انسانی حقوق اور آزادی اظہار

September 16, 2021

انسانیت نے صدیوں پر محیط تجربات سے جو عظیم و برتر اقدار دریافت کی ہیں اُن میں سرفہرست انسانی حقوق کا شعور و احترام یا پھر حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کی اہمیت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کا تصور آزادیٔ اظہار کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ انسانی حقوق کی محافظ ہے جس ظالم نے کسی انسان پر حملہ کرنا ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرتا ہے۔اِس حوالہ سے آج پاکستان یا افغانستان میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اُس جبر کی تلخیاں انسانیت صدیوں سے سہتی یا جھیلتی چلی آ رہی ہے۔ نظریہ جبر کے ہر علمبردار کی چھپی یا ظاہری آرزو ہوتی ہے کہ وہ فکری آزادی یا اس کے اظہار کا منہ بند کر دے۔ اگر ہم گہرائی میں جاکر جبر کی پروردہ ذہنیت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ بظاہر جو بھی بلند بانگ دعوے کر رہے ہوں، اندر سے بہت چھوٹے، سماجی یا عوامی شعور و آگہی سے ڈرے ہوئے خوفزدہ لوگ ہوتے ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک سچا کھرا اور باصلاحیت انسان اپنی جدوجہد اور کارکردگی سے انسانوں کے دلوں کو فتح کرتا ہے لیکن ایک چھوٹے درجے کے جھوٹے، نا اہل، کٹھ پتلی کا کردار نبھانے والے میں خدمت کے ذریعے دلوں کو جیتنے کا وصف ہوتا ہے، نہ صلاحیت مگر حکمرانی کی حرص و ہوس شدید تر ہوتی ہے۔ جب ایسے لوگ کارکردگی دکھانے سے قاصر رہ جاتے ہیں تو لازمی بات ہے اُن پر عوامی تنقید ہوتی ہے جسے یہ سن نہیں سکتےنتیجتاً یہ ہر تنقیدی آواز کو دبا دینے کی کاوش کرتے ہیں۔

اس وقت پاکستان اور افغانستان کی صورتحال درویش کے پیش نظر ہے۔ پاکستان بوجوہ افغانستان سے جدت پسند ہے اس لئے مخالفانہ جلوس نکالنے پر حکومتی گماشتے وہ ردعمل دکھانے سے قاصر رہ جاتے ہیں جس کے یہ اندر سے حریص ہوتے ہیں جبکہ افغانستان میں حالیہ دنوں خواتین کے مخالفانہ جلوس کی کوریج پر صحافیوں کو بری طرح ذہنی و جسمانی طورپر ٹارچر کیا گیا ہے بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ تم لوگوں کی سزا تو کچھ ’’اور‘‘ بنتی تھی فی الحال اس پر اکتفا کرتے ہیں۔ ماقبل ایک مزاحیہ آرٹسٹ کی تذلیل کرتے ہوئے اسے جہاں پہنچایا ہے، وہی پہنچا سکتے تھے جبکہ پاکستان میں صحافت کی زباں بندی کیلئے پلاننگ کرتے ہوئے مختلف تجاویز پر سوچ بچار جاری ہے۔ اگر حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو صحافتی زباں بندی کیلئے یہاں مزید کسی پلاننگ کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہاں پہلے ہی بغیر پلاننگ جو قدغنیں اور بندشیں ہیں اگر ان کی تفصیل تحریر بھی کر دی جائے تو وہ ناقابلِ اشاعت قرار پائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ابلاغیات کی اتنی بڑی انقلابی ترقی کے باوجود کم از کم ہمارے پرنٹ میڈیا پر آج بھی بہت سی ایسی قدغنیں ہیں جو کسی سابقہ مارشل لادور میں بھی نہیں تھیں شاید اس لئے بہت سے لوگ اسے غیرا علانیہ مارشل لا سے تعبیر کرتے ہیں۔ایک مرتبہ ناچیز کے ساتھ سرسیدؒ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ اگر سرسید ؒنہ ہوتے تو آج ہماری حالت بھی افغانستان سے مختلف نہ ہوتی، عرض کی، ڈاکٹر صاحب یہ بات بھی ہے لیکن اس کا بڑا کریڈٹ ہندوستان میں انگریز حکومت کو بھی جاتا ہے جنہوں نے یہاں اظہار رائے کیلئے بھرپور آزادیاں دے رکھی تھیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے لوگ اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے مسلح بلوئوں کو روکنے کیلئے حدود کو عبور کرتے ہوئے بھی پائے گئے مگر عمومی آزادیوں کا تصور اتنا بلند رہا کہ جس کا تقابل ہم مابعد آزاد وطن کی قدغنوں سے نہیں کر سکتے جبکہ افغانستان میں ایسی آزاد فضا کا ایک محدود عرصہ حالیہ 20برس ہیں جن کی بدولت نئے نظریہ جبر کو وہاں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ آنے والے مہینوں میں وہ جتنا اسے دبائیں گے، مہذب دنیا میں ان پر تنقید بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار پر بندشوں کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی سماج پھر اول و آخر جھوٹ کے سہارے چلتے ہیں۔ یکطرفہ پروپیگنڈے سے بونے کو قدآور اور قدآور کو بونا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

حالیہ دنوں یکساں نصاب کی تدوین و تدریس کا خوب پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے حالانکہ اس میں سوائے نئی نسلوں کے اذہان کو مزید بوجھل بنانے کے اور کچھ بھی نہیں، جن کے اپنے بچے انگریزی زبان و ماحول میں پلتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم قوم کے بچوں کو غیرملکی زبان و کلچر نہیں پڑھنے دیں گے۔ یہاں مطالعہ پاکستان کے نام پر قوم کے نونہالوں کو جو کچھ پڑھایا جاتا ہے کاش کبھی اس کا کھلا محاسبہ کرنے کی بھی اجازت ہو۔ اس کے باوجود ہم امید رکھتے ہیں ایک نہ ایک دن یہاں بھی انسانی حقوق اور آزادیوں کا شعور اور سویرا اسی طرح ہویدا ہو گا جو مہذب اقوام کا خاصا ہے، اس سے یہاں جمہوریت بھی مستحکم ہو گی اور آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی حقیقت بھی قائم ہو سکے گی اور اسی رستے پر چلتے ہوئے عوامی دکھوں کا مداواممکن ہے۔