سچ، جھوٹ اور کشمیر

August 05, 2021

حرف و حکایت … ظفر تنویر
بہت دعوے کئے جارہے ہیں کسی نہ کسی شکل میں ہر روز ایک نیا اعلان کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو جلد ہی ایک ایسے ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کر دیا جائے گا جہاں سب کو انصاف بھی ملے گا اور زندہ رہنے کیلئے باعزت روزگار بھی اور پاکستان کے عوام ہیں کہ اپنے حکمرانوں کے بلند بانگ دعوئوں سے ابھی تک امید کا دامن پکڑے ہوئے ہیں۔ ملکی سطح پر کروائے گئے بعض حالیہ سرویز کے مطابق عوامی مقبولیت کے اعتبار سے وزیراعظم دوسرے لیڈروں کی نسبت کہیں آگے ہیں، وزیراعظم کی طرف سے مسلسل یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ وہ سابقہ حکومتوں کے ڈالے ہوئے گند کو صاف کرکے جائیں گے اگر وزیراعظم کی مقبولیت ظاہر کرنے والے یہ سروے ٹھیک ہیں اور اگر وزیراعظم کے تمام وعدے و عہد، اعلانات اور مستقبل کے سنہری خواب سبھی صحیح ہیں تو وزیراعظم گزشتہ 73 برس کا وہ گند بھی صاف کیوں نہیں کردیتے جو جھوٹ بول بول کر قوم کے جسم میں دوڑنے والے لہو میں شامل کر دیا گیا ہے، خاص طور پر کشمیر کے بارے میں وہاں کے لوگوں کے بارے میں اور کشمیر کی تاریخی حیثیت کے بارے میں صرف ایک منٹ کیلئے مان لیجئے کہ آزاد کشمیر کے باسیوں اور پاکستان میں آباد کشمیری مہاجرین نے 25 جولائی کے عام انتخابات میں عمران خان کو ووٹ دیتے ہوئے ان سے انصاف کی امید باندھ لی ہے وہ انصاف چاہتے ہیں تو کسی زمین جائیداد یا کسی بھی دوسرے مالی منفعت کیلئے نہیں بلکہ سچ جاننے کیلئے سچ سننے کیلئے اور سچ کی لاج رکھنے کیلئے۔ جناب وزیراعظم کنٹرول لائن کے دونوں طرف بسنے والے سچ سننے کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے نڈھال ہوگئے ہیں اور یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ ان کا وکیل پاکستان آج بھارتی آئین کے جس آرٹیکل (370) کی بحالی کا مطالبہ کر رہا ہے وہ خود اس کا سب سے بڑا مخالف رہا ہے۔ پچاس کی دہائی میں جب شیخ عبداللہ اور نہرو بات چیت کے نتیجہ میں بھارتی آئین میں ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تو کشمیریوں سے زیادہ اس کی مخالفت پاکستان نے کی اور یہ مخالفت اتنی شدت اختیار کر گئی کہ شیر کشمیر شیخ عبداللہ کو راتوں رات اپنی ہی قوم کا غدار قرار دے دیا گیا۔ جناب وزیراعظم ماضی کا گند صاف کرنا ہے تو تسلیم کیجئے کہ سابقہ حکومتوں نے ایسا کرتے ہوئے گناہ کیا ہے لیکن اگر ایسا نہیں کہا جاسکتا تو پھر تسلیم کیجئے کہ بھارتی آئین کی ان شقوں کو پاکستان کی مرضی اور مطالبہ پر ختم کیا گیا ہے۔ 25 جولائی کو لوگوں نے جس طرح آگے بڑھ کر آپ کے امیدواروں کو کامیاب کیا ہے (اگر ایسے ہی ہے) تو پھر ان لوگوں کا اتنا تو حق بنتا ہی ہے کہ ان سے جھوٹ نہ بولا جائے، کشمیر کے بارے میں تو ہم نے (ہماری سابقہ حکومتوں) طرح طرح کے جھوٹ گھڑے ہوئے ہیں حالانکہ ہم نے خود سلامتی کونسل میں خود کو ایک جارح فریق کے طور پر تسلیم کروا رکھا ہے اس وقت کی حکومت پاکستان نے تو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ سے کشمیر کی حیثیت کے بارے میں ’’جوں کا توں‘‘ (Standstill) معاہدہ کر رکھا تھا لیکن ہمارے بعض حکمرانوں کی حوس نے اس معاہدہ کے پرخچے اڑاتے ہوئے ریاست میں قبائلی پٹھان داخل کردیئے، جناب وزیراعظم قوم کو حقیقت بتایئے سچ بتایئے کہ ہماری اس غلطی کی ہی وجہ سے سلامتی کونسل نے بھارت کی بجائے ہمیں جارح قرار دیا اور اسی لئے اپنی قرارداد میں ہم پر زور دیا کہ ہم آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان سے اپنی تمام افواج نکالیں جبکہ بھارت کی فوج کا کچھ حصہ ریاست میں رکھنے کا کہا گیا۔ جناب وزیراعظم پاکستان کے عوام لوگوں کو بھی کشمیر سے بہت لگائو ہے بہت پیار ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کروڑوں عوام بھوک اور بیماری قبول کرتے ہوئے اس لئے ایٹمی قوت پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتےہیں کہ انہیں اس کے ذریعہ اپنے کشمیر کی مکمل آزادی کی امید رہتی ہے لیکن وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ 73 برس میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اس خط میں رائے شماری کیوں نہیں ہوسکی اور ہم اس عرصہ میں صرف بھارت کو ہی الزام دیتے رہے لیکن اب وہ سچ جاننا چاہتے ہیں اور سننا چاہتے ہیں کہ یہ رائے شماری اس لئے بھی نہیں ہوسکی کہ قرارداد پر پہلی شق کو پورا کرنے کیلئے پاکستان نے مفتوحہ علاقوں سے اپنی افواج نہیں نکالیں، سچ سننے کی خواہش صرف ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کی ہی نہیں برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے ڈیڑھ ارب انسانوں کی بھی ہے جو بھوک، بیماری اور افلاس کا محض اس لئے شکار بنا دیئے گئے ہیں کہ دونوں طرف کے حکمرانوں نے کبھی بھی اپنے عوام کا نہیں سوچا اور اگر کبھی سوچا تو صرف اپنی چوہدراہٹ کا۔