عطاء اللہ مینگل: ساری زندگی مظلوموں کے حقوق کی جدوجہد کرتے رہے

September 09, 2021

بھرپور سیاسی جدوجہد ، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے ، طویل قربانیوں اور سیاست میں ہمت و جرات سے تاریخ رقم کرکے اپنی زندگی میں ہی لیجنڈ کا درجہ پانے والے ممتاز بلوچ بزرگ سیاسی قائد سردار عطا اللہ مینگل گزشتہ دنوں انتقال کرگئے ، 92 سالہ سردار عطا اللہ مینگل چھ دہائیوں سے زائد عرصہ تک سیاست کے میدان میں ناقبل فراموش جدوجہد رہے ،1960 کی دہائی کے چار بڑئے بلوچ سیاسی رہنماوں میں وہ آخری رہنما تھے ، 1950 کی دہائی کے اوائل سے سیاست کا آغاز کرنے والے سردار عطااللہ مینگل کو بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کا اعزاز حاصل تھا صرف 9 ماہ وزیراعلیٰ کے عہدئے پر فائز رہے۔

وہ 1960 کی دہائی میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے ، تمام تر مشکلات کے باوجود پوری زندگی اپنے اصولوں کاربند کی انہوں نے قیمت بھی چکائی ، سردار عطا اللہ مینگل نے اپنی سیاسی زندگی میں اپنے سیاسی نظریہ اور موقف پر سمجھوتہ کرنے کی بجائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت اور جلاوطنی کو ترجیح دی، طویل سیاسی جدوجہد میں کبھی مفادات کا شکار نہ ہوئے بلکہ اپنے نظریہ اور سیاسی موقف پر آخری سانس تک ڈٹے رہے ، موجودہ دور میں اگر اصولوں پر سیاست کرنے والے رہنماوں کی فہرست بنائی جائے تو یقینی طور پر سردار عطا اللہ مینگل کا نام نہ صرف اس فہرست میں شامل ہوگا بلکہ سرفہرست بھی ہوگا۔

سردار عطا اللہ مینگل نےمینگل قبیلے کی سرداری سنبھالنے کے بعد 1952 میں باقاعدہ سیاست کا آغاز کیا پہلی مرتبہ 1960 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ، 1972 میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے کے بعد وہ صوبے کے پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے وہ یکم مئی 1972 سے 13 فروری 1973 تک وزیراعلی بلوچستان رہے ، نو ماہ کی انتہائی مختصر مدت میں وہ بلوچستان میں انقلابی تبدیلیاں لائے ، بلوچستان یونیورسٹی ، بولان میڈیکل کالج ، انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار اور بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن جیسے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔ سردار عطاء اللہ مینگل آخری سانس تک مظلوم اقوام کے حقوق کی جدوجہد کرتے رہے ۔

سردار عطا اللہ مینگل ملک میں حقوق سے محروم تمام قوموں کے حقوق کے حصول کی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے اس کے لئے پہلے ملک کی سطح پر سندھی ، بلوچ ، پختون فرنٹ اور پھر پاکستان محکوم اقوام کی تحریک (پونم) کے قیام میں اہم کردار کیا ۔ 92 سالہ سردار عطا اللہ مینگل نے کار زار سیاست میں جن مشکلات اور تکالیف کا سامنا کیا اس کے مقابلے میں سیاست میں اچھے دن بہت کم دیکھے ، پہلے اپنے بیٹے اسد مینگل اور پھر دوسرئے بیٹے سردار منیر مینگل کے بچھڑ جانے کا غم سہنے اور پیرانہ سالی کے باوجود ان کے عزم و ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی ان کے موقف میں تبدیلی آئی۔