جھولا ڈالو ری، سکھی ساون آیو

September 09, 2021

1975کا وہ دور مجھے بہت یاد آتا ہے،اس وقت اکثر گھر کھلے صحن والے اور ایک منزلہ ہوا کرتے تھے۔ کمروں کی چھتیں بھی کنکریٹ کی بجائے نالی دار جستی چادروں کی ہوتی تھیں اور ان کی ڈھال صحن کی جانب رکھی جاتی تھی، تاکہ بارش کا پانی چھت پر رُکے بغیر سیدھا صحن کی طرف آکر بہہ جائے۔

ان جستی چادروں کی چھتوں کی وجہ سے اس بات کا تو امکان ہی نہیں تھا کہ بارش کا پہلا قطرہ مکان کی چھت پر گرے اور مکینوں کو پتہ نہ چلے۔ بادلوں سے زمین کی طرف لپکنے والے ابتدائی قطروں سے ہی جستی چادروں کی چھتوں پر جلترنگ بجنا شروع ہوجاتے اور لوگ خوشی سے جھومتے ہوئے گھروں سے نکل کر کھلی جگہوں کی طرف لپکتے۔ بچے زور زور سے تالیاں بجاتے شور مچاتے دروازوں سے باہر نکل کر گلیوں اور میدانوں کی طرف دوڑ لگا دیتے۔

’اللہ میاں پانی دے، سو برس کی نانی دے‘

’آرَم پارَم چھما چھم، گیٹ سے نکلے جیسے ہم‘

بارش ہوتی اور خوب برستی۔ کئی کئی دن تک جھڑی لگی رہتی اور جل تھل ہوجاتا۔ اس زمانے کے گلی کوچوں میں کچرا آج کے مقابلے میں بہت کم پایا جاتا تھا۔ پولی تھین کے شاپنگ بیگ تو خیر اس وقت ہوتے ہی نہیں تھے۔ چپس، چھالیہ، شیمپو، مصالحے وغيرہ کے ’ساشے‘ کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔گھر کا سودا سلف لانے کے لیے تنکوں کی ٹوکری یا کینوس کا تھیلا ہوتا تھا۔ دودھ کا ڈول، گھی کا مرتبان، دہی کا پیالہ، تیل کی بوتل، آٹے کا ڈبا، چینی کی برنی اور اس طرح کی کئی چیزیں ہم گھر سے ساتھ لے کر جاتے اور دکاندار سے سودا ڈلوا کر لاتے تھے۔

دیگر سودا بھی پلاسٹک کی تھیلیوں کی بجائے خاکی کاغذ کے لفافوں میں ملتا تھا۔ پیکنگ میٹیریل اور پروڈکٹ پریزنٹیشن کا کوئی وبال نہیں تھا۔ اس لیےشہر میں کچرا بہت کم ہوتا تھا۔ جا بجا کچرے کے ڈھیر نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے جب بارش ہوتی تو ڈھلوانوں میدانوں میں بارش کا جو پانی جمع ہوجاتا وہ صاف ستھرا اور کچرے سے پاک ہوتا تھا، بلکہ لوگ ان برساتی تالابوں میں بلا تردد نہا بھی لیا کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ قائدآباد پر ہمارے گھر کے برابر میں ایک کنکریٹ کا پکا نالا تھا جو ریڈیو پاکستان کالونی کے برساتی پانی کی ملیر ندی تک نکاسی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ برسات کے دوران یہ نالا پہاڑی نالوں کی طرح گرجتا برستا شور مچاتا بہتا تھا اور محلے کے بچے اس کے اندر خوب اودھم مچایا کرتے تھے۔

برسات کے ختم ہونے پر کہیں کوئی تعفن نہیں اٹھتا تھا۔ کچرا کنڈیوں کی سڑاند کا کوئی تصور نہیں تھا۔ گٹر اور برساتی پانی کے ملغوبے کا کئی کئی دن تک بدبو پھلانے جیسا کوئی عذاب نہیں ہوتا تھا۔ برسات کے بعد بچے کھیل کود اور سیر و تفریح کے لیے دُور دُور جاتے۔ بارش کے بعد ہلکی سی دھوپ نکلتے ہی ہم میدانوں میں بیربہوٹیاں پکڑنے نکل جاتے۔ زمین پر نگاہیں جمائے بچے بار بار صدا بلند کرتے:

’بلبوٹی بلبوٹی پنجے کھول تیرا ماموں آیا‘

سرخ رنگ کی مخملی بیر بہوٹی یہ سنتے ہی شرما کر اپنے کھلے پنجے بھی بند کرلیتی۔ تھوڑی ہی تگ و دو کے بعد ہر بچہ اپنے پاس موجود ماچس کی ڈبیوں میں کئی بیر بہوٹیاں پکڑ کر اپنے گھر لے آتا تھا اور سب کو فخر سے اپنا یہ مخملیں شکار دکھاتا۔

ملیر ندی ہر سال برساتی پانی کے ریلوں سے بھر جاتی اور یہ بپھرا دریا کئی کئی روز بہتا رہتا تھا۔ لوگ دُور دُور سے قافلے بنا کر ملیر ندی کے کناروں پر پہنچتے اور ندی میں بہتے پُرزور و پُرشور پانی کا ہیبت ناک نظارہ کرتے۔کچھ من چلے اپنی تیراکی پر بھروسہ کرتے ہوئے اس خطرناک پانی میں بھی چھلانگ لگا دیتے اور اپنی تیراکی کے جوہر دکھانے کی کوشش کرتے۔ اس خطرناک حرکت کے نتیجے میں کچھ تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔

کراچی میں ملیر ندی کے علاوہ کئی اور بھی ندی نالے ہوا کرتے تھے جو بڑی سے بڑی برسات کے پانی کو آناً فاناً سمندر تک پہنچا دیتے تھے۔ لیاری ندی، تھدو ندی، جھڈو نالا، گجر نالا اور یہ سب ندی نالے بڑے وسیع، کچرے سے پاک اور خودرو پودوں یا عارضی باغبانی و کھیتی باڑی کا مرکز ہوتے تھے۔کراچی کے نکاسی آب کے لیے یہی ندی نالے استعمال ہوتے تھے اور اس وقت ان کی وسعت کی وجہ سے ان کے اندر بہنے والے برساتی پانی کو سمندر تک پہنچنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی۔ ان نالوں کے اندر نہ کوئی کچرا پھینکتا تھا اور نہ ہی ان میں قبضہ کرکے مکانات بنانے کی اجازت تھی۔

آج ہم کراچی کی ان موسلادھار، شاندار اور یادگار بارشوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ بارشیں آج کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ ہفتے بھر کی جھڑی لگنا کوئی انوکھی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ خاص طور پر جمعے کے دن بارش شروع ہونے کا مطلب ہی یہی لیا جاتا تھا کہ اب یہ بارش لازماً اگلے جمعے تک چلے گی۔

بارشیں عام طور سے گرمیوں میں ہی ہوتی تھیں اور یہ آموں کا بھی موسم ہوتا تھا۔ درختوں پر جگہ جگہ کوئل کوکتی سنائی دیتی تھی۔ آم تو خیر بارش سے پہلے ہی بازار میں آجاتے تھے لیکن لوگ زیادہ رغبت سے اس وقت کھاتے تھے جب ان پر ایک برسات گزر جائے۔ اس وقت لوگوں کا خیال یہ ہوتا تھا کہ بارش کے بعد آنے والے آم زیادہ میٹھے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بارش ہوتے ہی آموں کے ٹھیلوں پر خریداروں کی یلغار ہوجاتی تھی۔

ہر گھر کے صحن میں کم از کم ایک درخت ضرور ہوتا تھا جس میں بارش ہوتے ہی رسی کا جھولا بندھ جاتا۔ گھر کی بچیاں برسات کا مزا لینے کے لیے ان جھولوں پر خوب زور زور سے جھولتیں اور ساتھ ہی بارش کے گیت بھی گاتی جاتیں:

’جھولا ڈالو ری، سکھی ساون آیو‘

مرد، بچے اور بچیاں تو بارش کے مزے لینے میں مگن ہوجاتے اور عورتیں چولہوں کی طرف متوجہ ہوتیں۔ اب پکوڑے تلے جا رہے ہیں، سوجی کا حلوہ پک رہا ہے، پوریاں بن رہی ہیں، کڑکڑاتے تیل سے کچوریاں اتر رہی ہیں، نرم گندھے ہوئے میدے سے میٹھا مال پُڑا تیار ہو رہا ہے، میٹھی اور بیسنی روٹیاں بن رہی ہیں اور ہر گھر سے اشتہا انگیز خوشبوئیں اٹھ رہی ہوتی تھیں۔ بچوں کو بازار دوڑایا جا تا کہ وہ جلدی سے جاکر گرما گرم جلیبیاں اور سموسے لے آئیں۔شام ہوتے ہی اس بات کا خدشہ سر اٹھانے لگتا کہ بلب کی روشنی پر خوب پتنگے آئیں گے اور جینا حرام کریں گے،چنانچہ ہر بلب کے اوپر مومی لفافہ چڑھایا جاتا، تاکہ روشنی کی تیزی کم ہوجائے اور پتنگے نہ آئیں۔

برسات کئی کئی دن جاری رہتی، حتیٰ کہ بچے نہا نہا کر اور بڑے چھتریاں اٹھائے اٹھائے تھک جاتے۔ بالآخر ساون بیت جاتا۔ برسات کے چند ہی دن بعد کراچی کی سرزمین سر سبز ہوجاتی۔ کھلے میدان، سڑکوں کے کنارے، ریلوے لائنوں کے اطراف اور سارے خالی پلاٹ ہری بھری نرم گھاس سے ڈھک جاتے۔کون سا پھل اور کونسی ایسی سبزی تھی جو کراچی کے باغات میں پیدا نہ ہوتی تھی ،ساری باغبانی اور کھیتی باڑی کا انحصار ان ہی بارشوں پر ہوتا تھا۔

پھر اللہ جانے ان سب چیزوں کو، اس شہر کو، کس کی نظر لگ گئی۔ آبادی میںبے تحاشہ اضافہ ہوتا گیا۔ افراتفری اور نفسا نفسی بڑھتی چلی گئی۔ لاکھوں موٹر سائیکلیں، گاڑیاں، کاریں، بسیں اور ٹرک اپنے شور اور دھویں کے ساتھ شہر پر قابض ہوتے چلے گئے۔شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا اژدہام دن دونی رات چوگنی بڑھتا رہا۔دوسری طرف کاغذ کے لفافوں کی جگہ کالے نیلے پیلے شاپنگ بیگز نے لے لی۔ان تھیلیوں کے معمولی حجم مگر بے ہنگم پھیلاؤ نے پورے معاشرے کو اپنی غلیظ گرفت میں لے لیا۔پھر رہی سہی کسر پلاسٹک کی بوتلوں نے پوری کی۔ کولڈ ڈرنک، جوس، تیل، شربت، پانی، کیمیکل غرض ہر چیز ان پلاسٹک کی بوتلوں میں آنےلگی۔

کراچی کے وہی باسی جو کسی دور میں بارش ہونے کے لیے دعائیں کرتے تھے، اب اس کی پہلی بوند سے ہی گھبرا جاتے ہیں۔ والدین بچوں کو اسکول بھیجنے سے کتراتے ہیں اور کام کرنے والے اپنے کام پر جانے سے گھبراتے ہیں۔ کہیں بارش نہ ہوجائے اور ہم واپسی میں سڑکوں پر پانی جمع ہونے کی وجہ سے شام کو گھر ہی نہ پہنچ پائیں۔ کہاں گئے وہ دن۔