افغان تاریخ کے ’’کاش‘‘ اور ’’کیوں‘‘

August 25, 2021

معاہدہ ہوتا ہے

افغانستان اور افغانوں کی تاریخ حیرتوں کا سمندر ہے۔ اس کا جغرافیہ اور مزاج تاریخ میں جس تیزی سے اور جتنی مرتبہ تبدیل ہوا وہ بہت حیران کن ہے اور شاید دنیا کے کسی اور خِطّےنے اتنی سرعت سے یہ سب ہوتے نہیں دیکھا ہوگا۔تاریخ بتاتی ہے کہ افغانوں نے بیرونی حملہ آوروں کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا اور انہیں شکست فاش دی۔ تاہم ،تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ انہوں نے اپنوں کو بھی زیادہ دیرتک تخت پر برداشت نہیں کیا اور ہر تھوڑے عرصے بعد ان کا تختہ کرتے رہے۔

ان کی کم از کم دو، ڈھائی سو برس کی تاریخ میں کئی ایسے موڑآئےجب بہت کچھ بدل سکتا تھا،لیکن پھر ایسی انہونیاں ہوئیں کہ مورخین حیران رہ گئے۔مثلا کوئی کہتا ہے کہ کاش کہ احمد شاہ ابدالی اور رنجیت سنگھ نےفلاں قدم نہ اٹھایا ہوتاتو آج افغانستان اور افغانیوں کی حالت مختلف ہوتی،کاش نپولین کو شکست نہ ہوئی ہوتی تو برطانیہ وہاں جانے کی غلطی نہیں کرتا،کابل کا فرماں روادوست محمد بغاوت کے نتیجے میں تخت کابل پر قابض نہ ہوا ہوتاتو الیگزینڈر برنزکو اس کے پاس نہ بھیجا جاتا اوروہ کمپنی کی حکومت سے تعاون کا معاہدہ نہ کرتا،کاش افغانستان اس وقت تین ریاستوں میں بٹا ہوا نہ ہوتا، کابل، قندھار اور ہرات کے حکم راں مختلف نہ ہوتے اور شاہ شجاع اور دوست محمدکے لشکر آپس میں لڑ نہ رہے ہوتے تو رنجیت سنگھ پشاور باآسانی حاصل نہ کرپاتا اور احمد شاہ ابدالی کے خاندان کا سپوت شاہ شجاع کوہ نور ہیرے سمیت جان بچاتا ہوارنجیت سنگھ کے رحم و کرم پہ نہ ہوتا جس نے کم مائیگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معزول شاہ سے زبردستی کوہ نور چھین لیاتھا، کاش کمپنی بہادرنے اپنی فوج کے ساتھ شاہ شجاع کو واپس بھیج کر کابل کے تخت پر نہ بٹھا یا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش ظاہر شاہ کو نہ ہٹایا جاتا،کاش روس اور امریکا افغانستان میں داخل نہ ہوئے ہوتے، کاش سابق سوویت یونین سے لڑنے والے مجاہدین اس کے انخلا کے بعد آپس میں نہ لڑے ہوتے، کاش اشرف غنی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میزپربیٹھ جاتے،کاش امریکا اپنے انخلا سےپہلےافغانستان کے مسئلے کا کوئی دیرپا سیاسی حل تلاش کرلیتا،وغیرہ وغیرہ۔

دوسری جانب اس ضمن میں بہت سارے ’’کیوں‘‘ ہیں۔ مثلا تاریخ کا طالب علم یہ سوال کرتا ہے کہ جب شاہ شجاع کوکمپنی بہادر نے واپس کابل کے تخت پر بٹھا دیاتھاتو جیسے طالبان کو حالیہ دنوں میں بغیر مزاحمت کے کابل تک رسائی ملی بالکل اسی طرح کیوں ہر شہر سے افغان فوج غائب ہوتی چلی گئی تھی اور شاہ شجاع کی حکومت بحال ہونےپروہاں حالات اتنے پر سکون کیسے ہوگئے تھے کہ اس کے ساتھ آنے والی انگریز فوج کی اکثریت کو واپس بھیج دیا گیا تھا اورصرف چند ہزار فوجی کابل میں کیوںرہ گئے تھے۔

پھر اچانک ایک دن کابل میں شورش کیوں شروع ہوگئی تھی اورانگریز فوجی اپنے خدمت گاروں سمیت قلعے میں محصور ہونے پر کیوں مجبور ہوگئے تھے، کیوں انہوں نے دوست محمدکے بیٹے سےمعاہدہ کر کے واپس کوچ کرنے کی ٹھانی تھی،پھر معاہدے کے بر عکس انہیں دورانِ سفر کیوں ایک ایک کر کے مارا گیا تھا، اتنے برے انجام کے بعد کمپنی کی حکومت نے مواخذے کے لیے فوج بھیج کر دوبارہ کابل پرکیوں قبضہ کیا تھا اور اگر ایسا کرلیا تھا تو کابل کے بازار کوبہ طور سزاکیوں جلا یا تھا، دوست محمد کوواپس تخت پر کیوں بٹھایا تھا اور اس نے محض کچھ امداد کے عوض انگریز حکومت کا وفا دار رہنے کی ہامی کیوں بھری تھی، انگریزوں نے1878میں دوسری کوشش کیوں کی تھی اور سوائے میوند کے محاذ کے، افغان فوج کیوں ریت کی دیوار ثابت ہوئی تھی اور ایک دفعہ پھر ظاہری امن کے بطن سے اچانک ایسی شدید شورش نے کیوں جنم لیا تھا کہ برطانوی حکومت کے نمائندے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہی مقصد،یعنی وطن کی آزادی ،کے لیے طویل عرصے تک سوویت یونین سے لڑنے والے مجاہدین پشاور اور مکہ میں ہونے والے معاہدے تسلیم کرنےکے باوجود کابل میں حکومت سازی کے مسئلے پر کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے،وغیرہ وغیرہ۔

امن، مگر شرط شدید،کیوں؟

پھر افغانوں کی تاریخ میں جا بہ جا ایسے کاش اور کیوں ملتے ہیں۔ سلطان امیر تارجوڑبریگیڈیرکے عہدے سے پاکستان کی فوج سے ریٹائر ہوئےاور کرنل امام کے نام سے زیادہ جانے گئے، افغانستان میں مجاہدین کو تربیت دینے پر مامور ہوئےتو کہاجاتا ہے کہ ملا عمر سمیت ہزاروں مجاہدین اوربہت سے نام ورافغان کمانڈرز کا استاد ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔آئی ایس آئی کے ایڈیشنل ڈائر یکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اعلیٰ فوجی صلاحیتوں اور کارناموں کی بہ دولت ستارہ جرات،تمغہ بسالت،اور ستارہ امتیاز سے نوازے گئے ۔

گوریلاطرزِجنگ کےاس ماہر کو امریکاسے اعلیٰ اعزازات ملے،لیکن افغانستان پرحملےکےبعدانہوں نے امریکی پالیسی پر شدید تنقید کی۔ پھر وہ مشکوک حالات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہوں نے مغربی اخبارات اور چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ نیٹو فورسز افغانستان میں کبھی کام یاب نہیں ہوسکتیں اور ہرصورت میں انہیں طالبان سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔ ان کے طبع شدہ یک طویل انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ: ’’مجھے امیر المومنین ملا عمر سے ملاقات کے ایک سے زیادہ مواقعے ملے،ان کے دل کی بات معلوم کرنا آسان نہ تھا۔لیکن جب میں نے امریکی انتظامیہ سے طالبان کے مذاکرات کی بات کی تو انہوں نے کہا تھا،ہم لڑائی نہیں چاہتے، لیکن مذاکرات سے پہلے امریکا کو افغانستان سے نکلنا ہوگا۔

میں نے محسوس کیااگر امریکا کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش آئی تو طالبان بڑے دل کے لوگ ہیں وہ انکار نہیں کریں گے۔ طالبان کے سربراہ ملا عمر نے امریکا یا صدر حامد کرزئی سے کسی قسم کے مذاکرات کے امکان سے بھی انکار کیا ہے،جب تک دیگر شرائط کے علاوہ غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل نہیں ہو جاتا ۔ امریکی ملا عمر سے مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں لیکن وہ اپنی ناک بھی بچانا چاہتے ہیں۔ اس لیے پہلے تو امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن ملا عمر اور ان جیسے افراد سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کرتی رہیں۔

کسی نے ان سے پوچھا کہ کرنل امام بھی ملا عمر سے مذاکرات کرا سکتا ہے، تو انہوں نے ناک سکیڑتے ہوئے کہا، ہم کرنل امام سے بھی بات نہیں کریں گے ،لیکن اب وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں،مگر فیس سیونگ کے لیے اپنی شرائط بھی پیش کر رہے ہیں۔ ملا عمر اچھے آدمی ہیں ، وہ افغانستان میں جنگ نہیں امن چاہتے ہیں،لیکن وہ مذاکرات اپنی شرائط پر کریں گے۔ امریکا تو شکست خوردہ ہے اسے اپنی شرائظ پیش کرنے کا حق نہیں۔

اس سے قبل یہ خبر بھی آئی تھی کہ دبئی میں طالبان کے کچھ رہنماو ں کی اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہل کار سے ملاقات ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں آنے والے طالبان رہنماوں کو ملا عمر کی منطوری حاصل نہیں تھی،بلکہ ان میں ملا عمر کی شوری ٰکاکوئی رکن شامل نہیں تھا،اسی لیے تحریک طالبان افغانستان نے اقوام متحدہ کے نمائندے کے ساتھ دبئی میں ملاقات کی تردید کی ہے۔ ادھر صدر اوباما نے کہا ہے کہ طالبان کو مذاکرات سے انکار نہیں کرنا چاہیے‘‘۔

یہاں تاریخ کا طالب علم کچھ دیر رک کر یہ سوال کرتا ہے کہ جب قیامِ امن مطلوب تھا تو مذاکرات سے پہلے امریکا کے افغانستان سے نکلنے کی شرط میں اتنی شدت کیوں تھی؟ طالبان کے رہنماوں کو ملا عمر کی منطوری حاصل نہیں تھی تو انہوں نے اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہل کار سے ملاقات کیوں کی تھی،امریکا کو نکلنا ہی تھا تو وہ فیس سیونگ کے چکر میں کیوں پڑا تھا،آخر آج کون سا وہ وہاں سے عزت سے نکلا ہے؟ کاش ان ’’ کیوں ‘‘ کے حل پہلے تلاش کرلیے جاتے تو افغانیوں کے چند مزید سال تباہی اور بربادی کی نذر نہ ہوتے۔

کرنل امام کا کہنا تھا:’’ 1994ءمیں میری قندھار میں متعدد طالبان رہنماؤں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں ملا یار محمد،ملا محمد ربانی، ملا عبدالرزاق جیسی بہت اہم شخصیات بھی تھیں۔ یہ سب میرے اسٹوڈنٹ تھے اور بہت نام ور لوگ تھے ،مختلف لڑائیوں کے دوران اپنی جرات وشجاعت کا مظاہرہ کر چکے تھے۔مجھے یاد ہے غالباً1997ءمیں ایک مغربی جریدے نے میرے بارے میں لکھا تھا:

He pulled out Afghan zealests and religous students and gave them training,and they became taliban"(اس نے افغانستان بھرسے مذہبی عناصر اور دینی مدارس کے طلبا کو ڈھونڈنکالا ،انہیں تربیت دی اور یہی بعد میں طالبان بنے)یہ بات بڑی حد تک درست تھی۔میں نے یہاں آکر بریگیڈیر یوسف سے کہا تھا کہ مختلف پارٹی لیڈر جو بندے ٹریننگ کے لیے بھیجتے ہیں،یہ ٹھیک نہیں ،مجھے اجازت دیں کہ میں مدارس کے طلبا کو ٹریننگ دوں۔میرے تجربے میں آیا ہے کہ یہ بہت صحیح ٹریننگ کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں ان کو اکٹھا کرنے میں لگ گیااور یہ بہت عمدہ ٹریننگ لیتے رہے۔ اس وقت کس کو معلوم تھا کہ یہی لوگ آگے چل کر طالبان بن جائیں گے،تاہم اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ طالبان مجاہدین اور لیڈر شپ ان ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔مجھے بہت سے لوگوں نے’’بابائے طالبان‘‘کہا، لیکن میں خود کو ان کا خادم کہتا ہوں۔‘‘

اگر کرنل امام کا موقف درست مان لیا جائے اور اسے جنرل ریٹائرڈ ،نصیر اللہ بابر کے اس بیا ن سے ملایا جائے کہ طالبان ہمارے بچے ہیں تو پھر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کیوں یہ کہتے ہیں طالبان کو پاکستان نے نہیں بنایا تھا،ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں اوروہ ایک رد عمل کی پیداوار ہیں ۔کاش افغانوں سے متعلق ایسے متصاد بیانات نہ آئے ہوتے۔

برہان الدین ربانی، صبغت الله مجددی ، نبی محمدی

امیر یعقوب نے ایسا کیوں کیا؟

کہاجاتا ہے کہ درّہِ خیبر باغی، سر کش اور قاتل درہ ہے۔ یہ پشتون درّہ ہے اور اس کی جھاڑیاں اور پتھر بھی پشتون کے علاوہ کسی کو سکون اور آرام کی سانس سے گزرنے نہیں دیتے۔ یہاں سے فاتحینِ عالم خون کے آنسو بہاتے ہوئے نکلے ۔ دارایوش، سکندر اور چنگیز خان سے لے کر ہری سنگھ نلوہ اور انگریز سامراج تک یہاں سے ہانپتے کانپتے نکلے ۔لیکن پھر ایک ننگ روایات، ننگ قوم، ننگ وطن افغان حکم راں امیر شیر علی خان کے بیٹے امیر یعقوب خان نے گندمک کے مقام پر مئی 1879 میں ایک نوجوان برطانوی فوجی، میجر لوئی کیویگنری Louis Cavagnari کے ہاتھوں اس غیرت مند درّے کو ساٹھ ہزار پاؤنڈز سالانہ کے عوض کیوں بیچ دیا تھا۔نوجوان مؤرخ پیڈی ڈوچرٹی Paddy Docherty نے تاریخ کے اس موڑ پر پہنچ کر لکھا ہے:

Following upon Zoroastrians, polytheists, Vedic Brahmins, Hindus, Muslims and Sikhs, the great gateway to India was finally in Christian hands.

لیکن ابھی چالیس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ پشتونوں کی رگ حمیت پھڑک اٹھی۔ ستمبر کے مہینے میں تلواروں، پرانی بندوقوں اور لاٹھیوں سے پشتونوں نے برطانوی ریزیڈنسی پر حملہ کیا۔ ریزیڈنسی پر مامور افغان حفاظتی اہل کاروں سمیت ریزیڈنٹ سر لوئی کیویگنری کو قتل کیا اور تمام ریذیڈنسی کو آگ لگا دی۔

یہاں سوال یہ ہے کہ چالیس روز بعد ایسا کیا ہوا کہ اتنا شدید ردعمل سامنے آیا اور پہلے افغانوں نے اپنے حکم راں کو ایسا کرنے سے کیوں نہیں روکا تھا؟

باپ کو قتل کرکے اقتدار بیٹے کوسونپ دیا،مگر کیوں ؟

امیر دوست محمد خان نے، جس نے کابل کی حکومت 1826ء میں سنبھالی تھی، روس اور ایران سے تعلقات پڑھانا شروع کیے کیوں کہ سکھوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا تھا اور انگریزوں نے اپنی روایتی چالاکی کا ثبوت دیتے ہوئے سکھوں اور دہلی کے شاہ شجاع کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنا اثر بڑھانا شروع کیا۔ حالاں کہ دونوں انگریزوں کے بہ ظاہر دشمن تھے۔ شاہ شجاع کو انگریزوں نے کابل کے تخت کے سبز باغ دکھائے۔ اس زمانے میں روس اور برطانوی ہند میں کئی ہزار میل کا فاصلہ تھا اور وسطی ایشیا کے شہروں مرو، خیوا، بخارا اور تاشقند کو مغرب میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے مگر انگریز یہ جانتے تھے کہ روسی ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

1842،برطانوی فوج کا بچنے والا واحد شخص، ڈاکٹر برائیڈن

ان کو روکنے اور افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے انگریزوں کی مکارانہ جدوجہد کو 'عظیم چال بازیوں (The Great Game) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ (1839ء-1842ء) اس وقت ہوئی جب ایرانیوں نے ہرات کے لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزوں اور روسیوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے افواج پورے ملک میں روانہ کیں۔

انگریزوں نے کابل پر قبضہ کر کے دوست محمد خان کو گرفتار کر لیا۔ افغانیوں نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کر دیا جو سولہ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ صرف ایک شخص زندہ بچا۔ انگریز مدتوں اپنے زخم چاٹتے رہے۔ اسی وجہ سے مجبوراً انگریزوں نے دوست محمد خان کو رہا کر دیا۔ بعد میں دوست محمد خان نے ہرات کو بھی فتح کر لیا۔

دوسری جنگ (1878ء-1880ء) اس وقت ہوئی جب امیر شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کو کابل میں رہنے کی اجازت نہ دی۔ اس جنگ کے بعد انگریزوں کے ایما پر 1880ء میں امیر عبدالرحمٰن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کیا مگر عملاً کابل کے خارجی معاملات انگریزوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔

اسی اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدوں کے تعین کا معاہدہ بھی کیا۔ امیر عبدالرحمٰن کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان بعد میں افغانستان کے بادشاہ ہوئے۔ ان کے دور میں افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے اور انگریزوں کا اثر مزید بڑھ گیا۔ اگرچہ بہ ظاہر انگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا۔ 1907ء میں امیر حبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ہند کا دورہ بھی کیا۔

اسی مغربی دوستی اور اثر کی وجہ سے امیر حبیب اللہ خان کو ان کے رشتے داروں نے 20 فروری 1919ء کو قتل کر دیا۔ ان کے قتل کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی مگر 19 اگست 1919ء کو اس کے اور انگریزوں کے درمیان میں راول پنڈی میں ایک معاہدہ ہوا جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور افغانستان میں ان کا اثر تقریباً ختم ہو گیا۔ 19 اگست 1919ء کو اسی وجہ سے افغانستان کے یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔

آپس میں لڑتے رہے اور ایرانیوں سے ہار گئے،کاش؟

مسلمانوں نے642ء میں اس علاقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکم راں علاقائی لوگوں ہی کو بنایا۔ پہلے یہ حکم رانی خراسانی عربوں کے پاس رہی۔ 998ء میں محمود غزنوی نے ان سے اقتدار چھین لیا۔ غوریوں نے 1146ء میں غزنویوں کو شکست دی۔ اور انہیں غزنی کے علاقے تک محدود کر دیا۔ یہ سب مسلمان تھے مگر 1219ء میں چنگیز خانی منگولوں نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔ ہرات، غزنی اور بلخ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ منگول بعدمیں خود مسلمان ہو گئے حتیٰ کہ تیمور نے چودہویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کی۔ اسی کی اولاد سے شہنشاہ بابر نے کابل کو سولہویں صدی کے شروع میں پہلی دفعہ اپنا دار الحکومت قرار دیا۔

سولہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا۔ شمالی حصے پر ازبک، مغربی حصے (ہرات سمیت) پر ایرانی صفویوں اور مشرقی حصہ پر مغل اور پشتون قابض رہے۔ 1709ء میں پشتونوں نے میرویس خان هوتک کی قیادت میں صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء سے 1729ء تک افغانستان بلکہ ایرانی شہر اصفہان پر قبضہ رکھا۔ 1729ء میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نےانہیں واپس دھکیلا اور ان کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے حتیٰ کہ 1738ء میں قندھار اور غزنی پر بھی قبضہ کر لیاجو 1747ء تک جاری رہا۔ پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کش مکش آج بھی جاری ہے ۔

بچہ سقہ حکم راں بنا،مگر کیوں؟

امان اللہ خان (دورِ اقتدار1919ء -1929ء) نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قایم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں۔ اس نے 1921ء میں افغانستان میں فضائی فوج بھی بنائی جس کے جہاز روس سے آئے لیکن افواج کی تربیت ترکی اور فرانس سے کرائی گئی۔ 1927ء میں امان اللہ خان نے یورپ اور ترکی کا دورہ بھی کیا جس میں اس نے مغربی مادی ترقی کا جائزہ لیا اور افغانستان میں ویسی ترقی کی خواہش کی مگر جب اس نے کمال اتاترک کی طرز پر پر دے پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پڑی اور افغان اس کے سخت خلاف ہوگئے۔

شنواری قبائل نے نومبر1928 ء میں جلال آباد سے بغاوت شروع کی اور دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ شمال سے تاجک کابل کی طرف بڑھنےلگے۔ امان اللہ خان پہلے قندھار بھاگا اور فوج تیار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو گیا۔ وہاں سے پہلے اطالیہ اور بعد میں سوئٹزرلینڈ میں پناہ لی جہاں 1960ء میں وفات پائی۔اس بغاوت کے دوران میں جنوری 1929 ء میں حبیب اللہ کلاکانی عرف بچہ سقہ نے کابل پر قبضہ کیا اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کی مگر اکتوبر 1929ء میں جنرل نادر خان کی فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پر بچہ سقہ فرار ہو کر اپنے گاؤں چلا گیا۔

جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی جنہوں نے اسے ہتھیار اور پیسہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے جنرل نادر خان کو ایک ہزار افراد کی فوج بھی تیار کر کے دی تھی جو وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر خان نے قرآن کو ضامن بنا کر اس کو پناہ اور معافی دی مگر جب وہ کابل آیا تو اسے قتل کروا دیا۔

برطرفی،قتل،بغاوت،کاش ایسا نہ ہوتا؟

نادر خان (دورِ اقتدار1929ء۔ 1933ء ) جو امان اللہ خان کا رشتہ دار تھا اس نے نادر شاہ کے نام سے 1929ء میں افغانستان کا تخت سنبھالا۔ مگر 1933ء میں کابل کے ایک طالب علم نے اسے قتل کر دیا جس کے بعد اس کاانیس سالہ بیٹا ظاہر شاہ بادشاہ بن گیا۔ ظاہر شاہ (دورِ اقتدار1933ء۔ 1973ء ) نے چالیس سال تک افغانستان پر حکومت کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم بدلے جن کی مدد سے اس نے حکومت کی۔ جن میں سے ایک سردار محمد داؤد خان (المعروف سردار داؤد) تھا جو اس کا کزن تھا۔ سردار داؤد نے روس اور بھارت سے تعلقات بڑھائے۔

اسے پاکستان سے نفرت تھی۔ پاکستان سے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے افغانستان کو اقتصادی مشکلات ہوئیں تو سردار داؤد کو 1963ء میں استعفی دینا پڑا۔ مگر سردار داؤد (دورِ صدارت 1973ء-1978ء) نے دس سال بعد، سترہ جولائی 1973ء کو ایک فوجی بغاوت میں افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت کو روس (اس وقت سوویت یونین) کی مدد حاصل تھی۔ ظاہر شاہ فرار ہو کر اطالیہ چلا گیا۔27اپریل 1978ء کو سردار داؤد کو ایک اور بغاوت میں قتل کر دیا گیا اور نور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔

اس حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی جن میں سڑکوں کی تعمیر سے لے کر فوجی مدد تک سب کچھ شامل تھا۔ روس کی یہ کام یابی امریکا کو کبھی پسند نہیں آئی چنانچہ سی آئی اے نے اسلامی قوتوں کو مضبوط کرنا شروع کیا جس سے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ نتیجتاً 1979ء میں روس نے افغانستان کی حکومت کی دعوت پر افغانستان میں اپنی فوج اتار دی اور عملاً افغانستان پر اسی طرح روس کا قبضہ ہو گیا جس طرح بعد میں امریکا کا قبضہ ہواتھا۔