ہمارا ملک، ہمارے حکمراں

September 17, 2021

اسکردو میں اٹھارہ گھنٹے گزار کر واپسی کے لئے ایئرپورٹ آیا تو سوچ میں پڑ گیا دنیا میں کتنے ہوائی اڈے ایسے ہوں گے جنہیں چاروں اطراف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہو گا؟ خدائے لم یزل کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس دھرتی کو ایسے اور اس قدر حسن سے نوازا ہے۔ جہاز نے اڑان بھری، کھڑکی سے جھانکا تو نظر آیا خوبصورتی ہر طرف بکھری پڑی ہے، دنیا کے بلند ترین پہاڑوں پر برف کی چادر بچھی ہے، بادلوں نے ماحول پر سحر طاری کر رکھا ہے۔ کبھی ایسے لگا جیسے پوری فضا دودھ میں نہائی ہو، کبھی ٹکڑوں میں جمی برف ایسے لگی جیسے ساحل پر سفید کشتیوں نے چاندنی اوڑھ رکھی ہو، یوں بھی لگا، پہاڑوں پہ جیسے بکھری ہوں سیپیاں۔ بادل کبھی دھویں کی صورت، کبھی روئی کے گالوں جیسے، کہیں دھوپ نے برف کو مزید چمکا دیا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا، جہاز کی کھڑکی سے چند تصویریں لیں اور پھر ان تصویروں کو سوشل میڈیا کی نذر کر دیا، ساتھ ہی لکھ دیا قدرت نے ہمارے پیارے پاکستان کو خوبصورتی سے نوازا ہے کیونکہ ان نظاروں میں کہیں فطرت کی ہیبت گونج رہی تھی، کہیں خوبصورتی بول رہی تھی تو کہیں حسن برس رہا تھا۔ جونہی یہ تصاویر لوگوں کی نظروں سے گزریں تو بڑے باکمال تبصرے ہونے لگے، کسی ایک نے بتایا کہ حکیم سعید کہا کرتے تھے ’’پاکستان سورئہ رحمٰن کی تفسیر ہے‘‘۔ جو تبصرہ سب سے زیادہ آیا وہ یہ تھا ’’ہمارا ملک بہت اچھا ہے مگر ہمارے حکمران اچھے نہیں، پاکستان تو بہت پیارا ہے لیکن یہاں لیڈر اچھے نہیں ہیں، پچھلے ستر برسوں سے ہم پر ایسے حکمران مسلط ہیں جنہیں ملک سے زیادہ اپنی فکر رہتی ہے‘‘۔ سب سے زیادہ آنے والے تبصرے میں ملک کے اہل سیاست کے لئے بڑا سوال ہے کہ آخر لوگ ان کے بارے میں ایسا کیوں سوچ رہے ہیں؟ ہمارے سیاستدانوں کو اپنی خطائوں کا جائزہ لینا چاہئے، انہیں جھوٹ اور جھوٹے وعدوں سے گریز کرنا چاہئے۔ سیاستدانوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر لوگ ان سے متعلق اس طرح کی مجموعی رائے رکھتے ہیں۔ ملک تو واقعی پیارا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت نے اسے بہت نوازا ہے مگر ایک سوال یہاں کے لوگوں کے لئے بھی بہت اہم ہے کہ خدا نے اپنی آخری الہامی کتاب میں فرمایا ’’تم پر تمہارے جیسے حکمران مسلط کر دیئے جائیں گے‘‘۔ اب لوگوں کو اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ان کے حکمران اچھے نہیں ہیں تو کیا وہ خود اچھے ہیں؟ ہمارے لوگ کیوں ان لیڈروں کے پیچھے بھاگتے ہیں؟ یہاں وراثتوں میں سیاست کیوں پلتی ہے، یہاں کا عام آدمی ایوانوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتا؟ اگر لیڈروں کے سامنے سوالات ہیں تو عوام کے لئے کہیں زیادہ سوالات ہیں۔

اسکردو جانے کا ایک ہی مقصد تھا کہ وہاں بزم علم و فن کے زیر اہتمام ایک کانفرنس ’’حسینؓ سب کا‘‘ منعقد ہو رہی تھی، بزم علم و فن اسکردو اٹھائیس سال سے یہ کانفرنس کروا رہی ہے، اس کانفرنس کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں تمام مذاہب کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی سینیٹر گردیب سنگھ کے علاوہ ہندو اور مسیحی نمائندے موجود تھے، کانفرنس کی صدارت مذہبی امور کے وفاقی وزیر پیر نورالحق قادری کی پرواز منسوخ ہونے کے باعث متحدہ جمعیت اہل حدیث کے امیر سید ضیاء اللہ شاہ بخاری نے کی ورنہ وہ تو مہمان خصوصی تھے۔ یہاں ننھے مگر شہرت یافتہ ثناء خوان حسینؓ معظم علی مرزا سے بھی ملاقات ہوئی۔ بزم علم و فن اسکردو کا فلسفہ یہ ہے کہ ’’ادب وسیلہ اتحاد، محبت وسیلہ امن‘‘۔ تمغۂ امتیاز کے حامل میر اسلم حسین سحر اس بزم علم و فن کے سربراہ ہیں اور انہیں جاوید اقبال جیدی جیسے ساتھی بھی دستیاب ہیں۔

اس موقع پر اہالیانِ اسکردو کی خدمت میں عرض کیا کہ لوگ عظمت کو دولت اور حکومت میں تلاش کرتے ہیں حالانکہ عظمت کردار سے ملتی ہے۔ یہ راستہ چودہ سو برس قبل حضرت امام حسینؓ نے لوگوں کو دکھا دیا تھا۔ کاش لوگ سمجھ جاتے اور اپنے کرداروں کو بہتر بناتے مگر لوگوں کو دولت کی ہوس کھا گئی، اقتدار کی خواہش انہیں لے ڈوبی، لوگ ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں خواہ اس کی قیمت کردار کی پستی ہی کیوں نہ ہو۔

اسکردو سے واپسی ہوئی تو کنٹونمنٹس کے الیکشن کے نتائج کا سامنا تھا۔ پتہ چلا کہ لاہور، پنڈی اور ملتان سے الیکشن ہارنے پر وزیر اعظم اپنی پارٹی کے رہنمائوں پر غصہ نکال رہے ہیں، ان کے محبوب وزیر اعلیٰ کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ تین سال میں کئی معتبر اور طاقتور افراد نے وزیر اعظم سے متعدد بار کہا کہ اس کو ہٹا دیں مگر وزیر اعظم نے عمل نہ کیا، عمل نہ کرنے کی بڑی وجہ وزیر اعظم کے گرد سات افراد کا دائرہ ہے، اس دائرے میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ اگر وزیر اعظم نے سات کا یہ دائرہ نہ توڑا تو ساڑھ ستی لگ سکتی ہے۔ اب تو ن لیگ کے رہنما رانا ثناء ﷲ علانیہ کہہ رہے ہیں کہ ایوان وزیر اعلیٰ میں بولیاں لگتی ہیں۔

وزیر اعظم غصے میں ہیں تو انہیں کنٹونمنٹس الیکشن کا مکمل جائزہ لینا چاہئے۔ وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کے علاوہ ٹکٹوں کی تقسیم کا بھی جائزہ لینا چاہئے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ اس سلسلے میں دولت کی جادوگری نے ہاتھ دکھایا ہے، دولت سے کچھ چیزیں تو حاصل ہو سکتی ہیں مگر عزت اور عظمت نہیں، سیاست میں خدمت کو عبادت سمجھا جانا ہی بہترین فلسفہ ہے۔ ن لیگ کی قیادت تو خواجہ سعد رفیق اور ملک ابرار کو مبارکباد دے چکی، کیا وزیر اعظم نے پنجاب میں گوجرانوالہ، کھاریاں اور جہلم کی پی ٹی آئی قیادت کو مبارکباد دی ہے۔ جہلم میں تحریک انصاف کے نوجوان رہنما چودھری فراز حسین نے بہت محنت کر کے پارٹی امیدواروں کو جتوایا۔ وزیر اعظم ہارنے ہروانے اور جیتنے جتوانے والوں میں فرق محسوس کریں۔ بقول حسن عباس رضا ؎

شہر دلِ تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھلے

کیا بچ گیا ہے راکھ میں اور کیا تمام شُد