مسئلہ کشمیر کب تک اُلجھا رہے گا؟

August 01, 2021

جو گند آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں اُچھلا اس پر بھارت ہی نہیں دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی۔ پاکستانی سیاست کی کثافت نے کشمیر کی سیاسی فضاؤں کو ہی مکدرنہیں کیا بلکہ مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کے حوالے سے ہمارے غیر سنجیدہ ، غیر جمہوری اور بے اصولی رویوں کو بھی عیاں کردیا ہے۔

مشقِ ستم بنا بھی تو مسئلہ کشمیر یا پھر آزاد جموں و کشمیر کی بے بسی اور بے نوائی۔ یوں لگتا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے اطراف کے مقبوضہ علاقوں میں دو ریاستوں کے مابین ایک مقابلہ جاری ہے کہ کیسے اپنے اپنے مفتوحہ علاقوں کو قابو میں رکھتے ہوئے برصغیر میں تناؤ اور چپقلش کو برقرار رکھا جائے۔ مزید براں لداخ میں پھر سے بھارت اور چین کے مابین فوجی کشیدگی کے بعد تیسرا فریق بھی متحرک ہوگیا ہے۔

تیاپانچہ ہوا تو کشمیر کا اور بربادی ہوئی ہے تو کشمیریوں کی۔ ہر وہ کشمیری جو ادھر یا ادھر آزادی چاہتا ہے ”غدار“ ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات کی مغلظاتی دھول سے اگر کچھ برآمد ہوا بھی ہے تو وہ ہے وزیراعظم عمران خان کی دو ریفرنڈمز کی تجویز جس پر مسلم لیگ ن نے بڑے ہی سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی حب الوطنی تک پہ سوال اٹھادیا ہے۔

بلاول بھٹو نے بھی اسے پاکستان کے ”اصولی موقف“ سے روگردانی کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس مباحثے کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ جب بھی کسی نے پاکستان یا بھارت میں مسئلہ کشمیر کی الجھن کو حل کرنے کی کوئی راہ نکالنے کی کوشش کی وہ متحارب سیاسی اپوزیشن کی مخاصمت کا نشانہ بنا۔ گویا مسئلےکو سلجھانا مقصود نہیں، الجھائے رکھنا مطمحِ نظر ہے۔

اپوزیشن سے پوچھنا بنتا ہے کہ کیسے عمران خان کی دو ریفرنڈمز کی تجویز پاکستان کے روایتی موقف سے متصادم ہے؟ کیا سارے کشمیر کے لئے پہلے ریفرنڈم کی تجویز پاکستان کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کے موقف سے متصادم ہے؟ ویسے پوچھنے میں کیا حرج ہے کہ پاکستان کیوں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کے لئے راضی نہ ہوا تھا کیونکہ اسے پہلی کشمیر جنگ میں فتح کیے ہوئے علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلانا پڑتیں اور یہ کہ جواہرلعل نہرو اور شیخ عبدﷲ کے معاہدے کے بعد ریفرنڈم میں شکست ہوسکتی تھی۔

پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا پرجوش حامی ہوا بھی تب جب شیخ عبدﷲ کا دہلی سے جھگڑا ہوگیا اور وہ بھارت سے الحاق ختم کرنے کے لئے پر تول رہے تھے جس کے باعث وہ طویل عرصے کے لئے جیل بھیج دئیے گئے اور وادی کشمیر آزادی کے نعروں سے گونج اُٹھی۔

کشمیر کی خودمختاری اور آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت محض کاغذی ہوتی چلی گئی اور بالآخر 5 اگست 2019ءکو ختم کردی گئی۔ پاکستان نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں اپنایا بھی تو آرٹیکل 370 کا چربہ۔ 1973ءکے آئین کے بعد آزاد کشمیر کی آئینی حیثیت محض کاغذی تھی جسے وزارت کشمیر گورنر جنرل کی طرح کنٹرول کرتی ہے اور AJK ایک محتاج میونسپل ادارے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتاجس کے انتخابات میں شرکت کے لئے امیدوار سے پاکستان کے ساتھ الحاق کا عہد نامہ شامل ہے اور جہاں وادی کشمیر کے برعکس تمام مقامی کشمیری جماعتیں انتخابی سیاست سے باہر ہوگئی ہیں اور جس کے انتخابی نتائج میں کشمیر سے باہر پاکستان میں بسے کشمیری مہاجروں کی 12 نشستیں فیصلہ کن ہیں۔

اب یو این کے تحت اور اس کی قراردادوں کے مطابق استصواب یا عمران خان کا تجویز کردہ ریفرنڈم تو ہونے سے رہا کہ اسے بھارت مانے گا نہ آزادی چاہنے والے کشمیری۔ اگر دوسرا ریفرنڈم پہلے ریفرنڈم سے مشروط نہیں تو اسے کرانے میں کیا قباحت ہے؟ اگر ریفرنڈم کروایا جاتا ہے تو نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی سیاست ادھر کے کشمیر میں حاوی ہے تو کیوں نہ آزاد جموں و کشمیر کو بھارت کے آرٹیکل 370 والا خصوسی اسٹیٹس دے دیا جائے۔

اس سے ایک تو ادھر کے کشمیریوں کی خودمختاری کی آس پوری ہوجائیگی اور رضاکارانہ الحاق سے یہ رشتہ جمہوری بھی ہوجائے گا۔ دوسری جانب بھارت پہ زبردست دباؤ بڑھے گا کہ وہ آرٹیکل 370 کو اصل روح کے مطابق بحال کرے اور اس حوالے سے جموں و کشمیر کے زیادہ تر عوامی حلقے پہلے سے ہی متحرک ہیں ۔

مسئلہ کشمیر نو آبادیاتی راج کے برصغیر کی مذہبی بنیاد پر تقسیم اور شاہی ریاستوں کے ایک یا دوسری ریاست میں انضمام کی بے اصولی دین ہے جوہندو اور مسلم اکثیریتی دو بعداز نوآبادیاتی ریاستوں کے عزائم کا مظہر ہی نہیں بلکہ دو ہمسائیوں میں باہمی دشمنی کے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے اور ہورہا ہے۔

ریاست کشمیر کے تقریباً دو کروڑ لوگ زور زبردستی سے پانچ حصوں میں تین ملکوں میں بانٹے گئے ہیں۔ باجگزار ریاستوں کے الحاق کے حوالے سے جو اصول طے کیے گئے تھے، ان کی بڑی خامی یہ تھی کہ ان ریاستوں کے عوام کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور فقط والیانِ ریاست کو متعلقہ ریاست کی آبادی کے مذہب اور جغرافیے کی بنیاد پر کسی ایک ریاست کے ساتھ الحاق یا آزاد رہنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے بھی دونوں ملکوں کے حکمرانوں کا رویہ متضاد تھا۔

بھارت نے حیدر آباد کے مسلم مہاراجہ اور جونا گڑھ کے مسلم حکمران کی منشا کیخلاف ان دو ریاستوں میں ہندو اکثریت کی بنیاد پر قبضہ کرلیا تو پاکستان نے ان دو ریاستوں کے حکمرانوں کی منشا کے مطابق ان کے پاکستان سے الحاق کا دعویٰ کیا جبکہ بھارت نے ریاست کشمیر کی مسلم اکثریت کے باوجود مہاراجہ ہری سنگھ سے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پہ انگوٹھا لگوا کر زیادہ تر کشمیر پہ قبضہ کرلیا اور جو حصہ پاکستان کے پاس آیا بھی تو وہ فوجی مفتوحہ علاقہ ہے۔

گزشتہ 74برس سے ایک چھوٹی سی منقسم نو آبادی کا جبری بٹوارہ جس کی آبادی دو کروڑ سے بھی کم ہے برصغیر کے دو بڑے ملکوں اور اس کے ڈیڑھ ارب لوگوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔

بھارت جمہوریہ ہونے کے باوجود حق خود اختیاری کو سرے سے مانتا ہی نہیں جس میں حق علیحدگی بھی شامل ہو۔ پاکستان حق علیحدگی کا حامی تو ہے بشرطیکہ الحاق پاکستان سے ہو۔ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ ہو یا کشمیر کے بھارت کا اٹوٹ انگ ہونے کا دعویٰ ہو، دونوں جبری الحاق کے مظاہر ہیں۔

سات دہائیوں سے مسئلہ کشمیر کو دونوں ملکوں کے حکمران اپنی اپنی، جارحیت پسندی، جارحیت اور باہمی متحارب قوم پرستانہ سیاست کیلئے بطور ایندھن استعمال کررہے ہیں۔

نتیجتاً بھارت جمہوریہ کے راستے سے ہٹ کر ہندو راشٹریہ بننے کی جانب گامزن ہے اور پاکستان جمہوریت سے دور اور کٹر مذہب پرستی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بھارت اسٹیٹس کو پاور ہے اور پاکستان اسٹیٹس کو توڑنے کے قابل نہیں۔

تو پھر کشمیر کا کوئی عملی حل نکالا جائے اور معروضی حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیریوں کو وہ آزادی تو ملے جو برصغیر کے باقی عوام کے پاس ہے۔ یہ علیحدہ سوال ہے کہ خود پاکستان اور بھارت کے عوام کتنے آزاد ہیں؟