کیا آپ کی عمارت صاف، شفاف اور تازہ ہوا کی حامل ہے؟

August 22, 2021

کورونا وَبائی مرض کے بعد ریئل اسٹیٹ کے شعبہ میں نئے رجحانات نے جنم لیا ہے اور گھر خریدنے میں دلچسپی رکھنے والے افراد اور خاندان اب اپنے پسندیدہ گھروں کو صاف و شفاف اور تروتازہ رکھنے کے لیے روایتی وینٹی لیشن اور ایئر فلٹریشن کی سہولیات سے کچھ آگے دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں: کورونا وبائی مرض نے لوگوں کو مجبور کردیا ہے کہ اب وہ اپنی صحت کے معاملے میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ احتیاط پسند ہوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کووِڈ۔19اور اس جیسے دیگر وبائی امراض پھیلنے کی جہاں دیگر کئی وجوہات ہوتی ہیں، ماحول کے ذریعے ان کا پھیلاؤ بھی ایک بڑی اہم وجہ ہے۔

امریکا کے شہر نیویارک کی بات کریں تو وہاں ریئل اسٹیٹ ڈیویلپرز اب نئی اپارٹمنٹ بلڈنگز کی تعمیر میں آنے والی ہوا کو تازہ اور صاف رکھنے کے لیے ’ہائی ایفیشنسی ایئر فلٹریشن سسٹمز‘نصب کررہے ہیں، جو ہوا میں شامل چھوٹے چھوٹے ذرات اور الرجن کو صاف کرنے کے علاوہ تقریباً تمام وائرس اور بیکٹیریا وغیرہ کو ختم کردیتے ہیں۔

ریئل اسٹیٹڈیویلپرز کی جانب سے یہ ایک بروقت اقدام ہے۔ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) نے رواں سال مئی کے آغاز پر ہی ملٹی فیملی ہاؤسنگ سے متعلق اپنے رہنما اصول جاری کیے ہیں۔ ان تجاویز میں دیگر کے ساتھ درج ذیل بھی شامل ہیں: ’’وینٹی لیشن سسٹم اَپ گریڈ کریں اور دیگر وہ تمام اقدام اٹھائیں جن کے ذریعے گھروں میں صاف اور شفاف ہوا پہنچنے کو یقینی بنایا جاسکے تاکہ عمارت کے اندر ممکنہ آلودہ ذرات داخل نہ ہوپائیں‘‘۔

نیویارک جیسے شہروں میں ریئل اسٹیٹ ڈیویلپرز، سی ڈی سی کی ہدایات سے آگے ہی چلتے ہیں۔ اس شہر میں گزشتہ دو سال کے عرصہ کے دوران بننے والی تمام عمارتوں میں صاف اور شفاف ہوا کے داخلے کو یقینی بنانے کے لیے وہ تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے گئے اور ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا گیا، جسے دو سال قبل کچھ لوگ مضحکہ خیز تصور کرتے تھے۔

مثال کے طور پر، اَپر ویسٹ سائیڈ کنڈومونیم بلڈنگ کے ہر اپارٹمنٹ کی ہوا کو روزانہ 13بار تازہ ہوا سے بدلا جاتا ہے۔ تازہ ہوا داخل کرنے کے لیے جدید ترین فلٹریشن سسٹم استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سسٹم میں ہوا الٹرا وائلٹ لائٹ سے گزار کر گھروں میں داخل کی جاتی ہے اور اس سے نمی کو نکالا جاتا ہے، جب کہ ہر گھر کے اندرونی درجہ حرارت کے مطابق اسے ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، گھروں کی انسولیشن پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، تاکہ گھر کے اندر کی ٹھنڈک یا گرمائش کا اخراج نہ ہو۔

مین ہٹن فائنانشل ڈسٹرکٹ میں جولی ریزیڈنشل ٹاور اس کی ایک عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ کووِڈ-19وَبائی مرض کے بعد ٹاور کے بلڈر نے اس کے ایئر فلٹرز کو ’کم از کم رپورٹنگ ویلیو‘ (MERV)جوکہ 7/8ہوتی ہے، سے اَپ گریڈ کرکے 13رپورٹنگ ویلیو کردی ہے۔ MERVریٹنگز کا اسکیل کم از کم 1 سے شروع ہوکر زیادہ سے زیادہ 16تک ہےاور زیادہ اسکیل کا مطلب یہ ہے کہ بلڈنگ کا ایئر فلٹریشن سسٹم ہوا میں شامل تمام ممکنہ آلودہ ذرات کو فلٹر کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

اَپر سائیڈ ویسٹ میں واٹر لائن اسکوائر ملٹی فیملی پروجیکٹ میںجدید ترینMERV-13اور MERV-14 ملٹی فلٹر سسٹمز نصب کیے گئے ہیں۔ اس طرح عمارت کے رہائشی اور ایمینٹی ایریاز میں صاف اور شفاف ہوا کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی یقینی بنائی جاتی ہے کہ لابی ایریا کی ہوا اپارٹمنٹس میں داخل نہ ہو اور ہر گھر کو ہر وقت ممکنہ طور پر صاف اور تازہ ترین ہوا پہنچائی جائے۔

روزہِل، مین ہٹن کا 45منزلہ انتہائی پرتعیش کنڈومنیم ٹاور ہے، جو 29ویں اور 30ویں اسٹریٹ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس عمارت کے تمام حصوں جیسے رہائشی، کامن اور ایمینٹیز وغیرہ میں الگ الگ صاف و شفاف اور تازہ ہوا فراہم کرنے کا سسٹم رکھا گیا ہے۔ یہاں ایئر فلٹرز MERV-15اسٹینڈرڈکے ہیں اور یہ ناصرف آلودہ ہوا کو عمارت کے اندر داخل نہیں ہونے دیتے بلکہ عمارت کے اندر موجود ہوا کو بھی ہر وقت ممکنہ آلودگی سے پاک کرتے رہتے ہیں۔ مزید برآں، ہِل روز ٹاور کے چاروں اطراف دیوار تعمیر کی گئی ہے اور فلور سلیب بنائے گئے ہیں تاکہ آلودہ ذرات عمارت کے اندر داخل ہی نہ ہوسکیں۔ ہوا کے گزر کو روکنے کے لیے یہ دیواریں اور سلیب ایک ہی فلور کے تمام ملحقہ یونٹس کے درمیان اور ہر فلور پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

تعمیراتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وَبائی مرض نے تعمیراتی صنعت میں کئی نئے رجحانات کو تیز کردیا ہے اور تازہ اور شفاف ہوا فراہم کرنے والے گھر، اسی رجحان کی ایک کڑی ہیں۔ چونکہ اب لوگ اپنی صحت کے بارے میں پہلے سے زیادہ فکرمند ہیں، ایسے میں توقع کی جاتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں زیادہ سے زیادہ لوگ ایسے اپارٹمنٹس کا انتخاب کریں گے۔

ہرچندکہ، جدید ایئر فلٹریشن کے آلات کی تنصیب اور اس کے مطابق عمارتیں ڈیزائن کرنے سے تعمیراتی لاگت بڑھنے کے امکانات ہیں لیکن لوگ صحت مند زندگی گزارنے کے لیے اضافی قیمت دینے سے گریز نہیں کریں گے اور آنے والے دنوں میں یہ رجحان پوری دنیا میں تیزی سے فروغ پائے گا۔