رَتی گلی کا شاہد، کشمیر کا مجاہد

September 16, 2021

پیچیدہ، خطرناک اور اونچے نیچے راستوں کی منزل ہمیشہ بہت خوب صورت ہوا کرتی ہے۔ یہ راستے زندگی کی طرح ہوتے ہیں۔ موسم کے ساتھ اپنا رنگ ڈھنگ بدل لیتے ہیں۔ کبھی اچھے لگنے لگتے ہیں، کبھی تکلیف دیتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ زندگی سے پیار کرنے والے لوگ منزل نہیں، رستوں کو عزیز رکھتے ہیں۔ کیونکہ راستہ تحرک کا نام ہے اور منزل جمود کی علامت۔

جب مجھے میرے دوستوں نے بتایا کہ ہم سب آزاد کشمیر کی وادیٔ نیلم میں تقریباً 13ہزار فٹ کی بلندی پر واقع رتی گلی جھیل دیکھنے کے لئے روانہ ہو رہے ہیں تو میں نے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے کسی نے بتا دیا تھا کہ رتی گلی جھیل سے زیادہ اس تک پہنچنے کا راستہ خوب صورت ہے۔ جیپ کبھی پتھریلی زمین پر رینگتی، کبھی برفانی تودوں کے اندر سے گزرتی ہے۔ کبھی پہاڑوں سے گرتے جھرنوں سے اپنے پائوں دھوتے ہوئے آگے بڑھتی ہے، کبھی گڑھوں کو پھلانگتے ہوئے مسافت طے کرتی ہے، چلتی جاتی ہے، رکتی کہیں نہیں، اگر کہیں رکے بھی تو دھکا لگانے سے چل پڑے گی۔ میں شاعر ٹھہرا، شاعری کا ضعیفی، نزاکت اور کمزوری سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سو جیپ کو دھکا لگانے کیلئے میں اپنے دونوں بیٹوں جواد اور احسن کو ساتھ لے گیا۔ رتی گلی جانے کے لئے آپ کو ملکۂ کہسار مری سے ہوتے ہوئے پہلے مظفر آباد پہنچنا پڑتا ہے اور وہاں سے کیرن، کیرن وادی نیلم کا وہ حسین مقام ہے جہاں آزاد اور مقبوضہ کشمیر آمنے سامنے ہیں۔ ادھر کے لوگ اُدھر نہیں جا سکتے اور اُدھر کے لوگ ادھر نہیں آ سکتے۔ یہاں دریائے نیلم عین لائن آف کنٹرول کے اوپر، ایک امید کی کرن کی طرح بہتا ہے۔ آج اس دریا کا ایک کنارا ہمارا ہے، دوسرا کنارا پرایا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ جلد وہ وقت آئے گا جب اس چمکتے دمکتے مگر اداس دریا کے دونوں کنارے ہمارے ہوں گے۔ کیرن سے دو یا تین کلو میٹر کے فاصلے پر دواریاں کا علاقہ ہے جہاں سے رتی گلی جانے کے لئے اسی پچاسی ماڈل کی جیپ مل جاتی ہے۔ مجھے وہ جیپ ملی جس کے پچھلے حصے پر مصطفیٰ زیدی کا یہ شعر لکھا ہوا تھا۔

انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو

مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

ڈرے ہوئے آدمی کی ایک نفسیات یہ ہے کہ وہ گاڑی میں کبھی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی سب سے پچھلی نشست پر۔ سو میں نے بھی ڈرائیور کے پہلو میں براجمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ جیپ پہلے دو تین کلو میٹر بجری کی پکی سڑک پر دوڑی۔ اس کے بعد تو اللہ یاد آگیا۔ جیپ مسلسل بلندی کی طرف رواں دواں تھی۔ ایک طرف گہری کھائیاں اور ایک طرف پتھریلے پہاڑ۔ ہم گرتے تو کھائی میں گرتے، پہاڑ گرتے تو ہم پر گرتے۔ گاڑی چیونٹی کی طرح رینگ رہی تھی۔ 18کلومیٹر کا فاصلہ اڑھائی گھنٹے میں طے ہونے کی نوید سنائی گئی تھی۔ ڈرائیور نے ایک عجیب واقعہ سنایا۔ بولا ’’چند ہفتے پہلے لاہور سے ایک میاں بیوی رتی گلی جھیل جانے کے لئے میری جیپ میں سوار ہوئے۔ پیچیدہ اور خطرناک راستے دیکھ کر عورت نے چیخیں مارنا شروع کردیں اور کہنے لگی کہ اس کا شوہر دراصل دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ وہ اسے مارنے کے لئے یہاں لایا ہے اور بولی کہ جتنے پیسے تمہیں میرے شوہر نے مارنے کے لئے دیے ہیں، میں تمہیں اس سے دوگنا رقم ادا کروں گی۔ تم گاڑی واپس لے چلو۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ایسی کوئی بات نہیں لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی۔ بات بڑھی تو اس کے شوہر نے کہا، ٹھیک ہے تم مجھے دوسری شادی کی اجازت دے دو، میں جیپ ابھی واپس لے جاتا ہوں۔ اس عورت نے اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دے دی۔ شوہر نے اس زبانی اجازت کی وڈیو بنائی اور میں نے جیپ واپس موڑ لی۔ اس دو تین کلو میٹر کے فاصلے کا مجھے سب سے زیادہ معاوضہ ملا۔ اس کے شوہر نے مجھے سات ہزار روپے دیے تھے اور اس کی بیوی نے گاڑی واپس لے جانے کی خوشی میں دس ہزار روپے دیے‘‘۔

رتی گلی جھیل کا راستہ بھی زندگی کی طرح ہے۔ موسم کے ساتھ ساتھ رنگ بدلتا رہتا ہے۔ سردی کے موسم میں آپ یہاں ہر طرف برف ہی برف دیکھیں گے۔ پیدل بھی نہیں چل سکیں گے۔ بہار کے موسم میں کہیں آپ کو برف ملے گی، کہیں برف میں لتھڑے ہوئے پتھر، کہیں چشموں کا پانی آپ کے پائوں کے نیچے موجود زمین کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں یہ راستہ جیپ کے چار پہیوں کا بوجھ برداشت کرنے کے لائق تو ہو جاتا ہے لیکن خطرات بہرحال موجود رہتے ہیں۔ ادھر آنے کے یہی دن ہوتے ہیں۔ چار مہینے راستہ کھلا رہتا ہے اور آٹھ مہینے بند۔ جیپ والے چار مہینوں میں بارہ مہینوں کی کمائی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اردگرد قائم چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے لوگ بھی کسی نہ کسی طرح اپنا حصہ وصول کر ہی لیتے ہیں۔ ادھر کے لوگ رزقِ حلال پر پختہ یقین اور ایمان رکھتے ہیں۔ چوری چکاری کرتے ہیں، نہ چھینا جھپٹی۔ وادیٔ نیلم کی پولیس سیاحوں کی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے۔

رتی گلی جھیل جانے کے لئے سیاحوں کو جیپ سے اترنے کے بعد تقریباً آدھا گھنٹہ پیدل چلنا پڑتا ہے۔ یہ راستہ جیپ کے راستے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ مجھ جیسے نازک مزاج لوگ گھوڑا کرائے پر لے لیتے ہیں وہ تھکن سے تو بچ جاتے ہیں لیکن خطرے کو دوگنا کرلیتے ہیں۔ گھوڑے کا پائوں پھسل جائے تو دونوں کی جان جانے کا اندیشہ رہتا ہے، سیاح کی بھی اور گھوڑے کی بھی۔ اوروں کی طرح میں بھی اپنے بیٹوں جواد اور احسن کےساتھ اپنی منزل رتی گلی جھیل تک پہنچ گیا۔ میں نے کہاتھا ناں کہ منزل جمود کی علامت ہے۔ اس لئے جلد ہی ہم سب ایک بار پھر راستے کی پیچیدگیوں میں گم ہوگئے کیونکہ راستہ ہی زندگی ہے جو لوگ راستوں میں رہتے ہیں وہی زندگی کالطف لیتے ہیں۔

آخر میں مقبوضہ کشمیر کی ایک ایسی مستعد، جواں ہمت، دلیر اور غیرت مند شخصیت سید علی گیلانی کے لئے اپنے چند شعر درج کر رہا ہوں۔ سید علی گیلانی اتنے بہادر آدمی تھے کہ دشمن ان کے ساکت بدن سے بھی خوف زدہ تھا اور اس سے زیادہ خوف اس ہلالی پرچم سے تھا جو سید علی گیلانی مرحوم کے تابوت پر لپٹا ہوا تھا۔

کشمیر کی تحریک کو تحریک بنا کر

جا سویا، وہ سوئے ہوئے لوگوں کو جگا کر

سید علی گیلانی پیچیدہ، خطرناک اور اونچے نیچے راستوں کے مسافر تھے۔ ان راستوں کی منزل بہت خوب صورت ہے۔ ہم سب کبھی نہ کبھی دریائے نیلم کے اس پار جائیں گے اور اس خوب صورت منزل کو اپنے قدموں سے چھو کر دیکھیں گے۔