بڑھتے غیرملکی قرضے

August 01, 2021

ماضی میں ہر حکومت نے اقتدار سنبھالتے وقت ملک پر واجب الادا قرضوں کی بھاری بھرکم مالیت کا رونا رویا لیکن شوئی قسمت کہ ہر بار اس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1970میں غیرملکی قرضوں کی مالیت 30ارب روپے تھی، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق حالیہ تین برسوں میں بیرونی قرضے 40ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس عرصے میں متذکرہ اضافے کی بڑی وجہ بڑھتا ہوا درآمدی دباؤ اور سابقہ قرضوں کی بمعہ سود ادائیگی ہے مزید برآں بجٹ خسارہ، گندم، چینی اور کپاس کے بحران کے باعث ان اجناس کی غیرمعمولی مقدار میں درآمد، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں نمایاں کمی اور رہی سہی کسر کورونا وبا نے پوری کر دی تاہم گزشتہ مالی سال کے دورانِ ترسیلاتِ زر اور ٹیکسٹائل برآمدات میں ہونے والے اضافے نے صورتحال کو سنبھالا دیا ہے جسے بھاری بھر کم قرضوں کے بوجھ کے تناظر میں وقتی فائدہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں حکومت کو اس وقت بجا طور پر زرمبادلہ کے ذخائر کی فکر ہے جنہیں وہ زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ حال ہی میں اس نے یو اے ای کے ایک کمرشل بینک سے 30کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم لے کر محفوظ کی ہے جس سے اسٹیٹ بینک کے ذخائر کی مالیت 23جولائی کو 24.875ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی تاہم اسی ہفتے کے اختتام پر یہ کم ہو کر 17.829ارب کی سطح پر آگئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر کسی بھی معیشت کا سہارا ہوتے ہیں لیکن جب تک بیرونی قرضوں کا بوجھ مسلط ہے ملکی اقتصادی صورتحال کو تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان ایک کثیر الجہتی معیشت کا حامل ملک ہے جس کے پھلنے پھولنے کے لئے نئی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور ساتھ ہی قومی آمدنی میں اضافہ ہو، حکومت کو اس طرف بھی سوچنا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998