ایک بستی ہزار دُکھ

September 17, 2021

دنیا کا مشاہدہ کرنے والوں کو میرا ایک ہی مشورہ ہے۔ غریبوں کی مفلسی کو بس دور ہی سے دیکھا کریں، ان کی زندگی میں زیادہ اندر گئے تو دل پھٹ جائے گا۔یہ کوئی ترقی پسند افسانہ نہیں، یہ واردات ہے جو میرے دل پر گزری ہے۔ کچھ ایسا ہوا اور حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ مجھے ضلع رحیم یارخان کے دیہی علاقے میں مفلسی کے مارے ہوئے لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔پھر جو میرے سامنے دکھوں کی داستانیں کھلیں تو بات ہزار داستاں سے بھی آگے نکل گئی۔ پتہ چلا کہ جینا کبھی کبھی عذاب بن جاتا ہے، دکھ سننا اور سن کراثر قبول نہ کرنا مشکل ہے۔تنگ دستی کی تفصیل میں خدا کسی کو نہ لے جائے۔ پھر تو ایسا ہوا کہ میں اپنا روزنامچہ لکھنے پر آتا تو جلدوں پر جلدیں مرتب ہوجاتیں اور یہ کہانیاں کبھی ختم ہونے کا نام نہ لیتیں۔ اب صورت یہ ہے کہ اپنی بات کو بالکل تازہ واقعے تک محدود رکھتا ہوں۔ قارئین اسی پر قیاس کر سکتے ہیں کہ اس زنبیل میں اور کیسی کیسی قیامتیں چھپی ہیںجو ٹوٹ پڑیں تو سننے والا بھی چور چور ہوجائے۔

یہ بستی کے ایک گھرانے کی کہانی ہے جس میں ایک محنت کش ماں اور اس کی جوان بیٹی رہتی تھی۔ ماں بڑی مشقت اٹھا کر ایک ایک روپیہ جمع کر رہی تھی۔اسے بیٹی کی شادی کی فکر تھی۔ ادھر خود بیٹی کو جیسے بھی بنے ایک موبائل فون حاصل کرنے کی فکر تھی۔ اس کے سر پر دھن سوار تھی کہ جیسے فون ہرایک ہاتھ میں اٹھائے گھوم رہا ہے ، ویسا ہی موبائل فون اسے بھی مل جائے۔ اسی دوران نہ معلوم کس طرح اوکاڑہ کے ایک شخص نے لڑکی سے رابطہ کیا اور اسے تیس ہزار روپے کے عوض جدید فون دلا نے کی پیش کش کی۔ لڑکی نے ماں کی عمر بھر کی جموتی چرائی اور اوکاڑہ کے شخص کو بھیج دی۔ رقم بھیجتے ہی اس شخص کے فون بند ہوگئے اور وہ خود غائب ہوگیا۔ وہ تو جو ہوا سو ہوا۔ماں کو جو پتہ چلا کہ بیٹی نے اس کی ساری کمائی چرا کر کسی اجنبی کو بھیج دی ہے، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اورلڑکی کو بری طرح مارا پیٹا۔ لڑکی نے بھی دیر نہ لگائی اور زہر کھا لیا۔آس پاس کے لوگوں نے جن سے میرا رابطہ تھا، لڑکی کو اسپتال پہنچایا اور خدا جانے کیسا اسپتال تھا جہاں ڈاکٹر نے پینتیس ہزار روپے طلب کئے۔ اب پوری بستی میں رقم کی تلاش شروع ہوئی ۔ پتہ چلا کہ پوری بستی میں کوئی دس روپے دینے کا بھی اہل نہ تھا۔ لڑکی کے بدن میں زہر کا اثر پھیل رہا تھا۔ مجھے خبرکی گئی، میں نے بھاگ دوڑ کرکے رقم بھیج دی۔علاج شرو ع ہوا۔ معلوم ہوا کہ لڑکی کا معدہ دھو دیا ہے اور وہ روبصحت ہے۔ شام تک وہ ہوش میں تھی اور باتیں کر رہی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ آدھی رات کو وہ چل بسی۔ماں خود کو پیٹ کر رہ گئی۔ دکھوں کی دوسری داستان یہاں شروع ہوتی ہے۔ لڑکی مر گئی،نہیںمعلوم کیسے اس کی میت کچے پکے گھر پہنچائی گئی۔ اچانک اہل علاقہ نے نگاہیں پھیر لیں۔ ہر ایک کہیں نہ کہیں جا کر مصروف ہوگیا۔لوگ یوں اجنبی بن گئے جیسے جان پہچان ہی نہ ہو۔ اب مسئلہ تھا لڑکی کے کفن اور دفن کا۔پتہ چلا کہ علاقے کے لوگ نگاہیں چرا رہے ہیں کہ کہیں ان سے چندا نہ مانگا جائے۔ لڑکی کے کوئی چاچا آئے تھے ، وہ بھی کسی بات پر خفا ہوکر پیر پٹختے ہوئے چلے گئے۔ گرمی کی شدت بڑھ رہی تھی اور میت سے بو اٹھنے لگی تھی۔آخر پھر میرے پاس پیغام آیاکہ لڑکی کا کفن دفن کرنا ہے اور گھر میں ایک وقت کی روٹی بھی نہیں ہے۔پھر دوڑ دھوپ کر کے جدید برقیاتی نظام سے رقم بھیجی گئی۔ خدا جانے کیوں کر تدفین ہوئی ۔ شاید کسی نے ترس کھاکر قبر میں اتارا ہوگا ورنہ آس پاس کے لوگ دامن جھاڑ کر دکھا چکے تھے کہ وہاں ایک تنکا بھی نہیں۔

بس ، علاقے کی دوسری کہانیاں نہیں کہوں گا۔ اتنا جانتا ہوں کہ بڑے شہروں میں رہنے والے قیاس بھی نہیں کر سکتے کہ دور دراز گاؤں دیہات میں لوگ کیسے جیتے ہیں اور کیسے مر جاتے ہیں کہ ان کی تو خبر بھی نہیں چھپتی۔دکھ جھیلتے ہیں اور گزر جاتے ہیں کہ یہی ان کے دن کا دستور ہے اور یہ یہی ان کی راتوں کا چلن۔میں جانتا ہوں کہ رحیم یار خان کے اسی علاقے میں ایک جوان لڑکی کے سینے میں کینسر ہوا، وہ بھی اتنا شدید کہ سینے میں سوراخ کھل گیا۔ اس نے فیس بُک پر تصویر پوسٹ کی، احباب نے فوری آپریشن کے لئے اسے بھاری رقم بھیجی۔ ان پڑھ ماں اپنی بیٹی کو لے کر رحیم یار خان کے بڑے بازار میں پہنچی ا ور وہاں لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کوئی اچھا ڈاکٹر ہے۔ کسی نے ایک اتائی ڈاکٹر کا پتہ بتا دیا۔ ڈاکٹر نے دیکھ کر کہ ماں بیٹی بڑی رقم لائی ہیں، اپنے نام نہاد شفا خانے کے عقبی کمرے کو آپریشن تھیٹر بنا کر لڑکی کا سینہ چاک کردیا۔ لڑکی تین دن تک تڑپتی رہی اور مر گئی۔اس کے کفن اور دفن بھی فیس بُک کے احباب کی مدد سے ہوئے ورنہ وہاں بھی ایک وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ یہاں ایک بات اور۔ ہمیں اور آپ کو یہ بڑے واقعات لگ رہے ہیںکہ جن کے بعد دماغ کئی روز سُن رہتا ہے۔ میرا خیال ہے بستی والے ایسے قصے کہانیوں کے عادی تھے، اگلی ہی صبح اپنے معاملات میں الجھ کر سب کچھ بھول بھال گئے۔

بس اس کے بعد کوئی داستان نہیں کہوں گا۔زمانے میں دکھ ہی دکھ ہیں ، کہاں تک کہیں اور کہاں تک سنیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان بڑا ہی سخت جان ہے۔ ہر طرح کے حالات میں جی لیتا ہے ورنہ قدرت کا پرانا وتیرہ ہے: آج مرے ،کل دوسرا دن۔