سندھ میں ایک لاکھ سے زائد اشتہاری ملزم

August 08, 2021

سندھ میں امن و امان کی صورت حال کو مستقل بنیادوں پر بہتر بنانے ، عوام کی جان و مال کا تحفظ اور امن و امان کی فضاء کو بحال رکھنا حکومت اور پولیس کی اولین ترجیح ہے ، اگر سندھ میں جرائم کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو سکھر ریجن اغوا برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں کی انڈسٹری بن چکا ہے، اس ریجن میں سب سے زیادہ سنگین جرائم ہوتے ہیں اور سکھر ریجن کے بارے میں ایک سینئر پولیس افسر نے حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس ریجن میں 30 سے 35 ہزار اشتہاری ملزمان پولیس کو مطلوب ہیں اور مجموعی طور پر سندھ میں اشتہاری ملزموں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔

صوبے میں پولیس کو مطلوب اشتہاری ملزمان شاید پولیس نفری سے بھی زیادہ ہوں، آئی جی سندھ کے اپنے ضلع شکارپور میں جب ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے فہرست مرتب کی، تو 8 ہزار سے زائد ایک ہی ضلع شکارپور میں ہیں، جب کہ سکھر ریجن کے کچے کے علاقے اور جنگلات جو کہ ڈاکووں کی محفوظ پناہ گاہیں اور جنت تصور کئے جاتے ہیں، سکھر ریجن میں غیر قانونی اور جدید ترین اسلحہ جو کہ پولیس کے پاس بھی نہیں ہے، وہ بڑی تعداد میں موجود ہے۔ اس ریجن میں چھوٹے بڑے غیر قانونی اسلحے کی تعداد ہزاروں کی تعداد میں بتائی جاتی ہے ، خاص طور پر ڈاکووں کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گنز، راکٹ لانچرز، جی تھری، کلاشنکوف سمیت دیگر چھوٹے بڑے ہتھیار بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

حکومت اور پولیس کو اب سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ ڈاکوؤں کے پاس اتنی بڑی تعداد میں جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے، کون سے عناصر پہنچاتے ہیں۔ چند ماہ سے ڈاکووں کے خلاف کشمور ، شکارپور اور سکھر میں آپریشن جاری ہیں، جس کے دوران خاص طور کشمور ضلع میں پولیس اور ڈاکوؤں میں گزشتہ کئی ماہ سے مقابلے ہورہے ہیں اور کشمور پولیس کمانڈر ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے ایک حکمت عملی کے ذریعے مقابلوں میں ڈاکووں کا بہت زیادہ اسلحہ استعمال کروایا اور کشمور کے ساتھ دو ماہ قبل شکارپور ایس ایس پی کا چارج لینے والے تنویر حسین تنیو نے بھی ڈکوؤں کے گرد گھیرا تنگ کرکے ان کی رسد کو توڑا سکھر میں کچے کے علاقوں کی ناکہ بندی کی گئی تینوں اضلاع خاص طور پر لاڑکانہ ریجن میں چند ماہ کی کچے میں آپریشن کی صورت حال کے بعد پولیس ذرائع کے مطابق شکارپور، کشمور اور سکھر کے کچے میں ڈاکووں کو اپنا اسلحہ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب گولے گولیاں اور دیگر اسلحہ ان تک پہنچانے والے راستے ان تینوں اضلاع کے آپریشن کمانڈرز نے بند کردیے ہیں۔ کشمور شکارپور، سکھر اور کے ایس ایس پی اب دفتر سے زیادہ کچے میں رہتے ہیں۔

اس ناکہ بندی کی خود نگرانی کررہے ہیں، کیوں کہ ان تین اضلاع میں اتنے خطرناک بدنام ڈاکو موجود ہیں ، جن پر ڈیڑھ کڑور، متعدد پر ایک کڑور، کئی پر پچاس لاکھ اور درجنوں ڈاکووں پر 5 سے 30 لاکھ تک ان کے سروں پر انعامی رقم رکھی گئی ہے، ان میں سب سے زیادہ ڈاکو کشمور پھر شکارپور اور کچھ سکھر و گھوٹکی اضلاع کے کچے میں موجود ہیں، جن کی وڈیوز متعدد مرتبہ جدید ہتھیاروں کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔ پہلے ڈاکووں کے خلاف دریا میں پانی کی سطح بلند ہونے پر ختم کردیا جاتا تھا اور ہر مرتبہ پانی ڈاکووں کو فائدہ دیتا تھا ۔

اس مرتبہ ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہونے کے حوالے سے پولیس نے مکمل بندوبست کرلیا ہے، پانی کے آنے سے اب پولیس کو فائدہ ہوگا، سندھ میں سکھر ریجن کے جنگلات اور کچے کے علاقے انتہائی مشکل ہیں خاص طور پر شکارپور، کشمور، سکھر اور گھوٹکی اضلاع شامل ہیں۔ شکارپور اور کشمور میں پولیس نے نامساعد حالات اور کم سہولیات کے باوجود ایک موثر اور کام یاب آپریشن جاری رکھا ہوا ہے، جس کے باعث اب ڈاکووں کو بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔

ان دونوں اضلاع میں ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو خود آپریشن کی سربراہی کررہے ہیں اور ان اضلاع سے نو گو ایریا بڑی حد تک ختم کردئیے گئے ہیں، کئی بدنام انعام یافتہ ڈاکووں کو مارا گیا ہے، جب کہ گھوٹکی ضلع میں پولیس کی گرفت کمزور بلکہ انتہائی کمزور دکھائی دیتی ہے، گھوٹکی کچے میں آج بھی ڈاکو راج قائم ہے، جس طرح کشمور اور شکارپور میں تجربہ کار پولیس افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔

اس طرح وزیر اعلی سندھ اور آئی جی سندھ کو نہ صرف گھوٹکی بلکہ سکھر رینج کی سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے، ڈی آئی جی عبداللہ شیخ ، ڈی آئی جی خادم حسین رند، ڈی پآئی جی عرفان بلوچ جیسے افسران سندھ پولیس کے پاس موجود ہیں، جو سینئیر اور تجربہ کار افسران ہیں اور اینٹی ڈکیت آپریشن کا خاص تجربہ رکھتے ہیں، حکومت اور پولیس چیف کو کشمور سے گھوٹکی تک ایک مضبوط چین بنانی ہوگی اور اس حوالے سے غور کرنا ہوگا۔

ایس ایس پی سکھر عرفان سموں اس چین میں فٹ ہیں، کچھ سکھر رینج کی کچھ تبدیلیاں صورت حال کو بدل سکتی ہیں، جس کی مثال لاڑکانہ رینج ہے، سکھر ریجن لاڑکانہ اور سکھر رینج پر مشتمل ہے جرائم اور ڈاکووں کے حوالے سے لاڑکانہ رینج زیادہ مشکل ہے، لیکن ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ جو کچے کے علاقوں میں خود پہنچ کر اکثر پولیس جوانوں کے ساتھ آپریشن میں حصہ لیتے ہیں،ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں پورا دن گزارتے ہیں، جس سے جوانوں کا مورال بلند ہوتا ہے اور کم وسائل میں زیادہ نتائج ایک بہترین ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔

کچے کے جنگلات کشمور شکارپور، سکھر اور گھوٹکی تک زیادہ خطرناک ہیں اور سکھر رینج میں لاڑکانہ جیسا ٹیم ورک دکھائی نہیں دیتا، اس لئے آپریشنل چین کو مضبوط بنانے اور ایک بہترین ٹیم ورک کے لئے کچھ تبدیلیاں ناگزیر ہیں دوسری جانب حکومت اور آئی جی سندھ پولیس کو اشتہاریوں کو قانون کی گرفت میں لانے اور سکھر ریجن سے غیر قانونی اسلحہ برآمد کرانے کے لئے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی، کیوں کہ سندھ میں ایک لاکھ سے زائد اشتہاری پولیس سے بچنے کے لئے کچے کے علاقے میں پہنچ جاتے ہیں اور جرائم کی دنیا آباد کرتے ہیں، جس سے جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا ہے، ایک پولیس افسر کے مطابق اشتہاریوں میں زیادہ تعداد قتل کے واقعات میں ملوث ہوتی ہے۔ اشتہاریوں اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے والوں کے لئے حکومت اور پولیس چیف کسی ایسی پالیسی کو تشکیل دیں، جس کے تحت انہیں رضاکارانہ طور پر سرنڈر کرایا جاسکے اور پھر وہ اپنے کیسز کا عدالتوں میں سامنا کریں۔

پولیس کی جانب سے ان کی جائز رہنمائی کی جائے اور اگر کسی کو قانونی مدد کی ضرورت ہو تو فراہم کی جائے۔ ایسی صورت میں متوقع ہے کہ بڑی تعداد میں اشتہاری سرنڈر کرکے اپنے کیسز کا سامنا کریں اور سزا کے بعد ایک اچھا شہری بن کر معاشرے میں زندگی گزار سکیں، سابق آئی جی سندھ سید کلیم امام جو اس وقت آئی جی موٹر وے ہیں، انہوں نے آئی جی سندھ کے طور تعیناتی کے دوران سندھ میں جرائم کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں کو بلا معاوضہ قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے لیگل ہیلپ پالیسی کا آغاز کیا تھا، پولیس کے اس اقدام کے باعث ابتداء میں ہی بڑے اچھے نتائج ملے۔

کشمور ضلع سے اس کا آغاز کیا گیا اور کشمور سمیت دیگر اضلاع میں ملزمان نے جرائم کی دنیا کو خیر باد کہہ کر خود کو پولیس کے سامنے پیش کردیا تھا۔ سرینڈر فار جسٹس پالیسی کے تحت بلا معاوضہ قانونی امداد کی فراہمی کے لئے ریوالونگ فنڈ قائم کیا گیا۔ سید کلیم امام نے قبائلی جھگڑوں کے خاتمے اور ملزمان کو سرینڈر فار جسٹس کی پالیسی کے تحت بلامعاوضہ قانونی امداد کی فراہمی جیسے اقدامات کو سود مند قرار دیا تھا ، آج بھی اس پالیسی پر نظر ثانی یا کوئی اور ایسی پالیسی جو جرائم پیشہ ، اشتہاری اور روپوش ملزمان کو سرنڈر کراس کے اس پر غور کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ اشتہاریوں میں بڑی تعداد میں ایسے ملزم بھی ہوں گے، جنہیں پولیس نے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا ہوا ہوگا۔

جب یہ لوگ کسی بھی ایسی حکومت یا پولیس کی پالیسی کے تحت سرنڈر کریں گے، تو ان کے اچھا شہری بننے سے خاندان پر مثبت اثرات پڑیں گے اور اشتہاری کچے کی جرائم کی دنیا چھوڑ کر پولیس کے سامنے پیش ہوں گے، تو پولیس کی معاونت سے وہ اپنے مقدمات کا سامنا کرکے جب معاشرے میں آئیں گے، تو یقینی طور پر ایک اچھا شہری بن کر آئیں گے۔ اس سے جرائم کی دنیا ویرانی کی طرف جائے گی۔اس طرح پولیس مزید بہتر انداز میں عوام کی خدمت کرسکے گی، جو بھی اشتہاری ملزم خود کو پولیس کے حوالے کرے، ان کی قانونی معاونت کی جائے۔ پولیس کی جانب سے نہ صرف وکیل کا انتظام کیا جائے گا ، بلکہ غریب ہونے کی صورت میں ان کی مالی مدد بھی کی جائے۔

اس طرح کی پالیسی سے اشتہاریوں کی تعداد اور جرائم میں کمی کے ساتھ پولیس کی مشکلات بھی کم ہوں گی، جب کہ غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی کے لئے کسی بھی طرح کی پالیسی جو آئین قانون کے مطابق ہو متعارف کرائی جائے، بصورت دیگر پولیس جدید ہتھیاروں سے لیس کرکے آپریشن کے ذریعے غیر قانونی اور جدید طرز کے خطرناک ہتھیار برآمد کرائے جائیں، کیوں کہ یہ بات متعدد مرتبہ پولیس کے ایڈیشنل آئی جی سطح کے افسران بھی کہہ چکے ہیں کہ سکھر ریجن میں خاص طور شکارپور اور کشمور میں ڈاکووں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ موجود ہے، جس میں اینٹی ائیر کرافٹ گن، جی تھری، راکٹ لانچر اور دیگر جدید ہتھیار بڑی تعداد میں موجود ہے، جس کا عملی مظاہرہ ڈاکو متعدد مرتبہ پولیس پر حملوں کی صورت میں کر نقصان پہنچا کر کر چکے ہیں۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کی جانب سے لاڑکانہ ڈی آئی جی اور کشمور ایس ایس پی شکارپور پور ایس ایس پیز کی تبدیلیاں بہت فائدہ مند ثابت ہوئیں، ان افسران نے ڈاکووں سے کچے کے علاقوں اور جنگلات میں مقابلہ کیا لاڑکانہ رینج کے ڈئ آئی جی مظہر نواز شیخ اور ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ یا ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو نے دیگر بالا افسران کی طرح یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی کہ ڈاکووں کے پاس جدید اسلحہ ہے، بلکہ انہوں نے کچے میں ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ خود کمانڈ کرتے ہوئے کام یاب آپریشن کرکے کڑوروں روپے مالیت کی ہزاروں ایکڑ اراضی کشمور میں ڈاکووں سے خالی کرا کر ڈاکووں کی درجنوں پناہ گاہیں مسمار کرکے نو گو ایریا

ختم کردیے ہیں اور ان دونوں اضلاع میں یہ پہلا موقع ہے کہ پولیس نے عید کے دنوں میں بھی آپریشن بند نہیں کیا ۔ شکارپور اور کشمور اضلاع کے ایس ایس پیز اور ڈی آئی جی لاڑکانہ نے یہ ثابت کردکھایا کہ اگر حوصلے بلند ہوں بہتر حکمت عملی اور خود سربراہی کی جائے تو کام یابی ضرور ملتی ہے۔ ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ کی ٹیم کے کمانڈرز نے اپنے اپنے اضلاع میں پیشہ ورانہ فرائض احسن انداز میں ادا کرتے ہوئے جرائم کی سرکوبی اور پولیس کا مورال بلند کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کو امن و امان اور ڈاکو کلچر کے خاتمے کے لئے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی۔

سندھ میں بہترین لڑاکا پولیس افسران جو عوام سے محبت اور جرائم سے نفرت کرتے ہیں، وہ موجود ہیں، ان کی خدمات لینی چاہییں، ڈاکووں سے لڑنے والے کو اگر ڈی آئی جی ٹریفک لگا دو گے یا کسی سینئر افسر کو سی پی او میں بٹھا کر کسی جونئیر کو تعینات کیا جائے گا، تو نتائج بھی ویسے ہی ملیں گے۔ اس لئے حکومت اور پولیس چیف اشتہاریوں کو سرنڈر کرانے غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی کے لئے ایسی حکمت عملی مرتب کریں کہ جس سے یہ مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں اور کشمور سے گھوٹکی تک ڈاکووں کے خلاف آپریشن کے لیے مضبوط نیٹ ورک بنایا جائے جس طرح چند سال قبل پولیس نے صوبے میں مثالی امن و امان قائم کیا تھا، موجودہ حکومت کو ایک بار پھر وہ مثالی امن مستقل بنیادوں پر قائم کرنا ہوگا اور یہ اس صورت ممکن ہے کہ جب پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت، وزیر اعلی سندھ ، آئی جی سندھ ائین اور قانون کے مطابق کوئی مشترکہ حکمت مرتب کریں گے، جس طرح سابق آئی جی سندھ اور موجودہ پولیس کمانڈنٹ اسلام اکیڈمی اے ڈی خواجہ نے ڈاکو کلچر کے خاتمے اور بڑی حد تک مستقل قیام امن کے لئے کندھ کوٹ اور گھوٹکی کے درمیان برج منظور کروایا۔