریت، کوئی بات نہیں، اپنا اگربھوکا پیاسا رکھ کربھی مارے گا پھر بھی دھوپ میں تو نہیں پھینکے گا۔

میاں صاحب اپنا بیانیہ تھوڑی سی لمبی مدت کیلئے بدل لیجیے عوامی دکھوں کا احساس و ادراک کیجیے۔ ویسے توآپ کو 2018میں سمجھ آ جانی چاہئے تھی۔ گلگت بلتستان پھر آزاد کشمیر اور اب آپ کا گڑھ پنجاب، کیا اب بھی کوئی کسر رہ گئی ہے؟ اب بس کر دیں۔