معاشرے میں رائج پدر شاہی نظام

August 04, 2021

ماہ نور خان

ہمارے معاشرہ میں ابھی بھی اکثر گھرانوں میںلڑکیوں کو پسند کی شادی کی اجازت نہیں ہے۔ ان کی مرضی کسی نہ کسی صورت میں سمجھوتے کی ایک شکل ہوتی ہے ۔یہ سمجھوتا کچھ معاملات میں عورت خود اختیار کرتی ہے ، جس کے پس منظر میں ماں باپ کی محبت اور گھر کی عزت کے ساتھ جذبہ شکر گزری کا عنصر نمایاں ہوتا ہےاور کچھ مواقع پر عورت کو مجبوراً سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔

والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی کی شادی کے فرض سے جلد از جلد سبکدوش ہو جائیں، اس لیے دوسرے یا تیسرے رشتے کو ہاں کی سند مل جاتی ہے۔ پھر عمومًا یہ دعا بھی رخصتی کے وقت دل کی گہرائیوں سے دی جاتی ہے کہ اس گھر سے اب تمہارا جنازہ ہی اٹھے۔شادی کے بعد عورت کو اولین فریضہ افزائش نسل سمجھتا جاتا ہے، جس کے ساتھ اضافی ذمہ داریوں میں شوہر کی خدمت، سسرالیوں کی نازبرداریاں، اولاد کی تربیت، اور گھر کی مکمل ذمہ داری بھی شامل ہوتی ہے۔ ذمہ داریوں کو بجا لاتے عورت کی عمر وقت کی رفتار کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کئی منازل طے کر جاتی ہے۔

اب تیس سال کی لڑکی اپنی پچپن سالہ ماں کی بہن دکھائی دیتی ہے۔کیا اس صورت میں مرد عورت کو قابل التفات سمجھے گا، جس مرد کی فطرت میں خوبصورتی کی طرف جھکاؤ کا مادہ شامل ہے۔اب یہ عورت مرد کے لیے صرف ایک ذمہ داری ہے۔ہنسی مذاق کا ذوق ختم، تفریح کے مواقع عید کے چاند کی طرح ہو جاتے ہیں۔عورت جسمانی طور پر تو بوڑھی ہو جاتی ہے لیکن کیا اس کا دل اس کی روح بھی بوڑھی ہوجاتی ہے؟ ہمارے سماج کے لامتناہی المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ عورت کے جذبات، خواہشات ، نفسیات اور ضروریات کو مسائل کی سند حاصل نہیں۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ گھر میں بیس سال تک بابا کی لاڈلی کہلائے جانے والی لڑکی شادی کے پانچ سالوں میں بابا کی لاڈلی کے منصب سے اتر کر خاندان چلانے والی بوڑھی کے درجہ پر فائز ہو جاتی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں عورت مرد سے آزادی نہیں چاہتی۔ بلکہ اپنے زندگی کے بنیادی حقوق کو ساتھ رکھتے ہوئے مرد کے ساتھ جینا چاہتی ہے۔ اس کے شانہ بشانہ زندگی کے سب رنگ دیکھنا چاہتی ہے۔پس مردوں پر لازم ہے کہ وہ تمام( جائز) خواہشات جو وہ اپنے لیے رکھتے ہیں ان میں خواتین کو بھی شامل کریں۔ صرف اچھا کما لینا ہی ذمہ داری نہیں اچھی اور پرمسرت زندگی کے لیے ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔