آزادی سے کھیلنا

August 05, 2021

فکر فردا … راجہ اکبردادخان
کسی بھی معاشرہ میں خداداد آزادی سے کھیلنا ایک غیرمعقول عمل ہے جہاں کھیل کے قوائد و ضوابط توڑنے سے غیر متوقع نتائج سامنے آتے ہیں اور لوگوں کو نقصان اٹھانے پڑتے ہیں۔ ہر کھیل خواہ وہ سیاست ہو، معاشی انڈیکس کے اتار چڑائو کا اندازہ لگانے کی بات ہو یا کرکٹ کا کھیل ہو اسی شکل میں کامیابی کی طرف بڑھ پاتا ہے جب اس سے جڑے بیشتر اقدامات کے اندر رہتے ہوئے قسمت آزمائی کی جائے اور کھیل میں شریک افراد ایک دوسرے کو تعاون فراہم کریں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تاریخی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں انتخابات اور کرکٹ دونوں حوالوں سے ان دنوں بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ’’ آزادی سے سیاست کرو اور آزادی سے کھیلو‘‘ دو ایسے نعرے ہیں جہاں ان دو کھیلوں سے منسلک لوگ دنیا بھر میں آباد کشمیریوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ آزادی سے سیاست کرو کا نعرہ بھی مخصوص جماعتوں کی حدود سے آگے نہیں بڑھ سکا کیونکہ ان انتخابات میں بھی ایک بار پھر کشمیریوں کے ایک بڑے طبقہ کو ووٹ دینے کا حق نہیں دیا گیا۔ عوام کی وہ تعداد جو کسی بین الاقوامی طور پر تسلیم کئے گئے طریق کار کے بغیر ایک یا دوسری طرف الحاق کا فیصلہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں متاثر ہوئے ہیں۔ انہیں اپنے حق رائے دہی سے محروم کر دینا ناانصافی ہے۔ حق رائے دہی دیئے جانے کی صورت میں کشمیری آبادی کا یہ حصہ بھی روزمرہ کے معاملات کے حوالہ سے اپنی رائے دینا چاہتا ہے مگر ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔ ان حالات میں کشمیریوں کا یہ طبقہ درست طریقہ سے یہ آواز بلند کر رہا ہے کہ اسکی رائے دہی کی آزادی سے کھیلنا درست نہیں؟ گلگت بلتستان کے حوالہ سے نیا آئینی ڈھانچہ بھی تیار ہو چکا ہے۔ آزاد کشمیر انتخابات میں پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں نے مسئلہ کشمیر پر بہت کم بات کی ہے۔ حالانکہ ماضی قریب تک بیشتر جماعتیں یک زبان ہوکر پوری ریاست کے الحاق پاکستان کی داعی رہی ہیں۔ اگر ہمارا سیاسی کلچر کشمیر کے الحاق پاکستان سے صاف ہو جائیگا تو سال میں ایک دو بڑ اجتماعات میں کشمیر پر بات کرنے سے مقبوضہ کشمیر آزاد نہیں ہو پائیگا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ حقیقت پاکستانی اور کشمیری عوام پر واضح ہو رہی ہے کہ ریاست اس مسئلہ کے حل کے حوالہ سے ایک دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے۔ دوسری طرف بھارت ہر آئے دن آزاد کشمیر معاملات پر جارحانہ رویہ اختیار کر رہا ہے۔ کشمیر پریمیئر لیگ ٹورنامنٹ کے حوالہ سے جب بھارتی اعتراضات سامنے آتے ہیں اور ہماری تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں تو اپنی نااہلیوں پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ کشمیر پریمیئر لیگ کے نام سے مظفرآباد میں ٹورنامنٹ ایک ایسا معاملہ تھا جس پر اعلان سے قبل تمام پہلوئوں پر غور نہیں ہوا۔ بین الاقوامی کھلاڑیوں کی سیکورٹی سے لیکر ان کی شرکت کو یقینی بنانے سے ہی ہمارے خواب حقیقت کا روپ دھار سکتے تھے۔ اگر دفتر خارجہ، سیکورٹی ایجنسیز اور دیگر ضروری ادارے ان بورڈ ہوتے تو یہ منصوبہ اس طرح تیار ہوجاتا جس میں تمام اعتراضات سے نمٹنے کی صلاحیت ہوتی اور قوم کو بھارتی اعتراضات کے نتیجہ میں خفت نہ اٹھانا پڑتی۔ ہم کئی حوالوں سے گھٹنے کے بل چلنے سے پہلے دوڑنے کی خواہشات میں اپنے آپ کو زخمی کر لیتے ہیں۔ بھارتی دبائو میں غیرملکی کھلاڑیوں کا اس ٹورنامنٹ میں نہ آنا ہماری ناکامی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا تاحال کوئی بین الاقوامی حل سامنے آیا ہی نہیں اوریہاں ایک حصہ کو صوبہ بنا دیا گیا ہے اور وزیراعظم کےحالیہ اس اعلان کے بعد کہ اگر کسی بین الاقوامی انتظام کے تحت آزاد کشمیر کے لوگ الحاق پاکستان کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ ریاست کے اس حصہ کے لوگوں کو یہ حق دین کیلئے تیار ہیں کہ وہ ایک اور ریفرنڈم کے ذریعہ خودمختار رہنے کا آپشن اختیار کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تین جنگوں اور پچھلے کئی سالوں کی بھرپور سفارتکاری کے باوجود بھارت کشمیر پر بات کرنے کیلئے تیار نہیں لہذا کسی یواین ریفرنڈم کے ذریعے الحاق پاکستان ہونا ناممکن ہے کیونکہ ان انتخابات میں صوبہ بننے پر بات نہیں ہوئی اس لئے اس مسئلہ کو نہ چھیڑنا ہی بہتر ہے۔ ورنہ یہ بھی آزادی سے کھیلنے کی بات ہوگی۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ کسی بین الاقوامی ریفرنڈم کے بعد (الحاق کی صورت میں) وزیراعظم کی یہ پیشکش اپنا جواز کھو بیٹھتی ہے۔ ہاں اگر وزیراعظم کا مقصد اس پیشکش کے پیچھے یہ ہے کہ وہ آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے پر ریفرنڈم کے ذریعہ محدود خود مختاری کا آپشن دینے کو تیار ہیں تو بات ریاست کے اس حصہ کیلئے قابل فہم ہے۔ قابل قبول ہونا دوسری بات ہے پاکستانی اخبارات میں آزاد کشمیر کو بھارتی آئین کی شرائط 370 اور 359 طرز کا سٹیٹس دینے پر بھی بحث و مباحثہ ہو رہا ہے صوبہ بننے کی صورت میں ریاستی تشخص بھی مجروح ہوگا۔ ریاست کا اپنا ثقافتی کلچر جس میں برادریوں کا ایک دوسرے کو باعزت مقام دینا اور لوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھنے کی عادات شامل ہیں محفوظ رہ نہ سکیں گے۔ آزاد کشمیر کو ترقی موجودہ سیٹ اپ میں بھی دی جاسکتی ہے۔ تادم تحریر وزیراعظم کیلئے نام فائنل نہیں ہوسکا۔ شنید میں ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے فائنل نام پر ارکان اسمبلی سے فرداً فرداً رائے لی ہے۔ واقفان حال کے مطابق دوڑ میں بیرسٹر سلطان محمود آگے ہیں اور حق بھی بیرسٹر صاحب کا ہی بنتا ہے۔ آج آزاد کشمیر میں سب سے بڑا مباحثہ اس حوالہ سے یہ ہے کہ کیا یہ اسمبلی آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے پر تیار ہو جائیگی؟ مشترکہ حزب اختلاف کے پاس بیس ووٹ ہیں مسلم لیگ (ن) بظاہر صوبہ بنائے جانے کی مخالف نظر آتی ہے تاہم انکی اکثر پالیسیاں مختلف بیانیوں کے باعث باہمی اختلاف کا شکار ہیں۔ جب انتخابات میں کشمیر پر گائیڈ لائنز نہیں دی جاسکیں تو اب بات کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکےگا۔ پیپلزپارٹی مفاہمت کی پالیسیوں کی وجہ سے صوبہ کے ایشو اور دیگر اہم امور پر زیادہ جارحانہ رویہ اختیار نہیں کریگی اور پی پی اور ن اتحاد اسمبلی چار دیواری تک ہی محدود رہے گا۔ اہم معاملات پر بھی قانون سازی کیلئے پی ٹی آئی کے پاس کافی ممبران ہیں۔ لہذا حکومت کو ریاست کے اس حصہ میں بہتری لانے کے اقدامات اٹھانے کیلئے دیر نہیں کرنی چاہئے۔ بجٹ توپچھلی حکومت پیش کر گئی ہے تاہم تمام حلقوں کیلئے ذرائع مواصلات، ہسپالوں کی حالت بہتر کرنے کے لئے اور گلی محلوں کے مسائل سے نمٹنے کیلئے فنڈز کی ایک معقول رقم جلد ریلیز کی جائے تاکہ ’’تبدیلی آچکی ہے‘‘ کا حقیقی نعرہ لوگوں کے درمیان پہنچ جائے۔