افغانستان: بدلتے حقائق کا مرکز نگاہ!

September 16, 2021

روسی صدر دلادی میر پیوٹن کا اسی ماہ کے دوران وزیراعظم پاکستان عمران خان سے دوسرا ٹیلیفونی رابطہ ہو، امریکی کانگریس کمیٹی میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے پاکستان سے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینے کے ارادے کا اظہار ہو، مغربی ملکوں سے آنے والے تبصرے ہوں یا خود افغانستان سے آنے والے بیانات۔ ان سب کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان بدلتے حقائق اور بین الممالک حکمت عملیوں کا مرکز نگاہ بن چکا ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس میں بالخصوص پاکستان کو بین الاقوامی تعلقات اور بڑی طاقتوں سے سفارتی بات چیت میں احتیاط کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھنا ہوگا۔یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ بعض ممالک، خصوصاً بھارت افغانستان سمیت خطے میں بدامنی کو اپنے مفاد میں دیکھتے ہیں۔ جہاں تک اسلام آباد کا تعلق ہے، بیشتر ممالک کی قیادتیں وفود کے دوروں اور ٹیلیفون لنک سمیت مختلف سطحوں پر اس سے رابطے میں ہیں۔ یہ رابطے پاکستان کی امن کاوشوں پر اعتماد کے مظہر ہیں۔ ان کا مقصد آنے والے دنوں میں خطے کے امن کو چیلنجوں سے بچانے اور استحکام کی تدابیر پر مشورہ رہا ہے۔ اس ضمن میں آٹھ ملکوں کے انٹیلی جنس سربراہوں کا ایک اہم اجلاس بھی پاکستان میں ہوچکا ہے۔ منگل کے روز روسی صدر دلادی میر پیوٹن نے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلیفون پر جو رابطہ کیا افغانستان میں حالیہ پیش رفت کو اس کا خاص موضوع کہا جاسکتا ہے جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم میں کردار، باہمی تجارت اور مختلف شعبوں میں اشتراک بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال اور کئی امور پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے کے لئے اپنے اپنے ملکوں کے دورے کی دعوت کا اعادہ کیا۔ ایک ماہ میں روسی صدر کے دوسرے ٹیلیفونی رابطے سے ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتی ہوئی ہم آہنگی کا اظہار ہوتا ہے جو آگے چل کر یقیناً دونوں ملکوں کے لئے مفید ہوگی۔ دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں میںبھی ایسی ہی ہم آہنگی ماضی قریب و بعید کے متعدد واقعات سے واضح ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں نئی افغان انتظامیہ کی دلچسپی خطے میں ترقی و خوشحالی کے نئے امکانات کی طرف اشارہ کر رہی ہے جبکہ امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے وائس چیئرمین جنرل جان ہیٹن نے واشنگٹن میں تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دماغ ٹھنڈا رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ روس اور چین کے ساتھ جنگ نہ ہو۔ افغانستان میں بدامنی اور اس کے خطے پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کے حوالے سے امریکی جنرل کا یہ مشورہ اپنے اندر قابلِ غور پہلو رکھتا ہے۔ ان باتوں کو سامنے رکھ کر جب امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی میں ڈیموکریٹک ارکان بل کیٹنگ اور جوکین کاسترو کے پاکستان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کے مطالبے کو امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے اس بیان کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے جن میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کا ازسرنو جائزہ کا ارادہ ایسے الفاظ میں ظاہر کیا گیا جن سے پاکستان کی ماضی میں کی گئی کاوشوں کے اخلاص پر شبہ کا اظہار ہوتا ہے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سپر پاور ملک افغانستان سے اپنی پسپائی کا ملبہ کہاں گرانے کی فکر میں ہے۔ پاکستان نے سرد جنگ کے وقتوں سے واشنگٹن کا جن حالات میں ساتھ دیا ان کا تقاضا ہے کہ بڑا ملک بڑے دل سے حقائق کا ادراک کرے۔ امریکہ کو آئندہ بھی کئی معاملات میں پاکستان کی ضرورت رہے گی اس لئے یہ بات کسی طور مناسب نہیں کہ تقریباً سات عشروں کی رفاقت کو الزامات کے تیروں سے چھلنی کر دیا جائے دنیا میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلیاں متقاضی ہیں کہ حقائق کو درست طور پر دیکھا اور دوستوں کی قدر کی جائے۔