9/11 کی 20 ویں برسی اور آج کا افغانستان

September 15, 2021

20برس قبل 2001میں امریکہ میں نائن الیون حملوں کے بعد دنیا بھر میں جو واقعات رونما ہوئے، اُنہوں نے پوری دنیا کو تباہی سے دوچار کردیا، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز پر حملوں کی آڑ میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، جس کے باعث ہزاروں بے گناہ لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور لاکھوں پناہ گزینوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ یاد رہے کہ دو عشرے قبل نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاور اور پنٹاگون کی عمارت سمیت کئی اہداف پر دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں تقریباً 3 ہزار امریکی ہلاک ہوگئے تھے۔ امریکہ نے اِن حملوں کا ذمہ دار القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا تھا اور طالبان حکومت سے اسامہ اور اس کے ساتھیوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا لیکن طالبان کے انکار پر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا اور 20 سال تک وہاں قابض رہا۔

گوکہ پاکستان نے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی مگر امریکہ نے افغان جنگ میں ساتھ نہ دینے کی صورت میں پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکی دی اور جنرل پرویز مشرف نے ایک فون کال پر امریکیوں کو وہ کچھ دے دیا جو امریکہ نے مانگا بھی نہ تھا۔ جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے سابق چیئرمین اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) احسان الحق نے گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ امریکہ نے نائن الیون حملوں کے 24 گھنٹے بعد پاکستان سے رابطہ کیا اور افغان جنگ میں ساتھ دینے کیلئے دبائو ڈالا۔ بعد ازاں جنرل احسان الحق، شہزادہ سعود الفیصل کے ہمراہ امریکہ گئے اور امریکی صدر، وزیر خارجہ اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر سے ملاقاتیں کیں اور انہیں تجویز دی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے افغانستان میں مداخلت کی جائے لیکن امریکہ نے پاکستان اور سعودی عرب کی ایک نہ سنی اور افغانستان پر حملہ آور ہوگیا۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاور پر حملوں میں ملوث 19 ہائی جیکروں میں سے 15 سعودی اور 2 مصری شہریوں کے علاوہ 2 مقامی پائلٹ تھے جنہوں نے طیارے ہائی جیک کرنے میں دہشت گردوں کے لئے سہولت کاری کی جبکہ ان حملوں میں کوئی پاکستانی یا افغانی ملوث نہیں تھا لیکن نائن الیون واقعہ کی سزا پاکستان اور افغانستان دونوں کو بھگتنا پڑی اور دونوں ہی امریکی جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ گزشتہ دنوں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اپنے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ نائن الیون واقعہ میں کوئی افغانی ملوث نہیں تھا اور طالبان حکومت نے نائن الیون حملے میں ملوث دہشت گردوں کی گرفتاری کیلئے امریکہ کو تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی تھی لیکن امریکہ نے ہماری ایک نہ سنی اور افغانستان پر حملہ کرکے قابض ہوگیا۔

نائن الیون کی برسی اس بار ایسے موقع پر آئی جب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہوا اور وہاں 20 سال بعد دوبارہ طالبان کی حکمرانی قائم ہوئی۔ نائن الیون حملے اور کابل پر طالبان کے قبضے کو امریکی انٹیلی جنس کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر جوبائیڈن نے نائن الیون حملوں کی تمام خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کے حکم نامے پر دستخط کئے جس کے بعد اس حوالے سے کچھ مواد بھی منظر عام پر آیا اور آنے والے دنوں میں نائن الیون حملوں کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس کی ناکامیوں سے متعلق مزید انکشافات سامنے آنے کی توقع ہے جبکہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان جو سعودی عرب کو نائن الیون کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں، خدشہ ہے کہ وہ ایک بار پھر سعودی عرب کو ان حملوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کریں گے جبکہ افغان جنگ میں امریکی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جائے گا۔

امریکہ، افغانستان میں اپنی شکست کا ملبہ کاندھوں پر اٹھائے رخصت ہوچکا ہے اور آج افغانستان پر طالبان حکمران ہیں مگر لوگ یہ نہیں بھولیں گے کہ دو عشروں تک جاری رہنے والی بے مقصد افغان جنگ کے نتیجے میں جہاں ایک طرف ہزاروں شہری اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تو وہاں دوسری طرف لاکھوں بے گھر بھی ہوئے جبکہ اس جنگ کے باعث افغانستان کے علاوہ عراق، لیبیا، شام اور یمن جیسے اسلامی ممالک تباہی سے دوچار ہوئے۔ آج پوری دنیا نائن الیون حملے میں مرنے والے امریکیوں کیلئے افسردہ نظر آتی ہے مگر اِن حملوں کے نتیجے میں اسلامی ممالک میں ہونے والی تباہ کاریوں اور مسلمانوں کی جانوں کے ضیاع پر دنیا کے کسی ملک کے لوگوں کی آنکھیں نم نہیں ہوئیں۔ امریکہ نے افغان جنگ پر 2 کھرب ڈالر جھونک دیے، کاش یہ رقم اِن متاثرہ اسلامی ممالک کے لوگوں کی فلاح پر خرچ کی جاتی۔

امریکی صدر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرلئے ہیں اور اب امریکہ کو افغانستان سے دہشت گردی کا کوئی خطرہ نہیں مگر دنیا کے دوسرے ممالک کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ امریکہ کے اہداف میں اپنے حریف ممالک روس، ایران اور چین کا افغانستان میں اثر و رسوخ کم کرنا تھا لیکن میرے نزدیک امریکہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ امریکہ نے ایک طرف افغانستان میں ہونے والے اخراجات سے تو جان چھڑالی مگر دوسری طرف امریکہ کا خطے میں سیاسی اثر و رسوخ ختم ہوکر رہ گیا اور امریکہ کے ساتھ بھارت کو بھی افغانستان میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 20 سال میں دنیا تبدیل ہوئی ہے مگر عہدِ حاضر کی دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوچکی ہے۔