پنجاب بیوروکریسی اور سیاسی مداخلت

September 16, 2021

تحریر: ہارون مرزا ۔۔۔راچڈیل
کسی بھی ملک ، ریاست یا شہر میں امن و امان کی مثالی صورتحال ترقی وخوشحالی ، آئین وقانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی صرف اسی صورت ممکن ہے جب ریاستی اداروں کو حاصل اختیارات کے تحت انہیں آزادانہ حیثیت میں کام کرنے کا پورا اختیار دیا جائے مگر بدقسمتی سے ریاست مدینہ کی دعویدار موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کی بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ بیوروکریٹ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ عملی طو رپر مفلوج ہو کر رہ گئے ‘ ممبران اسمبلی کو راضی کرنے کیلئے ان کے اضلاع میں انتظامیہ اور پولیس سمیت مختلف محکموں کے سربراہان کی تعیناتیاں کسی صورت بھی اچھی گڈ گورننس قائم نہیں کر سکتیں مرکزی حکومت کی طرف سے چند یوم قبل ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے پنجاب انتظامیہ کے دو اعلیٰ عہدیداروں چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو عہدوں سے ہٹا کر نئی تعیناتیاں کی گئیں،ایک طرف وزیر اعظم عمران خان بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں اور میرٹ پر کام کرنے پر ہمیشہ زور دیتے نظر آتے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ کی پسند نا پسند کا خیال کرتے ہوئے انتظامیہ کے دونوں سربراہوں کو فارغ کر دیتے ہیں،قلیل عرصے میں اچھے افسران کی تبدیلی جہاں ایک طرف انتظامیہ میں بد دلی کا باعث بنی ہے تو دوسری طرف موجودہ حکمرانوں کے ان دعوئوں کی بھی قلعی کھل جاتی ہے جہاں وہ میرٹ پر فیصلوں، اور سیاست کی غیر دخل اندازی کا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیںیوں تو امن و امان کی صورتحال تمام صوبوں میں مثالی قرار نہیں دی جا سکتی البتہ موجودہ حکومت کے صوبائی عہدیداران کو اگر یہ دونوں افسران اچھے نہیں لگتے، یا یہ دونوں ان کے ناجائز مطالبات نہیں مانتے تو اس کا حل یہ نہیں کہ انہیں ہٹا دیا جائے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں افسران کو یکسوئی ، دلجمعی اور آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے نہ کہ ہر تھوڑے عرصے بعد تبدیلی کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہے پورے ملک میں عموماً اور پنجاب میں خصوصاً علاقے کی سیاسی برتری تھانے کے گرد گھومتی ہے سیاسی لیڈروں کی فرعونیت اور برتری تھانے میں ان کی شنوائی سے منسلک ہوتی ہے ،بے گناہ کو پکڑ لو، گنہگار کو چھوڑ دو‘ یہی کام ہوتا ہے ان علاقائی لیڈروں، ایم پی ایز، ایم این ایز کا‘ان کی بات نہ مانو ، تو آپ ناقابل برداشت شخصیت بن جاتے ہیں پھر آپ یا تو امن وامان ٹھیک کر لیں، یا اپنے ایم پی ایز کو راضی کر لیں، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں چیف آفیسر اور آئی جی کے تبادلے کے بعد یہ خبر ذرائع ابلاغ کی زینت بنی کہ صوبے میں بڑی تعداد میں افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کر عمل شروع ہوگیااب ڈی آئی جیز تبدیل ہونگے، ایس پیز نئے آئینگے‘ تھانیدار بدلے جائینگے‘ ایم پی اے حضرات فخر سے سینہ تان کے کہیں گے کہ ہم نے افسران کو تبدیل کرا دیا ‘نئے آنیوالے افسران ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہونگے ‘ جو حکم سرکاری تعمیل ہوگی ‘ تبدیلی سرکار کی یہ تبدیلی کسی طور بھی اچھی گورنینس کی نشاندہی نہیں کرتی ‘ہماری سیاست کب تک تھانے اور جی حضوری کے گرد گھومتی رہے گی تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے اب تک اپوزیشن حکومت کی سرکاری محکموں میں مداخلت پر کھل کر تنقید کرتی آ رہی ہے مگر حکمران میں نہ مانوں کی ضد لگائے اس امر سے مسلسل انکاری ہیں کہ ان کی محکموں میں مداخلت زیرو ہے ضمنی الیکشن ہو ‘ یا نیب کے مقدمات کی تحقیقات کا معاملہ اداروں میں حکومتی مداخلت کو کسی نہ کسی حوالے سے ہمیشہ جوڑا گیا ہے پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر بیوروکریسی کو سیاست سے فری کرے گی اور بیوروکریسی میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی اور ہر ملازم اور ہر افسر میرٹ پر تعینات کیا جائے گا اور وہ میرٹ پر ہی کام کرے گا مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا بلکہ الٹی گنگا بہتی نظر آرہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ بیوروکریسی کو آزادحیثیت سے کام کرنے کے لیے وسیع اختیارات اور سیاسی مداخلت کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جائے ممبران اسمبلی کی مداخلت کر کے نہ صرف محکموں کی کارکردگی میں نکھار لایا جا سکتا ہے بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان پید اہونے والا خلاء بھی پر ہو سکتا ہے ایک عام آدمی کو زیادہ تر شکایات پولیس اور محکمہ ریونیو سے متعلقہ ہوتی ہیں اگر حکومت ان دو محکموں کو درست کر لے تو عوام کی نوے فیصد شکایات کاخاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے پولیس اور محکمہ مال میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جس کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ صرف ایڈمنسٹریشن ہی محکموں کی کارکردگی کی نگرانی کرے یہ وزیر اعلیٰ کی ڈیوٹی ہے کہ وہ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنائیں اور انہیں اپنی ٹیم بنانے کا موقع دیں نہ کہ آئے روز تبادلوں کا طوفان کھڑ اکر کے ان کے لیے سنگین مسائل پیدا کیے جائیں یہ امر مصدقہ ہے کہ گڈ گورننس کے لیے بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔