ڈالر کی اڑان، روپے کی ناقدری

September 16, 2021

ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششوں کو ایک اور دھچکا اس وقت پہنچا جب سٹیٹ بینک کی جانب سے روپے کی بے قدری روکنے کیلئے تین ماہ کے دوران تقریباً 1.2ارب ڈالر انٹر بینک مارکیٹ میں داخل کئے جانے کے باوجود ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت بدھ کو تاریخ کی کم ترین سطح تک گر کر 170روپے 30پیسے فی ڈالر تک پہنچ گئی۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں پہلے سے موجود مہنگائی میں ناقابلِ برداشت حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ ادھر سٹاک مارکیٹ میں ہنڈرڈ انڈیکس 379پوائنٹس کی کمی کے باعث 47ہزار کی حد سے نیچے گر گیا جس سے سرمایہ کاری کی مالیت میں ایک سو ارب 39کروڑ 98لاکھ روپے کی کمی دیکھی گئی اور 78فیصد کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت کم گئی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی کے کئی اسباب بتائے جا رہے ہیں۔ ان میں بیرونی ادائیگیوں کا دبائو، افغانستان میں ڈالر کی ڈیمانڈ اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافے سے روپے پر پڑنے والا دبائو بھی شامل ہے۔ روپے کی کارکردگی اس وقت پورے ایشیا میں سب سے کم گردانی جاتی ہے۔ امریکہ نے افغانستان کے دس ارب ڈالر منجمد کر دئیے ہیں جس سے وہاں ڈالروں کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور افغان شہری پاکستان کی مارکیٹ سے دھڑا دھڑا ڈالر خرید رہے ہیں۔ جس سے یہاں ڈالر مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور روپے کی قوت خرید گر رہی ہے۔ اس سے درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ ملک میں بالواسطہ طور پر افراط زر کے باعث روزمرہ استعمال کی عام اشیا مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے آٹے گھی اور چینی پر ٹارگیٹڈ کیش سب سڈی دینے کا اعلان کیا ہے مگر جب تک مڈل مین کا کردار موجود ہے اور ریٹیلرز 4سو گنا منافع لے رہے ہیں۔ اس وقت تک مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ متعلقہ محکموں اداروں اور ایجنسیوں کو متحرک کر کے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرے اور اسٹاک مارکیٹ میں استحکام لائے۔