دفاعِ پاکستان کے نئے زاویے

September 17, 2021

الحمدللہ اِس بار پورے ملک میں یومِ دفاع غیرمعمولی جوش و خروش سے منایا گیا جو اِس حقیقت کا مظہر ہے کہ عام شہری میں آزادی کی قدروقیمت اور ایک ناقابلِ تسخیر دفاع کی اہمیت کا احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ جی ایچ کیو کے مرغزار میں منعقدہ مرکزی تقریب کے مہمانِ خصوصی سپریم کمانڈر اور صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی تھے۔ اُن کی تقریر میں ایک ادبی شان اور کمال کی بلاغت کارفرما تھی۔ اُنہوں نے چند لفظوں میں درخشاں مستقبل کا نسخہ تجویز کیا جو عوام کی طاقت پر یقین، ریاست پر غیرمتزلزل اعتماد اور صفوں میں اتحاد پر مشتمل ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے اور 5؍اگست 2019 کے جابرانہ اقدامات کو مکمل طور پہ مسترد کرتے ہیں۔ فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کشمیری عوام کے عظیم الشان جذبۂ آزادی، شہیدوں کی قربانیوں بالخصوص سید علی گیلانی کی طویل اور تاریخ ساز جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں کشمیر کو کلیدی مسئلہ قرار دیا۔

جی ایچ کیو کی یہ تقریب جس میں شہیدوں کے خاندان اور غازی بڑی تعداد میں شرکت کر رہے تھے اور سیاست دانوں کے علاوہ ہر طبقے کے نمائندے موجود تھے، اُس میں فوج کے اعلیٰ ترین منصب داروں کے کشمیر کے بارے میں ایقان افروز اعلانات ایک نئی معنویت رکھتے ہیں، کیونکہ گزشتہ دو برسوں میں بعض بااختیار اصحاب کی طرف سے محبت شکن بیانات آتے رہے۔ بڑے یقین سے کہا جاتا رہا کہ اگر مودی اقتدار میں آگیا تو مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا، بعدازاں اسی مودی نے اقتدا سنبھالتے ہی بھارتی آئین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برخلاف مقبوضہ کشمیر کو بھارتی قلمرو میں شامل کر لیا۔ بالائے ستم یہ کہ ہمارے ایک باتدبیر وزیر سے 5؍اگست کے اقدامات کے بارے میں پوچھا گیا، تو اُنہوں نے بڑی بےپروائی سے فرمایا کہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اِس بیان سے یہ تاثر پھیلنے لگا کہ گویاکشمیر کا سودا کیا جا رہا ہے۔ 6ستمبر کی مرکزی تقریب نے پوری قوم کو یہ ضمانت دی ہے کہ قائدِاعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دِیا تھا، ہم اُسے جانوں پر کھیل کر بھارت کے چنگل سے آزاد کرائیں گے۔

ہمارے پُرعزم سپہ سالار نے قوم کو مژدہ سنایا کہ ہم اپنے دفاع میں بڑی حد تک خودکفیل ہو چکے ہیں اور پیشہ ورانہ مہارت کے اعتبار سے پاکستانی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ اِس خوشخبری کے بعد اُنہوں نے دفاعِ وطن کا نئے زاویوں سے احاطہ کیا جو ہمہ پہلو ذہنی تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُنہوں نے بڑی وضاحت سے بیان کیا کہ اب جنگ کے طور طریق یکسر بدل گئے ہیں اور ہائیبرڈ وَار اور اَعلی ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے جس میں ذہنی صلاحیتوں کا سائنسی انداز میں استعمال اور عوام اور فوج کے درمیان اعتماد کے مضبوط رشتے انتہائی ناگزیر ہیں۔ یہ بھی واضح کیا کہ عوام کی حمایت کے بغیر فوجیں ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں جیسا ہم نے افغانستان میں دیکھا ہے۔ اُنہوں نے دوسری اہم بات یہ اجاگر کی کہ وطن اور دِفاع کی مضبوطی کے لیے آئین اور جمہوریت کی پاسداری ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے۔ یہی بات آٹھ دس ماہ پہلے سابق فوجی سپہ سالار جنرل (ر) راحیل شریف نے چند احباب سے ایک ملاقات کے دوران کہی تھی۔ اُن سے پوچھا گیا کہ ہمارے ملک میں فوج کا کیا کردار ہونا چاہیے، تو اُنہوں نے بےاختیار کہا تھا کہ قائدِاعظم فوج کے کردار کا تعین جون 1948 ہی میں اسٹاف کالج میں فوجی افسروں سے خطاب کے دوران کر گئے تھے۔ اُنہوں نے پُرزور لہجے میں فرمایا تھا کہ ’’اعلیٰ اسطح کے دو افسروں سے دورانِ گفتگو مجھے معلوم ہوا کہ وہ حلف کے منشا سے واقف نہیں جو افواجِ پاکستان نے اٹھایا ہے۔ مَیں وہ حلف پڑھ کر آپ کی یادداشت تازہ کرنا چاہتا ہوں ..... آپ آئین کا مطالعہ کریں۔ جب آپ کہتے ہیں کہ مَیں آئین کا وفادار رہوں گا، تو آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ آپ اُس کے صحیح آئینی اور قانونی مضمرات پوری طرح سمجھتے ہیں۔‘‘

آرمی چیف نے ایک اور بڑے خطرے کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا کہ اب دشمن جھوٹی خبروں اور افواہوں سے حملہ آور ہوتا ہے اور قومی یک جہتی میں دراڑیں ڈالنے کی سازشیں کرتا رہتا ہے۔ 1965کی جنگ میں دشمن نے بدحواس ہو کر افواہیں پھیلانا شروع کر دی تھیں جن سے عوام کے اندر قدرے بےچینی پھیلنے لگی تھی۔ مَیں نے ریڈیو پاکستان سے اِس موضوع پر دو تقریریں کی تھیں جن کا خاطرخواہ اثر ہوا تھا۔ گھٹن میں افواہیں پھیلتی ہیں اور غیرمنصفانہ اور غیرجمہوری نظام لوگوں کو اپنے مستقبل سے مایوس کر دیتا ہے اور دُشمن اُسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہماری بہادر فوج نے دہشت گردی کے خاتمے میں محیرالعقول کردار ادا کیا ہے۔ ہم پُرامید ہیں کہ ہماری عسکری اور سیاسی قیادتیں اعلیٰ ظرفی اور ہوشمندی سے کام لیں گی اور جوتیوں میں دال بانٹنے کے بجائے سر جوڑ کر بیٹھنے کی روایت کو فروغ دیں گی۔

اب ایک طرف بڑے مناصب پر چھوٹے لوگ براجمان ہیں جبکہ عظیم لوگ تیزی سے اٹھتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے لاہور سے ڈاکٹر صفدر محمود اور طارق اسمٰعیل ساگر اور کراچی سے عظیم سرور ﷲ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے تحریک ِ پاکستان میں تحقیق کا حق ادا کیا اور اُن حضرات سے حقائق اور دَلائل کی بنیاد پر جہاد جاری رکھا جو قائدِاعظم کو ایک سیکولر لیڈر ثابت کرنے کے لیے تاریخ سے کھیلتے رہے۔ عظیم سرور ایک زبردست براڈ کاسٹر تھے اور اُنہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تفہیم القرآن کی چھ جلدیں اپنی منفرد آواز میں محفوظ کی تھیں۔ اُنہوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے ریڈیو پاکستان میں اسلام کے آفاقی تصورات داخل کر دیے۔ طارق اسمٰعیل ساگر کے ناول نوجوانوں میں حب الوطنی کے جذبات پیدا کرتے رہے۔ ﷲ تعالیٰ اُن سب کے درجات بلند فرمائے، اُن کے ورثا کو صبرِ جمیل عطا کرے اور نئی نسل سے اُن جیسی شخصیتیں بھی پیدا ہوتی رہیں! ڈاکٹر صفدر محمود اور عظیم سرور سالہا سال روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے رہے جن میں روحانی تجربات بھی شامل ہوتے تھے۔