ماضی کی تاریخ، نصاب کی طرح ہوتی ہے

September 03, 2021

احسن اقبال

کسی بھی نظریے و فکر کو تحقیقی بنیادوں پر اپنانے کا رواج اب ختم ہوتا جارہا ہے۔ بہت کم نوجوان اب تحقیقی بنیادوں پر کچھ کرنے کی سکت رکھتے ہیں، اکثریت جو ، جیسا، جہاں کی بنیاد پر اپنانےعادی ہو چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کتب بینی اور مطالعہ سے دوری ہے، جس کی بنا پر تحقیقی کام جان پر گراں گزرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ذہنی وسعتیں سکڑتی جا رہی ہیں اور علم کے وہ چشمے جو مطالعے کی بنیاد پر اُبلتے تھے، اب خشک ہوتے جا رہے ہیں، اختلاف رائےسے نفرتوں نے جنم لیا۔

جذباتیت پروان چڑھ رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والا وہ نوجوان طبقہ ہے، جو کسی بھی قوم کا نظریاتی اور عملی محافظ ہوتا ہے ۔ اگر کسی قوم کے نوجوان نظریاتی انتشار کا شکار ہو جائیں تو یہ اس قوم کے لیے ذہنی غلامی کا دور ہوتا ہے۔ اکیسوی صدی اگرچہ اپنے ساتھ جدیدت کا سامان لائی لیکن اس کے ساتھ ساتھ معیارات اور ترجیحات میں بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں ، اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر نوجوان طبقے پر ہی ہو ا ہے۔جو نہ صرف یہ کہ اپنی روایات اور ثقافت کو فراموش کر چکے ہیں بلکہ یورپی اور مغربی روایت کا خوشدلی سے اثر قبول کر رہے ہیں۔

زندہ اقوام کبھی اپنے ماضی سے رابطہ نہیں توڑتیں بلکہ قومی سطح پر ماضی کی تاریخ توکسی بھی قوم کے لیے نصاب کی طرح ہوتی ہے، جس سے اقوام نہ صرف مستقبل میں راہنمائی لیتی ہیں بلکہ حال کابھی سبق حاصل کرتی ہیں۔ اُن کے اندر کچھ کر گزرنے کی خواہش بھی اسی سے پیدا کرتی ہے لیکن ہمارے نوجوانوں نے تاریخ کے ساتھ بھی اپنا ناطہ توڑ لیا ہے۔آج نسل نو اپنے ماضی سے بے خبر ہے مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر اپنے اصل مقصد سے بے گانہ ہوچکی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد خودسر، بدتمیز اور بدلحاظ ہوتی جارہی ہے۔ اکثر نوجوان اپنی من مانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گھروں میں بھی یہی صورتحال سنے اور دیکھنے میں آرہی ہے ۔

والدین کا کہنا تک نہیں مانتے، اگر والدین انھیں کسی غلط کام سے منع کررہے ہوتے ہیں تو بجائے اس کے وہ ان کے حکم کی تعمیل کریں، ان سے زبان درازی کرتے ہیں۔ ان میں برداشت کا مادہ کم ہوتا جارہا ہے، وہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال کا صبر و تحمل سے سامنا کرنے کے بجائے فوراً طیش میں آجاتے ہیں اور جذباتی ہوکر شدید ردعمل کا اظہار کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں، ذرا پروا نہیں کرتے کہ اس کےنتائج کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں اور منفی اثرات کتنی دور تک پہنچ سکتے ہیں۔ نوجوان غیر سنجیدہ کاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں ، تعلیم کے میدان میں بھی پیچھے ہیں ، فہم و فراست سے عاری ہیں، ہر وقت ان پر جذباتیت غالب رہتی ہے۔

”آج کا نوجوان کل کا مستقبل“ یہ جملہ اکثر سننے اور پڑھنے میں آیا ہے، اس جملے کے پیش نظر اگر ہم چند لمحات کے لیے آج کے نوجوان کا جائزہ لیں اور کل کے مستقبل کے بارے سوچیں تو کافی بے چین خدشات دماغ میں گردش کرتے ہیں۔ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال نہیں کر رہے، بلکہ ان میں سے اکثر نوجوان، ایسی راہ پر چل نکلے ہیں جو نہ صرف اْن کے اپنے بلکہ معاشرہ کی بہتری کےلئے بھی کسی طور مناسب نہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نوجوانوں کی ترقی میں نہ والدین یا حکومت نے اپنے فرائض پورے کئے اور نہ انہوں نے خود کے ساتھ انصاف کیا۔جس طرح مالدار کو اس کی کنجوسی ، حاکم کو اس کی لالچ برباد کرتی ہے ، اسی طرح نوجوان کو ا س کی سستی اور کاہلی لے ڈوبی ہے۔

ملک میں سیاسی اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے نوجوانوں کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہے۔نوجوانوں کو بھی چاہیے کے وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں کے اثر میں آکر اپنی ترجیحات اور اپنے مقاصد میں تبدیلی نہ لائیں۔ اکثر نوجوان اپنے دوست احباب کی باتوں میں آکر اپنے مقاصد سے منحرف ہو جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرپاتے۔

نوجوانوں اور طلباء کا قومی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے اور مستقبل کے چیلینجوں سے نمٹنے کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدید دنیا اور نئے سماجی، سیاسی اور معاشی رجحانات کو سمجھنے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تعلیمی میدان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھیں، وقت کی قدر کریں اور زندگی کا کوئی لمحہ بے مقصد نہ گزریں۔

گزرے کل کو سمجھیں اورآنے والے کل پرنظریں رکھیں

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے:

صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔