وہ لاہور کہیں کھو گیا

August 01, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن بڑا خوبصورت ریلوے اسٹیشن تھا۔ جن لوگوں نے 1970سے پہلے اس اسٹیشن کو دیکھا ہے وہ ہماری بات کی تائید کریں گے۔ ہمارے والد صاحب ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر تھے چنانچہ بچپن میں ان کےساتھ جیپ میں اور پھر جب ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے تو اکثر جیابگا، کاہنا کاچھا ریلوے اسٹیشن سے واہگہ ریلوے اسٹیشن تک سیر کرنے آیا کرتے تھے۔ کیاصاف ستھرا ماحول تھا، کیا فضا تھی، دل نہیں کرتا تھا کہ یہاںسے کہیں اور جایا جائے اور ہم گھنٹوں ان قدیم ریلوے اسٹیشنوں کے تاریخی بنچوں پر بیٹھے رہتے تھے۔ خیر ہم ہر بنس پورہ ریلوے اسٹیشن پر خاصی دیر تک ٹھہرے رہے اور اپنے موبائل فون سے تصاویر بناتے رہے۔ ریلوے اسٹیشن کے قریب کچھ پُراسرار قسم کےلوگ پھر رہے تھے۔وہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ ان ریلوے کی بوگیوں کے اندر مت جائیں یہاں پر آسیب ہے اور سایہ ہے، یہ سایہ رات کو لوگوں کے پیچھےبھاگتا ہے اور جن، بھوت بھی ہیں۔ جب ہم نے اندر جا کر ان بوگیوں کو دیکھاتو سخت افسوس ہوا ، اندر کوئی بھی چیز سلامت نہیں تھی۔ پنکھے، شیشے، دروازے، لائٹیں اورایمرجنسی والی لال رنگ کی زنجیر تک غائب ہو چکی تھی۔ اب صرف بوگیوں کے سپرنگ اور کمانیاں رہ گئی ہیں و ہ بھی کسی روز چوری ہو جائیں گی۔ ابھی تو ان بوگیوں میں بڑا لوہا موجود ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ان بوگیوں سے یہ چیزیں چرائی گئی تھیں اس وقت آسیب نے انہیں کچھ نہ کہا۔ یہ لوگ بار بار ہمیں کہتے رہے اِن بوگیوں کے اندر مت جائیں۔ ان بوگیوں کے اندر عجیب بدبو تھی۔ یقیناً قبضہ مافیا یہاں کی قیمتی زمین اور اب ریل کی ان بوگیوں میں بچا کھچا سامان چرانے کے لئے ایسی افواہیں پھیلا رہا ہے تاکہ رات کو لوگ ادھر نہ آئیں اور یہ لوگ یہاں اپنی پُر اسرار سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ ہم گزشتہ ہفتے رات کو گیارہ بجے اپنی موٹر کار میں یہاں سے گزرے تو اس وقت بھی کچھ عجیب و غریب لوگ نظر آئے۔ اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کی مرکزی عمارت کے پیچھے اور دائیں بائیں ایسے افراد آ چکے ہیں جنہوں نے یہاں پر قبضہ کرلیا ہے اور وہ آہستہ آہستہ اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کی عمارت گرا رہے ہیں تاکہ قبضہ مافیا کو میدان صاف مل جائے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ریلوے پولیس اور تھانہ ہربنس پورہ کی پولیس نے اس تاریخی ریلوے اسٹیشن پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کیوں نہیں کارروائی کی۔ بہت سارے سوالات ہیں۔ ہم ریلوے کے موجودہ سیکرٹری حبیب گیلانی صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ ان تاریخی ریلوے اسٹیشن کوقبضہ مافیا سے چھڑائیں اور اس کی عمارت کو بچائیں۔

ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن کے بعد ہم جلوپنڈ ریلوے اسٹیشن چلے گئے، جلوپنڈ ریلوے اسٹیشن کی ہم نے بچپن میں بہت سیر کی ہے اور کالج کے زمانے میں ریل کار میں لاہور ریلوے اسٹیشن سے سوار ہو کر سیر کرنے یہاں آتے تھے ۔جلوپنڈ ریلوےاسٹیشن بھی کبھی بڑا خوبصورت تھا اس ریلوے اسٹیشن کے مرکزی دروازے کا فن تعمیر بالکل ولایت کے کسی دور دراز کے گائوں کے اسٹیشن جیسا لگتا ہے۔ اس تاریخی ریلوے اسٹیشن پر بھی آخری مرتبہ ٹرین 2020ء کے شروع کے چند ماہ آئی، وہ شٹل ٹرین تھی، جس کا افتتاح 14 دسمبر 2019ء کو شیخ رشید احمد (اس وقت وفاقی وزیر ریلوے) نے کیا تھا۔ جلوپنڈ پر جب یہ ٹرین پہنچی تو گائوں کے لوگوں نے اس طرح خوشی کا اظہار کیا جیسے ان کےکسی بچے/ بچی کی شادی ہو رہی ہو، اس قدر خوشی اور مسرت کا اظہار جلو پنڈ کے لوگوں نے کیا کہ بیان سےباہر ہے۔

اگرچہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ ہم لاہور میں اس قسم کی مزید شٹل ٹرینیں چلائیں گے مگر صرف چھ ماہ بعد ہی یہ شٹل ٹرین بند کردی گئی۔ حالانکہ لاہور اسٹیشن سے واہگہ ریلوے اسٹیشن اور جلوپنڈ ریلوے اسٹیشن تک کا کرایہ صرف تیس روپے تھاجو کہ میٹرو اور اورنج ٹرین کے کرایہ سے بھی کم تھا۔ بہرحال ہم جس وقت کوئی چالیس برس بعد اس ریلوے اسٹیشن پر پہنچے ، یقین کریں ہمیں اس کی حالت دیکھ کر اس قدر افسوس ہوا کہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے۔ جلوپنڈ بڑا خوبصورت اور سرسبز علاقہ تھا۔لاہور اسٹیشن سے جلو تک ریل کار آتی تھی اور جلوپنڈ اس کا آخری اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ اس جلوپنڈ کے ریلوے اسٹیشن پر اتنا رش ہوتا تھا کہ روزانہ چالیس سے زائد ٹرینیں اور ریل کاریں آیا کرتی تھیں اور کچھ واہگہ ریلوے اسٹیشن تک بھی جاتی تھیں۔ مگر آج سب کچھ تباہ برباد ہوگیا۔ انگریزوں نے لاہور کے دیہات میں جتنے بھی ریلوے اسٹیشن تعمیر کئے ان سب کا فن تعمیر آپس میں ملتا جلتا تھا۔ ہر عمارت کی آرچ گولائی ہوتی تھی۔ رات کوبھی یہ ریلوے اسٹیشن اپنا ایک الگ ہی سماں پیش کرتے تھے۔ پرانے لاہوریوں نے یقیناً جلوپنڈ کی سیر ریل کار پر ضرور کی ہوگی۔ آنے والے صرف دس برسوں میں یہ لاہور اپنی تمام پرانی تہذیب، روایات اور ثقافت کو کھو دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نودولتیوں نے اس تاریخی شہر کا تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی حسن برباد کردیا ہے۔ پلازہ مافیا اور پلاٹ مافیا یہ اب لاہور کا نیا کلچر ہے۔ جو لوگ نئے اور بحالی لاہور پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں اور دریائے راوی کے پاس ہزاروں ایکڑ پر جو نیا لاہوربسایا جا رہا ہے تو عرض ہے کہ اس نئے لاہور کا پرانے لاہور سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

ایک دور آئے گا کہ اس شہر کی ہر تاریخی عمارت پلاٹ مافیا کی نذر ہو جائےگی۔ کوئی بعید نہیںکہ آنے والے پچاس برسوں میں لاہور میں ایک بھی تاریخی عمارت نہ رہے۔ آپ اسپین، اٹلی، فرانس، انگلستان اور دنیا کے کئی قدیم ممالک اور شہروں میں چلے جائیں وہ اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہاں تو تاریخی ورثہ تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کراچی میں کئی قدیم چرچ اور تاریخی عمارات ہیں۔ ہم نے ان کو محفوظ نہیں کیا۔آج ہم لاہور کے دو قدیم ریلوے اسٹیشنز کاہنا کاچھا اور جیا بگا چلے گئے اور ہلوکی کا فلیگ اسٹیشن بھی دیکھا۔ کس بے دردی سے ریلوے نے اپنی املاک کو تباہ کیا، بیان سے باہر ہے۔ (جاری ہے)