ڈیجیٹل ترقی میں کوئی پیچھے نہ رہے

September 16, 2021

10سے 24سال کی عمر کے ساڑھے 6کروڑ سے زائد نوجوانوں کے ساتھ، پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی نوجوان آبادیوں میں سے ایک ہے۔ خواتین، معذوری کے ساتھ جیتے اور ٹرانس جینڈر افراد سمیت، نوجوانوں کی ملکی تاریخ میں یہ سب سے بڑی نسل ہے اور ہر سال اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ نوعمر اور نوجوان، جن میں سے بیشتر دیہی علاقوں میں ہیں، پاکستان کے معاشی مستقبل کی نمائندگی کرتے ہیں۔

خیراتی ادارہ آکسفیم کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت چاربڑے رحجانات مستقبل کی تشکیل کررہے ہیں: تکنیکی تبدیلی یعنی ڈیجیٹلائزیشن اور آٹو میشن؛ آبادیاتی تبدیلی یعنی نوجوان آبادی میں روز افزوں اضافہ؛ ماحولیاتی دباؤ یعنی موسمیاتی تبدیلیوں کے پانی اور خوراک کی سلامتی اور زرعی آمدن پر اثرات؛ اور غیرسرکاری تنظیموں کو درپیش مشکلات سے عدم مساوات میں کمی کی طرف پیش رفت کا محدود ہونا۔

دیہی علاقے ہمیشہ سے ترقی اور روزگار میں پیچھے رہے ہیں۔ موزوں اقدامات کے بغیر، اب ان رحجانات کے باعث انہیں پہلے ہی سے درپیش معاشی اور صنفی عدم مساوات میں اضافہ سے خطرہ ہے۔ یہ عدم مساوات یہاں کے نوجوانوں کی زندگی کے امکانات اور دستیاب کام کی نوعیت پر اثرانداز ہوتی ہے۔

دیہی نوجوانوں سے ملک کے مختلف علاقوں میں کی جانے والی مشاورت پر مبنی، سماجی تنظیم برگد کی ایک تحقیق میں اس معاشی اور صنفی عدم مساوات کا مداوا یوں تجویز کیا گیا ہے۔ خواتین، معذوری کے ساتھ جیتے اور ٹرانس جینڈر افراد سمیت، تمام نوجوانوں کی قابلِ اعتماد اور سستے انٹرنیٹ، موبائل اور عمومی بینکنگ، بلاتعطل بجلی اور PayPalجیسے ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام تک رسائی ہو۔

نوجوانوں کو ڈیجیٹل اسٹارٹ اپ کے لئے بلا سود وضمانت سرمایہ دستیاب ہو، اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ جیسے ڈیجیٹل آلات خریدنے میں مدد ہو۔ دیہی مراکز میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی سہولت، زرعی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لئے کاشت کاری کی تکنیک، مسائل، کیڑوں اور بیماریوں، کیڑے مار ادویہ، کھادوں اور منڈیوں کی معلومات پرمبنی ڈیجیٹل ایپلی کیشنز کا فروغ ہو،اور ناخواندہ، غیرمحفوظ، معذوری کے ساتھ جیتے اور غریب افراد کو زبان اور مہارتیں سکھائی جائیں۔

سب کی شمولیت اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے سائبر ہراسانی سے خواتین اور ٹرانس جینڈر نوجوانوں کو تحفظ ہو۔ معذوری کے ساتھ جیتے افراد کے لئے نئے سافٹ ویئر پروگرامز اور رسائی، رہائش، نقل و حمل، تعلیم و تربیت اور ان کے قریب صحت کی سہولیات اور سماجی تحفظ کے اقدامات کیے جائیں۔ مختلف سرکاری اداروں اور دیگر تنظیموں میں ٹرانس جینڈر افراد کی شمولیت کو معمول بنایا جائے۔ نوجوانوں کو دیہی علاقوں میں آن لائن کمائی کے مواقع حاصل کرنے کی ترغیب، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال کی تربیت، خواتین، معذوری کے ساتھ جیتے اور ٹرانس جینڈر افراد کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے لیس اور آگاہ کرنے کے لئے خصوصی تربیت، کسانوں کو جدید ترین پیش رفت تک رسائی اور اختراعی تکنیک سیکھنے کے لئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کرنے کی تعلیم، ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو دستیاب آن لائن مواقع اور اپنی مصنوعات کی آن لائن فروخت کی مہارتوں کی فراہمی ہو۔

سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں پر قابو پانے کے لئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعہ فوائد، خطرات اور ممکنہ مواقع کے بارے میں الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے عوامی تعلیم ہو، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل میڈیا کو رسمی تعلیم کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ انٹرنیٹ تک رسائی کے مضر اثرات کو کم کرنے اور کمیونٹی کی شمولیت اور والدین کے کنٹرول کے ذریعہ اسے سب کے لئے فائدہ مند بنایا جائے۔ پالیسی سازوں کو مختلف اقسام کی معذوریوں سے آگاہ ہونا چاہئے۔ تفریحی ایپلی کیشنز پر پابندیوں کے بجائے اخلاقی خدشات کے لئے رہنما انضباطی لائحہ عمل ہونا چاہئے کیونکہ یہ ٹرانس کمیونٹی کے لئے کمائی اور مواصلات کا ذریعہ ہیں۔ اسٹیک ہولڈرز کی مناسب نمائندگی اور ادارہ جاتی معاونت سے ڈیجیٹل پالیسی کے نفاذ کی باقاعدہ اور موثر نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔

2020میں پاکستان عالمی سطح پر 4ارب ڈالر کی خالص آمدنی کے ساتھ 46ویں سب سے بڑی ای کامرس مارکیٹ ٹھیرا۔ 1.2ارب ڈالر سالانہ کماتے ملک کے آن لائن فری لانسرز دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فری لانسر کمیونٹی ہیں۔ میکنزی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں 2025تک ڈیجیٹل فنانس کے ذریعے جی ڈی پی میں 7فیصد اضافہ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس سے 40لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

ڈیجیٹل دنیا پاکستان اوراس کے نوجوانوں کے لئے لامحدودامکانات رکھتی ہے۔نئی ڈیجیٹل پاکستان پالیسی 2021کی آمد آمد ہے۔ ڈیجیٹل شمولیت اس پالیسی کا ہدف ہونا چاہئے تاکہ ملک کے ہر حصہ، ہرصنف، ہر مکتب فکر کے افراد ڈیجیٹل ترقی کی راہ پرگام زن ہوں۔دیہی نوجوانوں، خواتین، معذوری کے ساتھ جیتے افراد اور ٹرانس جینڈر افراد پر توجہ مرکوز کی جائے۔ پائیدار ترقی اس سوچ سے عبارت ہے کہ کوئی پیچھے نہ رہے۔