جنگ سے امن معاہدے تک (پہلی قسط)

September 02, 2021

دو دہائیوں پر محیط ا مریکا کی طویل اورمنہگی ترین جنگ منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اس جنگ میں ایک سُپر پاور نے بھرپور وسائل، جدید حربی حکمت عملی، تربیت یافتہ افواج اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ دوسری جانب عددی و مالی وسائل کے ضمن میں کم زور ،باقاعدہ طورپر تربیت یافتہ نہ ہونے، بغیر کسی جدید ٹیکنالوجی اور عالمی حمایت کے ،لیکن جذبہ حب الوطنی سے سرشار ، اپنے مذہبی عقیدے پرپختہ یقین رکھنے والے بہادر اور نڈرافغان تھے۔لیکن دنیا نے دیکھا کہ امریکا نے وہاں سے تاریخی پسپائی اختیار کی جو رہتی دنیا تک ایک سبق کے طور یاد رکھی جائے گی۔

امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں طالبان کو دہشت گرد اور افغانستان کو دہشت گردی کی آماج گاہ قرار دے کر اس پر چڑھ دوڑا تھا۔ لیکن پھر وہ ہی امریکاجس نےطالبان کو دہشت قراردےکرانہیں اقتدارسے الگ کیا، افغانستان کو دنیا سے کاٹ کر آتش و آہن کی آگ میں جھونکا ا ور ہزاروں افغانیوں کی جانیں لیں، ان ہی ’’دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوا اور ان ہی سے واپسی کے لیے محفوظ راستے کی درخواست کی ۔یہ مذاکرات چوں کہ دوحہ میں ہوئے اس لیے اس میں طے پانے والا معاہدہ ’’دوحہ معاہدہ‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔

’’دوحہ معاہدہ2020‘‘میں متعدد بار’’امارتِ اسلامی افغانستان‘‘ (جسے امریکا نے بہ حیثیت ریاست تسلیم نہیں کیا ہے) اور’’ طالبان‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ایسا طباعت کی غلطی سے نہیں ہوا بلکہ یہ امریکا کی جانب سےتکرار ہے۔اس امن معاہدے کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

امریکا۔ افغان دوحہ امن معاہدہ

یہ افغانستان میں امن لانے کا معاہدہ کہلاتا ہے جو امارتِ اسلامی افغانستان (طالبان کی جانب سے افغانستان کی اسلامی حکومت کو دیا گیا نام) اور امریکا کے مابین فروری 2020میں دوحہ، قطر میں طےپایاتھا۔یہ ایک جامع امن معاہدہ ہےجوکُل چار مرکزی نکات پر مشتمل ہے۔ یہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی گروہ یا فردکی طرف سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ یہ افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے ایک ٹائم لائن ، نفاذکے طریقہ کار اور اعلان کی ضمانت دیتا ہے۔

معاہدے میں کہا گیا تھا کہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا،بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں ٹائم لائن کی گارنٹی اوراس اعلان کے بعد کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، دس مارچ 2020سے افغان فریقوں کے ساتھ انٹرا افغان مذاکرات شروع کے جائیں گے۔

ایک مستقل اور جامع جنگ بندی و بین الافغان مذاکرات بھی اس ایجنڈے میں شامل ہوں گے۔ بین الافغان مذاکرات کے شرکاء مستقل اور جامع جنگ بندی کی تاریخ اور طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے،بہ بشمول مشترکہ عمل درآمد کے طریقہ کار، جن کا اعلان افغانستان کے مستقبل کے سیاسی روڈ میپ کی تکمیل اور معاہدے کے ساتھ کیا جائے گا۔

معاہدے کے مطابق مذکورہ بالا چاروں حصے آپس میں منسلک ہیں اور ہر ایک کو اس کی اپنی طے شدہ ٹائم لائن اورمتفقہ شرائط کے مطابق نافذ کیا جائےگا۔ نیز معاہدے کے پہلے دو حصے آخری دو حصوں پر عمل درامد کے لیے راہ ہم وار کریں گے ۔ مندرجہ بالا حصوں کے جزو ایک اور دو کے نفاذ کے لیے معاہدے کا متن درج ذیل ہے:

دونوں فریق متفق ہیں کہ یہ دونوں حصے آپس میں منسلک ہیں۔ یہ امارتِ اسلامی افغانستان(جسے امریکا نے بہ طور ریاست تسلیم نہیں کیا ہے اور اس معاہدے میں اسے طالبان کے نام سے جانا جاتا ہے) کےزیرِ انتظام علاقوں میں لاگو گا، جب تک کہ نئے تصفیے کے بعد افغان اسلامی حکومت کی تشکیل نہ ہو۔

حصّہ اوّل

امریکا افغانستان سے اپنی تمام افواج، اتحادیوں اور اتحاد کے شراکت داروں سمیت تمام غیر سفارتی سویلین اہل کاروں، پرائیویٹ سیکیورٹی کنٹریکٹرز، ٹرینرز، مشیروں اوردیگر معاون اہل کاروں کو چودہ ماہ میں نکالنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے علاوہ معاہدے کے اعلان کے بعد ایک سو پینتیس دِنوں میں درج ذیل اقدامات اٹھائے جائیں گے:

افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد کم کر کے آٹھ ہزار چھ سو کر دی جائے گی اورامریکا کے اتحادی بھی افواج کی تعداد میں اسی تناسب سے کمی لائیں گے۔

امریکا اوراس کے اتحادی اپنی تمام افواج پانچ فوجی اڈوں سے نکال لیں گے۔

ان اقدامات کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی ان درجِ ذیل اقدامات اٹھائیں گے:

امریکا اور اس کے اتحادی ساڑھے نو ماہ میں افغانستان سے باقی تمام افواج کا انخلا مکمل کر لیں گے۔

امریکا اور اس کے اتحادی اپنی تمام افواج کو باقی اڈوں سے بھی نکال لیں گے۔

امریکا تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ تعاون واعتماد سازی کے اقدام کے طور پر جنگی اور سیاسی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرنے کے منصوبے پر تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ کام شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ امارتِ اسلامی افغانستان (جسے امریکا نے ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ طالبان کے نام سےاسے جانتاہے) کے پانچ ہزار قیدی اور دوسری طرف کے ایک ہزار قیدی دس مارچ تک رہا کر دے جیئیں گے۔

متعلقہ فریقوں کا ہدف ہے کہ باقی تمام قیدیوں کو اگلے تین ماہ میں رہا کیا جائے۔ امریکا اس ہدف کو پورا کرنے کی یقین دہانی کراتاہے۔ امارتِ اسلامی افغانستان(جسے امریکا نے ریاست کے طورپر تسلیم نہیں کیا ہےاور وہ طالبان کے نام سےاسے جانتا ہے) کے رہائی پانے والے قیدی اس معاہدے میں بیان کردہ ذمے داریوں کے پابند ہوں گے تاکہ ان کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔

بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ، امریکا موجودہ امریکی پابندیوں کا انتظامی جائزہ لے گا اور ستّائیس اگست 2020 تک یہ پابندیاں ہٹانے کے ہدف کے لیے عملی اقدات کرے گا۔

بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ امریکا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر اراکین اور افغانستان کے ساتھ سفارتی مشاورت شروع کرے گا تاکہ امارت اسلامی افغانستان (جسےامریکا نے ریاست کے طورپر تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ طالبان کے نام سےاسے جانتا ہے) کے ارکان کے نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکالے جاسکیں۔ اُنتیس مئی 2020 کو یہ مقصد حاصل کرنے کی ڈیڈ لائن دی گئی۔

امریکا اور اس کےاتحادی افغانستان کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کریں گے اور اس کےاندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔

حصّہ دوم

اس معاہدے کے اعلان کے ساتھ امارتِ اسلامی افغانستان (جسے امریکا نے ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ طالبان کے نام سےاسے جانتاہے) القاعدہ سمیت کسی بھی گروہ یا فرد کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے سے روکنے کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھائے گی:

امارتِ اسلامی افغانستان(جسےامریکا نے ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ طالبان کے نام سے اسے جانتاہے) اپنے کسی بھی رکن، القاعدہ سمیت دیگر افراد یا گروہوں کو افغانستان کی سرزمین کو سلامتی کے لیے خطرہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کایہ واضح پیغام ہے کہ جو لوگ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں ان کی افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ امارتِ اسلامی افغانستان(جسے امریکا نے ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ طالبان کے نام سےاسے جانتا ہے) کے ارکان کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ ایسے گروہوں یا افراد کے ساتھ تعاون نہ کریں جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

امارتِ اسلامی افغانستان(جسےامریکا نے ریاست کے طورپر تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ طالبان کے نام سےاسے جانتا ہے) کسی بھی گروہ یا فرد کی جانب سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے، انہیں لوگوں کو بھرتی کرنے اور تربیت دینے سے روکے گی۔اور فنڈ ریزنگ اور اس معاہدے میں کیے گئے وعدوں کے مطابق ان کی میزبانی نہیں کرےگی۔

امارتِ اسلامی افغانستان(جسے امریکا نے ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ طالبان کے نام سےاسے جانتاہے) بین الاقوامی نقل مکانی کے قانون اور اس معاہدے کے وعدوں کے مطابق افغانستان میں پناہ یا رہائش کے خواہاں افراد سے نمٹنے کے لیے سر گرم عمل ہوتا کہ ایسے افراد امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بنیں۔

امارتِ اسلامی افغانستان(جسے امریکانے ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہےاور وہ طالبان کے نام سےاسے جانتاہے)ان لوگوں کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت نامے یا دیگر قانونی دستاویزات فراہم نہیں کرے گی جو امریکاکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ نہ اس کے اتحادی افغانستان میں داخل ہوں گے۔

حصّہ سوم

امریکا اس معاہدے کو تسلیم وتوثیق کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے درخواست کرے گا۔

امریکا اور امارتِ اسلامی افغانستان(جسے امریکا نے ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ طالبان کے نام سےاسے جانتا ہے) ایک دوسرے کے ساتھ مثبت تعلقات کے خواہاں ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ امریکا اورنئی انتظامیہ کے بعدامارتِ اسلامی افغانستان کے درمیان تعلقات اس طرح کے ہوں گے جیسا کہ بین الافغان بات چیت اور مذاکرات میں طے کیے گئے ہیں۔

امریکا نئی افغان حکومت کے ساتھ تعمیر نو کے لیے اقتصادی تعاون کرے گا جیسا کہ بین الافغان مذاکرات کے ذریعے طے کیا گیا ہے اور وہ اندرونی معاملات میں بھی مداخلت نہیں کرے گا۔

اس معاہدے پر دوحہ، قطر میں اُنتیس فروری 2020 کو دست خط کیے گئے۔اس کا متن پشتو، دری اور انگریزی زبانوں میں یک ساں ہے۔

بیس سالہ جنگ،سال بہ سال

اب قارئین کی یادداشت کے لیے بیس سال پر محیط امریکا۔ افغان جنگ کے اہم حالات و واقعات مختصرا سا ل بہ سال ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

اکتوبر 1999 ،القاعدہ اور طالبان کا اتحاد

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 1267 منظور کرکے القاعدہ اور طالبان پر پابندیاں لگانے کے لیے کمیٹی بنائی جس نے دونوں گروہوں کو دہشت گرد گردانا اور ان کی مالی اعانت، سفر اور اسلحے کی ترسیل پر پابندیاں عائد کیں۔

اقوام متحدہ کا یہ اقدام القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کے لیے تھا جنہوں نے بہ قول اقوامِ متحدہ 1980کی دہائی کے آخر میں افغانستان اور پشاور، پاکستان سے دہشت گرد تنظیموں کی رہنمائی کی۔ اس کے علاوہ 1991 میں سوڈان اور وسط 1990 کی دہائیوں میں افغانستان واپس آئے اور طالبان، جو سوویت یونین کے انخلاکےبعد کی خانہ جنگی کی راکھ سے اٹھے،انہیں اور القاعدہ کو آپریشن کے لیے معاونت وپناہ گاہ فراہم کرتے تھے۔

ستمبر2001 ،شمالی اتحاد کابکھرتا شیرازہ

طالبان مخالف شمالی اتحادکےکمانڈر احمد شاہ مسعود کو مبینہ طورپر القاعدہ کے کارندوں نے قتل کر دیا۔ گوریلا جنگ کے ماہر احمد شاہ مسعود، جنہیں پنج شیرکا شیر کہا جاتا تھا، کی موت نے طالبان مخالف مزاحمت کو شدید دھچکا پہنچایا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے قتل نے اسامہ بن لادن کو نائن الیون کے حملوں کے بعد طالبان کی طرف سےتحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی ۔ ایسے ہی ایک ماہر، پیٹر برگن نے بعد میں مسعود کے قتل کو’’نیو یارک سٹی اور واشنگٹن ڈی سی پر حملوں کے لیے پردہ اٹھانے والا‘‘واقعہ قرار دیا تھا۔

امریکا میں دہشت گردی

القاعدہ کےکارندوں نےچار مسافر بردار ہوائی جہاز ہائی جیک کرکے نو ستمبر کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے اور واشنگٹن ڈی سی میں پینٹاگون کی عمارت سے ٹکرا دیا۔ چوتھا طیارہ شینکس ول پینسلوینیا کے ایک میدان میں گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ ان واقعات میں تین ہزارکے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اگرچہ افغانستان، القاعدہ کا اڈّہ مانا جاتا تھا، مگر ان ہائی جیکرز میں سے کوئی بھی افغان شہری نہیں تھا۔

محمد عطا نے،جو مصری باشندہ تھا، اس گروہ کی قیادت کی تھی اور پندرہ ہائی جیکرز سعودی عرب سے آئےتھے۔ اس واقعے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کا عزم کیا اور بعد میں افغانستان میں القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا۔ بش نے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ القاعدہ کے ان تمام رہنماؤں کو امریکی حکام کے حوالے کرے جو افغانستان کی سرزمین میں چھپے ہیں یا ان کے ساتھ شریک ہیں۔

امریکا افغان جنگ کی بنیادی وجہ

صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک مشترکہ قرارداد پر دست خط کیے جس کے تحت نائن الیون کو امریکا پر حملے کے ذمےداروںکےخلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دی گئی۔ اس قرارداد کو بعد میں بش انتظامیہ نے افغانستان پرحملہ کرنے سے لےکر عدالتی حکم کے بغیر لوگوں کوگوانتانامو بے، کیوبا، کےحراستی کیمپ میں بند کرنے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وسیع پیمانے پر اٹھائے جانے والے اقدامات کے لیے قانونی جواز کے طور پر پیش کیا۔

اکتوبر 2001،بم باری ،زمینی لڑائی

امریکی فوج نے برطانوی حمایت کے ساتھ طالبان کی فوج پر بم باری شروع کی جسے باضابطہ طور پر آپریشن اینڈیورنگ فریڈم کا نام دیا گیا۔ کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور فرانس نے مستقبل میں تعاون کا وعدہ کیا۔ جنگ کے ابتدائی مرحلے میں بنیادی طور پر القاعدہ اور طالبان پر امریکا کے فضائی حملے شامل تھے ۔

اس کام میں تقریبا ایک ہزار امریکی اسپیشل فورسز کے اہل کاروں، شمالی اتحاد اورنسلی طور پر پشتون مخالف طالبان طاقتوں نے مدد کی۔روایتی زمینی افواج کی پہلی لڑائی بارہ دن بعد شروع ہوئی۔ زیادہ تر زمینی لڑائی طالبان اور اس کے افغان مخالفین کے درمیان تھی۔

نومبر 2001،طالبان کی پس پائی

نومبر 2001 میں مزار شریف میں شکست کے بعد طالبان تیزی سے پیچھے ہٹے۔

دسمبر 2001

القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو کابل کے جنوب مشرق میں واقع ہر طرح سے لیس تورا بورا غار کمپلیکس میں تلاش کرنے کے بعد، افغان ملیشیاز تین تا سترہ دسمبر القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے ساتھ دوہفتوں کی شدید لڑائی میں مصروف ر ہیں۔ اس کے نتیجے میں چند سو ہلاکتیں ہوئیں اوراسامہ کے بالآخروہاں سے نکل جانے کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔

خیال کیاجاتا ہےکہ جب اسامہ بن لادن سولہ دسمبر کو گھوڑے پر سوار ہوکر پاکستان کے لیے روانہ ہوئے توافغان فورسز نے ان کے باقی بیس ساتھیوں کو پکڑ لیا۔ اسامہ بچ نکلے۔

اسامہ کا پس منظر میں جانا

تورا بورا میں بن لادن کی موجودگی کی طرف اشارہ کرنے والی انٹیلی جنس رپورٹس کے باوجود افواج نے اس حملے کی قیادت نہیں کی جو ایک افغان دستہ حضرت علی، حاجی زمان اور حاجی ظاہرکی قیادت میں کرتا ہے۔ بعض ناقدین نے بعد میں سوال کیا کہ امریکی افواج نے اس اطلاع کے باوجود زیادہ موثر اقدامات کیوں نہیں اٹھائے تھے۔

دسمبر 2001، عبوری حکومت کا قیام

نومبر 2001 میں کابل کے سقوط کے بعد اقوام متحدہ نے بڑے افغان دھڑوں کو مدعو کیا، جن میں نمایاں طور پر شمالی اتحاد اور سابق بادشاہ کی قیادت میں ایک گروپ شامل تھا، لیکن ان میں طالبان نہیں تھے۔ انہوں نےجرمنی میں ایک کانفرنس میں شرکت کی۔

پانچ دسمبر2001 کوان دھڑوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1383 کےتوثیق شدہ بون معاہدے پر دست خط کیے۔ حامد کرزئی کو عبوری انتظامیہ کا سربراہ مقرر کیا گیا اور بین الاقوامی امن فوج تشکیل دی گئی تاکہ کابل میں امن وامان برقرار رہے۔ بون معاہدہ بیس دسمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادنمبر 1386کے بعد ہواجس کے تحت انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس یا ایساف قائم کی گئی۔

طالبان حکومت کا خاتمہ

طالبان کی حکومت کا خاتمہ عام طور پر اس تاریخ سے جڑا ہوا تھا، جب طالبان نے قندھار میں ہتھیار ڈال دیے تھے اور ان کے رہنما ملا عمر شہر چھوڑ کرچلے گئے تھے۔ قندھار کو پشتون رہنماؤں کے زیرانتظام قبائلی قانون کےتحت چھوڑ دیا گیا تھا۔ طالبان کےسرکاری طور پر زوال کے باوجود القاعدہ کے رہنما پہاڑوں میں چھپتے رہے۔

مارچ 2002،آپریشن ایناکونڈا

آپریشن ایناکونڈا پہلا بڑا زمینی حملہ اورتورا بورا کے ایکشن کے بعد سب سے بڑا آپریشن تھا جو صوبہ گردیز کے شہر پکتیا کےجنوب میں القاعدہ اورطالبان کے آٹھ سوجنگ جوؤں کے خلاف شروع کیاگیاتھا۔ اس میں تقریبا دو ہزار امریکیوں اور ایک ہزار افغان فوجیوں نے حصہ لیا تھا۔

اس آپریشن کے بہت وسیع ہونے کے باوجود ایناکونڈا نے جنگی کوششیں وسیع کرنے کا اشارہ نہیں دیا تھا ۔اس کے بجائے پینٹاگون کے منصوبہ سازوں نے فوجی اور انٹیلی جنس وسائل افغانستان سے دورکر کےعراق کی سمت منتقل کرنا شروع کردیا جس کا ذکر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم خطرہ کے طور پر کیا جا رہا تھا۔

اپریل 2002،افغانستان کی تعمیر نوکی بات

صدر جارج ڈبلیو بش نے ورجینیا ملٹری انسٹی ٹیوٹ میں ایک تقریر میں افغانستان کی تعمیر نو پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی تعمیر میں مدد کرکے ،جو اب برائی سے پاک اور ایک بہتر جگہ ہے،ہم جارج مارشل کی بہترین روایات پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن امریکا اور عالمی برادری افغانستان کی تعمیر نو کے اخراجات کے لیے ماضی کےمارشل پلان کے قریب تک نہیں پہنچے۔امریکی کانگریس نے 2001 سے 2009 تک افغانستان کےلیے اڑتیس ارب ڈالرز سے زیادہ کی امداد انسانی فلاح اور تعمیرنو کی سرگرمیوں کے لیے مختص کی۔

جون 2002،عبوری حکومت کی نام زدگی

دسمبر 2001 سے افغانستان کی عبوری انتظامیہ کے چیئرمین حامد کرزئی کو ملک کی عبوری حکومت کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ ان کا انتخاب کابل میں ہونے والے ہنگامی لویا جرگےمیں ہوا،جس میں افغانستان کے 364 اضلاع سے خواتین سمیت 1550 مندوبین نے شرکت کی۔ درانی پشتونوں کےطاقتور پوپلزئی قبیلے کے رہنما حامدکرزئی طالبان کے خلاف پشتون مزاحمت کو منظم کرنے کے لیےنائن الیون کے حملوں کے بعد پاکستان سے افغانستان واپس آئے تھے۔

بعض مبصرین نے الزام لگایاکہ کرزئی اپنے قبیلے اور اپنی حکومت کے ارکان کی بدعنوانی کو برداشت کرتے رہے ۔ نسلی تاجکوں کا غلبہ رکھنے والا شمالی اتحاد افغانستان میں وزیر اعظم کا عہدہ تخلیق کروانےکی کوشش میں تو ناکام رہا ،لیکن منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے صدارتی اختیارات کنٹرول کرنے میں کام میاب رہا جیسے صدرکے مواخذے کا اختیار، وغیرہ۔

نومبر 2002،تعمیر نو کا ماڈل

امریکی فوج نے اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں سے مل کر از سرِنو ترقی اور کابل حکومت کے اختیارات بڑھانے کے لیے سول امور کا ایک فریم ورک بنایا۔ یہ نام نہاد صوبائی تعمیرِنو کی ٹیمز یا پی آر ٹی،پہلے نومبر میں گردیز میں بنی تھیں۔

اس کے بعد بامیان،قندوز، مزار شریف قندھار اور ہرات میں دکھائی دیں۔ انفرادی پی آر ٹی کی کمان بالآخر نیٹو کی رکن ریاستوں کے حوالے کی گئیں۔ لیکن یہ نظام تنقید کی زد میں رہا۔

مئی 2003،بڑی لڑائی ختم ہوئی

کابل میں صحافیوں کو بریفنگ کے دوران اس وقت کے امریکی سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈنے بڑی لڑائی ختم ہونےکا اعلان کیا۔ یہ اعلان صدر جارج ڈبلیو بش کے مشن کے ساتھ عراق میں لڑائی ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہوا۔ رمز فیلڈ کا کہنا تھا کہ صدر بش یو ایس اے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ٹومی فرینکس اور افغان صدر حامد کرزئی نے یہ نتیجہ اخذکیاہےکہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم واضح طورپر بڑی جنگی سرگرمیوں سے استحکام اور استحکام سے تعمیرِ نو کی سرگرمیوں کے دور میں داخل ہو چکےہیں۔

اس وقت افغانستان میں صرف آٹھ ہزار امریکی فوجی تعینات تھے اور یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ لڑائی سے تعمیر نو کی طرف پیش قدمی بہت سی امدادی تنظیموں کےلیے کام کرنے کے دروازے کھول دے گی، خاص طور پر یورپی یونین کے لیےجو فوج بھیجنے، رسد فراہم کرنے یا دیگر امداد دینے سے گریزاں تھی۔

اگست 2003،نیٹو اور ایساف کا کردار

نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن، نیٹو نے افغانستان میں بین الاقوامی سکیورٹی فورسز ایساف کا کنٹرول سنبھال لیا تاکہ پورے ملک میں نیٹو / ایساف کا کردار بڑھے۔ یہ یورپ سے باہر نیٹو کی پہلی آپریشنل وابستگی تھی۔ اصل میں کابل اور اس کے گردونواح کے علاقوں کو محفوظ بنانے کا کام ستمبر 2005، جولائی اوراکتوبر 2006 میں بڑھایا گیا۔

ایساف کے فوجیوں کی ابتدائی تعدادپانچ ہزار تھی جو بعد میں پینتالیس ممالک کے فوجیوں کی شمولیت سے کافی بڑھ گئی۔ 2006 میں ایساف نے امریکا کی قیادت والے اتحاد سے مشرقی افغانستان میں بین الاقوامی فوجی دستوں کی کمان سنبھالی اور جنوبی افغانستان میں شدید جنگی کارروائیوں میں بھی شامل ہو گئی۔

جنوری 2004،آئین پر اتفاق

افغان مندوبین کی ایک اسمبلی نے افغانستان کے لیے ایک آئین پر اتفاق کیا اور ایک مضبوط صدارتی نظام بنایا جس کا مقصد ملک کے مختلف نسلی گروہوں کو متحد کرنا تھا۔ اس عمل کو جمہوریت کی طرف ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا گیا۔ افغانوں کو امریکا اور اس کے بین الاقوامی شراکت داروںکی جانب سے جمہوری اداروں کی بنیاد رکھنے اور افغانستان میں امریکا کے سفیر زلمےخلیل زاد کے اعلان کردہ قومی انتخابات کےلیے ایک فریم ورک فراہم کرنے کاموقع ملا۔

اکتوبر 2004،حامد کرزئی کا انتخاب

قومی رائے شماری میں حامد کرزئی افغانستان کے پہلے جمہوری طور پر منتخب سربراہ بنے۔ تشدد اور دھمکیوں کے باوجود ووٹرزکی تعداد زیادہ تھی۔ کرزئی نے 55 فی صد ووٹ حاصل کیے۔ ان کے قریبی حریف سابق وزیر تعلیم یونس قانونی نے سولہ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ کرزئی کی انتخابی فتح ان کے مخالفین کی طرف سے دھوکہ دہی کے الزامات عائد کیے جانے اور ایک عسکری گروپ کی طرف سے اقوام متحدہ کے تین غیر ملکی انتخابی کارکنوں کے اغواء سے متاثر ہوئی۔ تاہم اس الیکشن کوافغان قوم کی فتح قراردیاگیا۔یاد رہے کہ افغان 1969 کے بعد سے انتخابات کے مرحلے سے نہیں گزرے تھے۔ انہوں نے آخری بار محمد ظاہر شاہ کے دور میں پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالے تھے۔

اسامہ کا منظر عام پر آنا

امریکی قیادت والے اتحاد کو درپیش مسلسل چیلنجز کی نشان دہی کرتے ہوئے، اسامہ بن لادن نے افغانستان کے صدارتی انتخابات کے تین ہفتے بعد اور امریکی انتخابات سے کچھ دن پہلے ایک وڈیو پیغام جاری کیا۔ یاد رہے کہ ان انتخابات میں جارج ڈبلیو بش جیتے تھے۔ عرب ٹیلی ویژن نیٹ ورک ، الجزیرہ، پر نشر ہونے والے پیغام میں اسامہ نے بش انتظامیہ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی قوم کی آزادی بحال کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے ہماری قوم کو برباد کیا۔

مئی 2005،کرزئی۔بش مشترکہ اعلامیہ

افغان صدرحامد کرزئی اور امریکا کےصدر جارج ڈبلیو بش نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں متعلقہ ممالک کو اسٹریٹجک پارٹنر قراردیا گیا۔ اس اعلامیے نے امریکی افواج کو بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پر تشدد انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کے لیےافغان فوجی سہولتوں تک رسائی دی۔ اس کے علاوہ معاہدے میں واشنگٹن سے کہا گیا تھا کہ وہ افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت دینے اور امن و امان برقرار رکھنے میں ان کی مدد کرے کیوں کہ افغانستان میں یہ ذمےداری نبھانے اور ملک کی معیشت اور جمہوریت کی تعمیر نو جاری رکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔

ستمبر 2005، جمہوری انتخابات

ساٹھ لاکھ سے زائد افغانیوں نے عوامی مجلس مشرانوں جرگہ، بزرگوں کی کونسل اور مقامی کونسلوں کےلیے ووٹ ڈالے۔ یہ افغانستان میں اس وقت تک کے سب سے زیادہ جمہوری انتخابات قرار دیے گئے تھے اوراس میں ووٹ ڈالنے والوں میں تقریبا نصف خواتین تھیں، جسےقدامت پسند معاشرے میں سیاسی ترقی کی علامت قرار دیا گیا تھا۔ افغانستان کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی 249 میں سے اڑسٹھ نشستیں خواتین ارکان کے لیے مخصوص کی گئی تھیں اور 102 میں سے 23 نشستیں ایوان بالا میں مخصوص تھیں۔

جولائی 2006،حملوں میں اضافہ

گرمیوں کے مہینوں کے میں ملک بھر میں پھر شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔ جولائی میں جنوب میں شدید لڑائی شروع ہوئی۔خودکش حملوں کی تعداد 2005 میں 27 تھی جو بڑھ کر 2006 میں 139 ہو گئی اوربم کےدھماکے دوگنا ہوکر ایک ہزار 677 ہو گئے۔ بعض ماہرین نے کم زور مرکزی حکومت کوحملوں میں اضافے کا ذمے دار ٹھہرایا۔

امریکا کےاتحاد میں اختلافات

ریگا میں منعقدہ نیٹو کے سربراہی اجلاس میں رکن ممالک کے درمیان افغانستان میں فوجیوں کی تعیناتی کی وعدوں پر اختلافات سامنے آئے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل جاپ ڈی ہوپ شیفر نے افغان نیشنل آرمی کے لیے 2008 کا ہدف مقرر کیا تھا کہ وہ سکیورٹی کاکنٹرول سنبھال لے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں امید کروں گا کہ 2008 تک ہم کافی ترقی کرچکے ہوںگے۔چھبیس ممالک کے رہنماؤں نے کچھ قومی پابندیاں ہٹانے پر اتفاق کیا کہ فورسز کو کب اور کہاں استعمال کیاجاسکتا ہے۔ لیکن دلائل جاری رہے۔ غیر سرکاری امدادی کارکنوں کے خلاف تشدد بڑھنے پرامریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے 2007 کے آخر میں نیٹو ممالک پر مزید فوجی نہ بھیجنے پر تنقید کی۔

مئی 2007، اہم طالبان کمانڈرکی ہلاکت

افغانستان کے جنوب میں افغان،امریکا اورنیٹو افواج کے مشترکہ آپریشن میں طالبان کے ایک اہم فوجی کمانڈر ملا داد اللہ ہلاک ہوگئے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ صوبہ ہلمند میں جنگ میں گوریلا فورسز کے رہنما تھے۔ وہ خودکش حملہ آوروں کو اہداف اور مغربی باشندوں کے اغوا کا حکم دیتے تھے۔

اگست 2008،بے قصور افراد کی ہلاکتیں

افغان حکام اور اقوام متحدہ کی تحقیقات سے پتا چلا کہ امریکا کےگن شپ کے غلط نشانے کی وجہ سےآگ لگنے کے سبب درجنوں بے قصور افغان شہری ہلاک ہوئے۔ امریکی فوجی حکام نے اس واقعےمیں ہلاکتوں کی تعداد بتانے کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کہ صوبہ فراح میں ایک علیحدہ واقعے میں 140 عام شہری ہلاک ہوئے۔ 2009 کے وسط میں افغانستان میں اعلیٰ امریکی کمانڈر نام زد ہونے کے بعد جنرل سٹینلے اے میک کرسٹل نے امریکا کے فضائی حملوں کے طریقہ کار کی اصلاح کا حکم دیا۔ (جاری ہے)