چہرہ کہ جیسے ایک صحیفہ ہو نُور کا...

August 29, 2021

تحریر: نرجس ملک

مہمان: انیشہ خان

عبایا/ اسکارفس : قواریر فیشن، میرمن

آرایش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی : عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

2004ء میں جب فرانس میں مسلمان خواتین کے برقع اوڑھنے پرشدید تنازعات کھڑے ہوئے، حجاب پر پابندیاں لگیں، پردے اور حجاب کے خلاف قوانین منظور ہونے لگے، تو عالمی ردّعمل کےطور پر اسلامی تحریکوں کے ایک اجتماع میںامّتِ مسلمہ کے ایک جیّد عالمِ دین، علّامہ یوسف القرضاوی نے 4ستمبر کے دن کو ہر سال کےلیےباقاعدہ طور پر ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ سے موسوم کردیا۔

بعدازاں،’’شہیدۃ الحجاب‘‘ مروۃ الشربینی (مصری نژادجرمن مسلمان خاتون) کو محض اس جُرم کی پاداش میں کہ وہ اپنی عِصمت و عِفّت کی حفاظت کے لیے حجاب اوڑھنا چاہتی تھیں، ایک بدبخت، سفّاک،جنونی کے ہاتھوں بَھری عدالت میںقتل کردینے کے واقعے نے اِس دن کی اہمیت و افادیت دوچند کردی۔ تب ہی آج دنیا بھر میں، دیگر عالمی ایّام کی نسبت اِس دن کا اہتمام کچھ زیادہ ہی عقیدت و احترام اور تُزک و احتشام سے کیاجارہا ہے۔

یہ دن چوں کہ دینِ اسلام کے ’’شرم و حیا‘‘ سے متعلق متعدّد احکامات و ارشادات خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’حیا‘‘ سے متعلق کئی بہت ہی پیاری احادیث کی روشنی میں ’’عالمی یومِ حیا‘‘ کے طور پر بھی منایا جاتا ہے، تو دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلم کمیونٹی بستی ہے، اِس دن کو نہ صرف یاد رکھا جاتاہےبلکہ اس کا بےحد احترام بھی کیا جاتا ہے اور صد شُکرکہ یہ یوم تاحال حقوقِ نسواں کےنام نہاد عَلم برداروں کی دست بُرد سے محفوظ ہے، تب ہی ہر طرح کے تنازعات سے بھی پاک ہے۔

دینِ اسلام میںحیاداری کا حُکم صرف عورت کے لیےنہیں، مَردوں کےلیےبھی احکامات موجود ہیں اور اِن کامقصد کم و بیش وہی ہےکہ جس کےلیے عورت پرپردہ لازم کیا گیا ہے۔ یعنی معاشرے میں استحکام و توازن رہے، بےحیائی کا چلن عام نہ ہو۔ اگر سورئہ نوراورسورۃ الاحزاب میںعورتوں کےلیےحُکم ہے کہ ’’اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اپنی عِصمتوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت دِکھاتی نہ پھریں، بجز اس کے کہ جوخود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔‘‘ اور ’’اے محمّدﷺ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اورمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔

یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘ تو ساتھ ہی بلکہ پہلے مَردوں کو حُکم دیا گیا ہے کہ ’’مسلمان مَردوں سے کہو، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی اُن کے لیے پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کریں، اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔‘‘ یوں تو قرآنِ کریم ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، لیکن ذرا سوچیں کہ کیا اگرصرف ان دو، چند سطری احکامات ہی پر امّتِ مسلمان کاربندہو جائے، تو دنیا سے کتنی برائیوں، عِلّتوں، بدکاریوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ صرف پاکستان ہی کےتناظر میں، پچھلے چند ایک ماہ کا جائزہ لےلیں، اِن احکاماتِ الٰہی پر عمل نہ سہی، اِن پر تیقّن ہی ہوتا تو کیا، عثمان مرزا، نورمقدّم اور یہ حالیہ عائشہ اکرم بیگ جیسے کیسز دنیا بھر کے سامنے ہمارا منہ کالا کرنے کا سبب بنتے۔

یہ جو ہم دن بہ دن پستی کے گڑھے میں گرتے ہی چلے جارہے ہیں، یہ درحقیقت دین سے دُوری ہی کا شاخسانہ ہے کہ یہاں ذرا کسی کے منہ سے دین و مذہب، شرم و حیا، تصوّرات و عقائد، اقدار و روایات کی کوئی بات نکلی نہیں، اور صنفی مساوات کےٹھیکے دار، روشن خیال لبرز پنجے جھاڑ کراُس کےپیچھے پڑے نہیں، خواہ وہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کا دعوے دار، سربراہِ مملکت ہی کیوں نہ ہو۔ اِک مہین سا وائرس لگ بھگ دو سال سے پوری دنیا کو ناک چنے چبوارہا ہے۔ عورت تو عورت، مَردوں کے منہ ڈھانپ دیئے ہیں، مگر تُف ہے، حضرتِ انسان پر۔ وہ کیا ہے کہ ؎ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ تو اب بھی حیا نہیں آئی، تو پھر آخر کب آئے گی۔

پیغمبرِ خدا حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد کہ ’’جب تم حیا نہ کرو، تو جو جی چاہے کرو‘‘ اِک پَل کو روح کپکپا کے رکھ دیتا ہے، مگر اپنے اردگرد نظردوڑائیں تو احساس ہوتا ہےکہ عملاً یہی ہو رہا ہے، قوم کے بیٹوں، بیٹیوں میں حیا ہی نہیں رہی، وگرنہ کیا آئے روز وحشت و حیوانیت کے ایسے دل خراش،جانکاہ واقعات سامنے آتے۔ سوشل میڈیا کے گٹر سےکیا کیا غلاظتیں نہیں اُبل رہیں۔ یو ٹیوبرز، ٹِک ٹاکرز نے انٹرٹینمنٹ کے نام پر ایسا گند مچادیا ہے کہ کھرے، کھوٹے کی پہچان ہی ختم ہوگئی ہے۔ فلمی اداکاروں کی طرح بےہودہ گانوں پر پرفارم کیا جاتا ہے۔

پرینکس کے نام پر سرعام گھٹیا ترین مذاق کیے جارہے ہیں اور پھر ایک نیا سلسلہ ’’کامن سینس کے سوالات‘‘ کا شروع ہوگیا ہے، جس میں زیادہ تر نوجوان لڑکیاں مائیک لے کر سڑکوں، بازاروں، پارکس میں گھومتی نظر آتی ہیں اور ہر عُمر کے مرد وخواتین سے ایسی اخلاق باختہ گفتگو کرتی ہیں کہ سُن کے شرم سے ڈوب مَرا جائے۔ مگر نہیں، یہی تو شخصی، صنفی آزادی ہے۔ آج صحیح معنوں میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ بےچارے حق گو، راست باز، شرفاء منہ چُھپاتے پِھرتے ہیں کہ کہیںجتّھوں کے جتّھے اپنی سو کالڈ فلاسفی کے ساتھ اُن پر پِل نہ پڑیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ حیا کے شہر کی ساری فصیلیں.....کُدالِ شَر سے ڈھائی جارہی ہیں۔

اللہ ربّ العزت کُل امّتِ مسلمہ (ہر مرد و زن) کو باحیا، باکردار و باحجاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کے بعد جو بہترین نعمت، تحفہ عطا کیا گیا ہے، وہ شرم و حیا کا زیور ہی ہے۔ اِسی بنیادی، اہم ستون پر پورے دینِ اسلام کی عمارت کھڑی ہے، لہٰذا اغیار کی اس ستون میںشگاف ڈالنے کی کوششکسی صُورت کام یاب نہیںہونی چاہیے۔

صائمہ بخاری کا ایک شعر ہے ؎ خمیر میرا اُٹھا وفا سے.....وجود میرا فقط حیا سے۔ تو 4 ستمبر ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کی مناسبت سے مزّین کی گئی ہماری اس بزم کو ہمارا ایک چھوٹا سا کارِ خیر جانتے ہوئے اس عہد کے ساتھ شرفِ قبولیت بخشیں کہ اس سے فیض یاب ہونے والا ہر فرد اِس روز کم از کم اِک بار تو اپنا جائزہ ضرور لےگا، محاسبہ کرے گا کہ وہ دین داری کی کس سطح، مقام پر فائز ہے۔ اللہ کرے ہمارے توسّط سے شرم و حیا، لاج و حجاب کی خوشبو بکھیرنے کا جو سلسلہ آغاز ہوا ہے، یہ دراز سے دراز تر ہو، قائم و دائم رہے۔