ڈاکٹر صفدر محمود کا آخری معانقہ!

September 16, 2021

یہ سال اپنے ساتھ کوئی خوشی نہیں لایا، بلکہ جو خوشیاں دینے والے دوست احباب اور عزیز و اقارب تھے، ایک ایک کر کے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان میں سے کچھ میرے قریبی عزیز بھی تھے اور علم و ادب سے وابستہ میرے دیرینہ دوست بھی۔ گزشتہ روز ایک اور بڑے صدمے سے گزرنا پڑا اور یہ صدمہ ڈاکٹر صفدر محمود کی رحلت کا صدمہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے میرے تعلقات کا عرصہ تقریباً نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے، چنانچہ میں نے بیورو کریٹ صفدر محمود کو بھی قریب سے دیکھا اور دانشور صفدر محمود کو بھی۔ اس کے علاوہ ایک بے تکلف دوست کے طور پر بھی ان کا ساتھ رہا۔

مجھے ڈاکٹر صاحب کے انتقال کی خبر عبدالستار عاصم صاحب نے دی اور نمازِ جنازہ کے وقت اور مقام سے بھی آگاہ کیا۔ میں گھر سے روانہ ہوا تو عاصم صاحب کے بتائے ہوئے راستوں میں بھٹک گیا۔ میں نے شعیب بن عزیز کو فون کیا، وہ بھی مقامِ نمازِ جنازہ کی تلاش میں بھٹک رہے تھے تاہم وہ وقت پر پہنچ گئے ہوں گے مگر جب میں پہنچا تو لوگ مسجد سے نکل رہے تھے، ان میں برادرِ محترم حفیظ اللہ نیازی بھی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اب اندر کوئی نہیں، ان کے صاحبزادے میت کی تدفین کے لئے موضع ڈِنگا لے گئے ہیں اور یوں میں نمازِ جنازہ میں شرکت سے تو محروم رہا لیکن ان کی وفات کی خبر سے اب تک دل پر ایک بوجھ سا ہے۔ مجھے ان کے ساتھ وہ سب ملاقاتیں یاد آ رہی ہیں جو مختلف مواقع پر ہوئیں، کبھی ان کے دفتر میں اور ایک آدھ بار میرے گھر میں، تاہم ایک ملاقات بہت یادگار تھی جب ہم دوست مری کی سیر کے لئے لاہور سے گئے۔ ڈاکٹر صاحب مرزا محمد منور مرحوم کے عقیدت مند قسم کے دوست تھے اور ان کا بہت ذکر کیا کرتے تھے۔ مرزا صاحب بھی خوش بیان تھے اور اپنے ڈاکٹر صفدر محمود بھی، چنانچہ مری کے سفر کے دوران مرزا صاحب کا شگفتہ تذکرہ اور ڈاکٹر صاحب کی شگفتہ بیانیاں مسلسل جاری رہیں۔ صفدر محمود، میں اور میرے محسن سید کرامت حسین جعفری مرحوم میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ یہ کہ دونوں نان اسٹاپ بولتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ جب میں کالج جاتا ہوں تو کالج کے پرنسپل کرامت حسین جعفری کے گرد اساتذہ کا جمگھٹا ہوتا ہے اور جعفری صاحب مسلسل یکطرفہ گفتگو کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ انگلی ہوا میں لہراتے جاتے ہیں۔ مجھے دیکھ کر وہ بہت محبت سے مجھے بھی اپنے ’’حلقے‘‘ میں لے لیتے ہیں اور یوں میں بھی ان کے سامعین میں شامل ہو جاتا ہوں، کھڑے کھڑے ٹانگیں جواب دے جاتی ہیں، آپ بتائیں ایسے مواقع پر کیا کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ جعفری صاحب مرزا صاحب کے بھی بہت دوست تھے، وہ جب دیکھتے تھے کہ گفتگو کی روانی میں کوئی فرق نہیں آ رہا تو وہ چپکے سے جعفری صاحب کی ہوا میں لہراتی انگلی پکڑ لیتے تھے اور اس کے ساتھ ہی حیرت انگیز طور پر جعفری صاحب خاموش ہو جاتے تھے۔ آپ بھی کسی دن ہمت کر کے یہ نسخہ آزمائیں۔ سو میں نے جعفری صاحب کو احساس دلائے بغیر ایک دن دورانِ گفتگو اُن کی انگلی پکڑ لی اور واقعی یہ نسخہ کارآمد ثابت ہوا۔ ایک دن میں نے یہی نسخہ ڈاکٹر صفدر محمود پر بھی آزمایا مگر انہوں نے ایک جھٹکے سے اپنی انگلی چھڑا لی اور ’’ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا‘‘ کے مصداق اپنی خوش بیانیاں جاری رکھیں۔

ڈاکٹر صفدر محمود بہت صاحب ِ مطالعہ تھے اور ان کا خاص مضمون تحریک ِ پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ تحریک ِ پاکستان کے حوالے سے ان کی اپروچ کچھ حلقوں میں متنازع بھی بن جاتی تھی اور اس حوالے سے ان پر تابڑ توڑ حملے ہوتے تھے اور ڈاکٹر صاحب ان کا تابڑ توڑ جواب لکھنا نہیں بھولتے تھے۔ خود مجھے بھی ڈاکٹر صاحب کی بیان کردہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ کی تشریح سے اختلاف ہوتا تھا اور میں بھی قائد اعظم کی 11؍ اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ دیتا تھا مگر ان سے الجھتا نہیں تھا کہ محمد علی جناح سے محبت بلکہ عشق کے حوالے سے وہ میرے ’’پیر بھائی‘‘ تھے۔ ڈاکٹر صاحب نثر بہت اچھی لکھتے تھے چنانچہ وہ کالم نگاری کی پہلی شرط یعنی اس کا ریڈ ایبل ہونا، پوری کرتے تھے۔ اگر قاری کو کسی تحریر کی ابتدائی سطور ہی اپنی طرف نہیں کھینچتیں تو وہ وہیں سے راہِ فرار اختیار کر لیتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نہایت دقیق مضامین بھی نہایت آسانی سے بیان کرنے کا ہنر جانتے تھے اور یوں ان کے قارئین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ اس حلقے میں ان کے متّفقین اور ناقدین دونوں شامل تھے۔ چلتے چلتے ایک اور بات، ڈاکٹر صاحب اپنی سرکاری ملازمت کے دوران قلمی نام سے فکاہیہ کالم لکھتے رہے اور فکاہیہ کالم نگار اپنے ہدف کی خوب خبر بھی لیتا ہے اور اسے خبر بھی نہیں ہونے دیتا۔ یہ کالم کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے جس میں میرا فلیپ بھی شامل تھا۔

اپنے علاج کے لئے امریکہ جانے سے پہلے ڈاکٹر صاحب میرے ’’معاصر‘‘ کے دفتر میں مجھے ملنے آئے۔ میں انہیں الوداع کہنے کے لئے اٹھا اور ہاتھ ملانے لگا تو انہوں نے اپنے بازو میری طرف پھیلائے اور کہا ’’اج جپھی پا کے ملو‘‘انہوں نے اپنی بیماری کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا اور نہ امریکہ روانگی کے حوالے سے کوئی بات کی تھی۔ یہ تو ان کے انتقال کی خبر سن کر پتہ چلا کہ میرے ساتھ ان کا وہ معانقہ ان کا آخری معانقہ تھا، اگر مجھے اس وقت پتہ ہوتا تو ان کے ساتھ میری ’’جپھی‘‘ مختصر نہ ہوتی، میں کافی دیر تک انہیں اپنے سینے سے چمٹائے رکھتا۔