پنجاب کا بدلتا کلچراور قدریں

August 04, 2021

ڈی جی خان پاکستان کا مرکزی مقام ہے۔ محبتوں کا ہالہ اس کے چہار جانب پھیلا ہوا ہے۔ تمام صوبوں سے اس کا رابطہ اسے اہمیت کا حامل بناتا ہے۔ اِردگرد کی ہوائیں اور صدائیں جب اس مٹی کو چھوتی ہیں تو اپنے جذبوں اور رنگوں کا لمس چھوڑ جاتی ہیں۔یہ مختلف رنگ اس دھرتی کے وسیع کینوس پر جلو گر ہوتے ہیں تو دلفریب تصویر وجود میں آتی ہے جس کا ظاہری آنکھوں سے بھی دیدار کیا جاسکتا ہے اور باطنی سے بھی۔ اس تصویر میں جمالیاتی دلکشی کے علاوہ ہم آہنگی، ایثار،اخوت اور احترام انسانیت کا احساس اسے آفاقی حیثیت دیتا ہے۔ڈی جی خان کا کلچر عجب دلکشی اور رنگا رنگی کا حامل ہے۔ یہ ایک ایسے گلدستے کی مانند ہے جس میں پورے ملک کے کلچر کے ثقافتی رنگوں کے پھول مہکتے ہیں۔ اس زمین کے وہ باسی جو خود کو فطرت سے ہم آہنگ رکھتے ہیں، مصنوعی خلاؤں میں معلق رہنے کی بجائے اپنی زمین،پہاڑوں اور فضاؤں سے جڑت بنائے رکھتے ہیں، ان سے مکالمہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ذات پر زمین اپنی فیاضیاں نچھاور کر کے انھیں خاص کر دیتی ہے۔حکومت پنجاب کی مسند ایک درویش صفت انسان کو عنایت ہوئی جو ربی فیصلہ تھا،صوفیا کی شاعری کے پیغام کو مقصدِ حیات بنا کر چلنے والے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کی سب سے بڑی اچھائی یہ ہے کہ اس نے کبھی کیچڑ اچھالنے والوں کو پلٹ کر جواب نہیں دیا بلکہ اِخلاص سے وہ تمام کام سر انجام دینے میں مگن ہیں جو بظاہر عالمی سطح کے نہ ہوں مگر ان کی افادیت سے ہر فرد مستفید ہو رہا ہے۔

پنجاب میں پچھلے تین سال کے دوران کافی غیر روایتی چیزیں ہوئیں جو بظاہر اتنی اہم بھلے نہ نظر آئیں لیکن یہ دور رس نتائج کی حامل ہیں۔ مثلاً ماحولیات اور جنگلات کے حوالے سے بہت سے اہم اقدام کئے۔یہ ایسے کام ہیں جن کا اثر پورے ماحول اور ہر فرد پر پڑتا ہے،درخت ہماری زندگی میں خوشی اور خوبصورتی کی علامت ہیں۔ جس طرح صوفی دلوں کی طہارت کرتے ہیں اسی طرح درخت ماحول کو کثافتوں سے پاک کرکے زندگی کو سرشاری عطا کرتے ہیں۔ جنگلات کی کمی موسم کی شدتوں کو اس قدر بڑھا رہی تھی کہ زندگی کا سانس دوبھر ہو رہا تھا۔ پاکستان کے مرکز اور ثقافتوں کی آماجگاہ سے سمبندھ کے باعث شروع سے تسلسل کے ساتھ کلچر کی ترویج کو ترجیح بنا رکھا ہے۔صوفیا کو ثقافتی ہیرو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دلوں کو موم کرنے کے لئے کلچر کو وسیلہ کرتے ہیں۔اس دھرتی کے عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کی آفاقی سچائیوں پر مبنی شاعری کا تمام انگ ثقافتی پیرہن میں مزین نظر آتا ہے۔ ان کی کلچر پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے پس پشت بھی یہی حقیقت پوشیدہ ہے کہ ثقافت کے ذریعے پنجاب اور پاکستان کے کھوئے رنگ واپس لائے جائیں۔ لوگوں کو اپنا کتھارسز کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔انھیں ہنسنے،کھیلنے اور جمالیاتی احساس کو متحرک کرنے والی تقریبات میں شرکت پر آمادہ کیا جائے۔ لاہور پاکستان کا دل ہے اور دل کا تعلق پورے وجود سے ہوتا ہے۔پچھلے تین سال میں لاہور میں ایسے ثقافتی پروگرام منعقد کئے گئے جو واقعتا لاہور کو پاکستان کا دل ثابت کرنے کی طرف بڑی پیش قدمی ہے۔مثلاً پنجاب میں پہلی بار پنجاب کلچر ڈے منایا گیا، بزدار صاحب خود بلوچ سردار ہیں مگر ان کے دل میں پورا پاکستان بسا ہوا ہے۔ انھیں پاکستان کی تمام مادری زبانوں اور دیسی کلچر سے شغف ہے اسی لیے پاکستان کی تمام مادری زبانوں کے حوالے سے خصوصی دن منائے گئے جو کہ مادری زبانوں کی اہمیت اور ان سے جڑی جداگانہ ثقافتوں کی ترقی و ترویج میں نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ یوں پنجاب ایک خاموش سماجی تبدیلی کی طرف بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ پاکستان نے بیس پچیس سال بہت سختی جھیلی ہے۔جب ہم پر ہماری ثقافت ممنوع کر دی گئی تو اس فضا نے ہماری صدیوں کی ثقافتی، اخلاقی اور انسانی اقدار کو شدید ٹھیس پہنچائی، ہمارا مزاج تبدیل کر کے رکھ دیا، ہمارا تعارف مجروح کر دیا گیا، ہماری شناخت بدصورت بنا دی گئی۔معاشرے پر مسلط یہ جبر یک مشت درست نہیں کیا جاسکتا مگر آہستہ آہستہ ٹریک پر لایا جاسکتا تھا۔ یوں اس گھمبیر مسئلے کو ایک طبیب کی طرح دیکھا گیا اور پھر اس کا حل تجویز کیا گیا کہ لوگوں کو منفی سوچ اور عمل کے رستے سے ہٹانے کے لئے نصیحتوں اور تقریروں کی بجائے ان کے اندر جمالیاتی سسٹم کو متحرک کر دیا جائے۔ ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں انہیں اپنی ذات کے اظہار کا موقع ملے۔ وہ فنون سے محظوظ ہوں، کھُل کر ہنسیں، کھل کر روئیں تاکہ دلوں کی میل دُھلے،وجود کی بھڑاس نکلے،اندر جمع دہشت گردی کا مواد تلف ہو، نظر کا آئینہ شفاف ہو اور وہ ان مثبت قدروں کی طرف بڑھیں جو زمانے کی ہوا نے اُن سے دور کر دی تھیں۔ اس کے لئے کلچر سے بڑا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اس بار پہلی بار پنجاب کی تاریخ میں کلچر کے فروغ کو اہمیت دیتے ہوئے اس کے لئے مختص بجٹ کو بڑھایا گیا ہے۔ نئے منصوبے شروع کئے گئے ہیں، آرٹس کونسل کی نئی شاخیں کھولی جا رہی ہیں۔ پہلے سے موجود ثقافتی اداروں کا دائرہ کار بڑھایا جارہا ہے۔یہ عمل لوگوں کی زندگیوں میں خوشی اور سرشاری کا باعث بنے گا۔ انسان جسم اور روح کا مرکب ہے اسے صرف مادی ضرورتیں تسکین نہیں دے سکتیں،اس کی جمالیاتی تسکین ہی اسے ایک مثبت اور حلیم انسان بناتی ہے۔ثقافتی اقدار کی بحالی اخلاقی اقدار کی سربلندی کا باعث بنتی ہیں۔یوں ثقافت کو وسیلہ کر کے پنجاب اپنی اصل کی طرف مائل ہو رہا ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے۔سردار عثمان بزدار خوش قسمت ہیں کہ خیر کے اس عمل میں خیال احمد کاسترو، محترمہ اِرم بخاری، راجہ جہانگیر انور اور ثمن رائے جیسی مثبت اور متحرک ہستیاں ہمہ تن ان کی سوچ کو تعبیر بنانے میں مگن ہیں۔